تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-03-2015

کوئی روک سکتا ہے؟

چند دن ہوئے‘ قطر سے ایل این جی کا معاہدہ طے پا چکا ہے لیکن ماہرین حیران ہو رہے ہیں کہ جس دن یہ معاہدہ کیا گیا‘ اس وقت ایل این جی کا عالمی مارکیٹ میں نرخ2.69 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھا لیکن یہ معاہدہ سات ڈالر میں کیوں کیا گیا( جبکہ خبر کے مطا بق اس کی قیمت‘ ٹرانسپورٹیشن اور اصلی گیس کی شکل میں لانے کے اخراجات کے بعد سترہ ڈالر ہو گی)۔ 11مئی 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں جب مسلم لیگ نواز کی اسلام آباد میں تیسری بار حکومت قائم ہو گئی تو مرکزی اقتدار پر براجمان ہونے والی اس حکومت کے بارے میں یہی تصور کیا جا رہا تھا کہ حالات کے جبر کا شکار ہونے والی اس جماعت کی قیا دت نے گزشتہ سالوں کی جلا وطنی کے دوران بہت سے سبق سیکھے ہوں گے۔ میاں برادران سے یہی امید کی جا رہی تھی کہ ملک کی طویل اندھیری سرنگ کے اندر وہ روشنی کی مشعل بن کر دکھائیں گے کیونکہ اپنے سے پہلے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان رہنے والوں کے بارے میں ہمیشہ ان کا ایک ہی رونا رہتا تھا کہ یہ لوگ ملک لوٹ کر اسے اجاڑ رہے ہیں ۔ جب مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا تو اپنے ایک مضمون '' گیس اور ایل این جی‘‘ میں انکشاف کیا تھاکہ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاملہ ختم ہونے جا رہا ہے اور اس کی جگہ قطر میں موجود ایک اہم شخصیت کے ذریعے پاکستان کو ایل این جی سے'' مستفید ‘‘کرانے کے معاملات طے پا رہے ہیں اور یہ ایل این جی نومبر2014ء سے پاکستان کو ملنا شروع ہو جائے گی لیکن نرخ زیا دہ طے کرنے کی خبر سے اس پر ہر طرف سے لے دے شروع ہو گئی اور مزید بات چیت سست روی کا شکار کر دی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ اس معاہدے پر عمل نہ ہو سکا‘ لیکن اب عجلت میں اس پر دستخط کر دیئے گئے ہیںاور ا س کی وجہ بہت جلد سامنے آنے والی ہے کیونکہ حکومت میں بیٹھے ہوئے چند انتہائی اہم ترین ذرائع دبی دبی زبان میں کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ ایل این جی کیلئے جب امریکہ کی ایک کمپنی سے بات کی جا رہی تھی تو اس نے ساڑھے سات ڈالر فی ایم ایم بی ٹو یو پر یہ قدرتی گیس دینے کی ہامی بھری تھی‘ لیکن اس کو اس لئے موخر کر دیا گیا کہ پاکستان تک اس کی ٹرانسپورٹیشن اور اس کو گیس میں تبدیل کرنے کیلئے کئے جانے اقدامات کے بعد اس کے نرخ چودہ ڈالر ہونے کا امکان تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا قطر سے کیا جانے والا سترہ ڈالر والا معاہدہ عوام کے سامنے لایا جائے گا؟ یا مستقبل میں اس معاہدے کو عوام تک رسائی دی جائے گی؟ ایران سے پاکستان اور بھارت تک گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار میں تیار کیا گیا تھا لیکن امریکہ کی سخت ناراضگی نے اسے ابھی تک التوا میں رکھا ہوا ہے۔ ایران نے اس پر اپنے حصے کا کام مکمل کر لیا ہے جبکہ پاکستان نے ابھی تک اپنے حصے کا صرف کمیشن ہی کھرا کیا ہے لیکن کام پر اس کی ذرہ برابر بھی توجہ نہیں اور یہ نیک کمائی پی پی پی کی سابق حکومت کے کھاتوں میں سے ہوتی ہوئی نہ جانے کہاں جا چھپی ہے۔ 
جب سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن پاکستان کے سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچی تھیں تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں صاف الفاظ میں پاکستان کو تنبیہ جا ری کی تھی کہ امریکہ آئی پی آئی کے حق میں نہیں بلکہ اس کا سخت مخالف ہے اور اس کے بجائے TAPI یا کسی اور ذریعہ سے پاکستان کی ضروریات پوری کرنے کی کوششیں کی جائیں گی لیکن اب امریکہ اپنی کمپنیوں کے بجائے نہ جانے کیوں قطر سے کئے جانے والے معاہدے کی حوصلہ افزائی یہ جاننے کے باوجود کر رہا ہے کہ اس طرح پاکستان کو ملنے والی ایل این جی انتہائی مہنگی ہے‘ کیونکہ اگر قطر سے سترہ ڈالر میں سودا طے پاتا ہے تو کیاGasification بھی قطر کی ذمہ داری ہو گی یا پاکستان کی کیونکہ اس پر علیحدہ سے بھاری اخراجات ہوں گے؟ کیا یہ بھی پاکستا ن کو برداشت کرنے پڑیں گے؟
پاکستان کے پاس گیس کے حصول کے دو ذرائع تھے۔ ان میں سے ایک ایران سے پائپ لائن کے ذریعے اور دوسر ا امریکہ کی مدد اور تعاون سے TAPI یعنی ترکمانستان سے افغانستان، پاکستان
اور بھارت تک۔۔۔ لیکن طویل فاصلے اور افغانستان کی دن بدن بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے تاپی منصوبے پر فوری عمل فی الحال ممکن نہیں ہو رہا۔قدرتی گیس کے بعد دوسرا ذریعۂ توانائی لیکوئیڈ قدرتی گیس(LNG) ہے اور یہ کم قدرتی وسائل رکھنے والے ہم جیسے ملک والوں کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا تھا۔ اپنے لکھے گئے مذکورہ مضمون میں بتایا تھا کہ بے شک ایل این جی کا مقصد توانائی کا سستا ترین ذریعہ حاصل کرنا ہے لیکن اس سودے کے اب تک جو خدو خال سامنے آ رہے ہیںاور موجودہ حکومت کی جانب سے سستی توانائی کے نام پر طے کئے جانے والے نرخ سب کے ہوش اڑا کر رکھ دیں گے۔ اپنے مذکورہ آرٹیکل میں میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ہماری وزارت پٹرولیم اور خزانہ قطر سے ایل این جی17 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے حاصل کر رہی ہے جبکہ امریکہ کی کمپنی Cheniere سے یہی ایل این جی بھارت10.50 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو خرید رہا ہے۔ اس قدر فرق کیوں؟ جب تحقیق شروع ہوئی تو بات درست نکلی۔ ہر کسی نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں کہ بھارت دس ڈالر جبکہ ہم سترہ ڈالر کے حساب سے یہ ایل این جی کیوں خریدنے جا رہے ہیں؟ اگر زائد ادا کئے جانے والے سات ڈالرفی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے صرف ایک سال کا فرق سامنے لائیں تو اس سے پاکستان کو ہر
سال پانچ کھرب ڈالر کا نقصان ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ہمہ وقت کمیشن اور لوٹ مار کرنے والوں کی چراگاہ ہی بنا رہے گا؟ اس سوال پر ہرطرف سے شور اٹھا اور لوگوں نے اس معاہدے کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے جس سے یہ ہوا کہ معاملہ کچھ دیر کیلئے اس طرح کھٹائی میں ڈال دیا گیا کہ جلد ہی لوگ بھولنا شروع ہو گئے۔ اسی دوران ملک بھر میں گیس کی خوفناک قسم کی لوڈ شیڈنگ شروع کرا دی گئی تاکہ عوام یہ نہ دیکھیں کہ ایل این جی کہاں سے اور کس قیمت پر خریدی جا رہی ہے بلکہ وہ پکار اٹھیں جہاں سے بھی ملے جس قیمت پر بھی ملے فوراً حاضر کرو اور اس فضا اور ما حول میں یہ معاہدہ ایک بار پھر پوری آب و تاب کے ساتھ میدان میں اتارا جا رہا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی اقتدار میں آنے والی ہر حکومت میں دس سالہ منصوبوں کی ایک وزارت ہوتی ہے۔ اگر یہ معاہدہ ہو گیا تو اے اہل وطن! اگلے دس سال میں یعنی2025ء تک وطن عزیز پاکستان کو 140 بلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس گھپلے کو روک لیا جائے تو اس رقم سے پاکستان پر واجب الادا تمام قرضے ادا کرنے کے بعد ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر بھی کئی گنا بڑھ سکتے ہیں لیکن یہ سب کرے گا کون؟ ہو سکتا ہے کہ آپ سوچنا شروع کر دیں کہ یہ ''ڈیل ‘‘ جو کرنے جا رہے ہیں اس میں ان کو پاکستانی روپوں میں کتنا فائدہ ہو گا؟ کسی نے ان ڈالروں کا روپوں میں حساب کرنا شروع کیا تو ہو سکتا ہے کہ کیلکولیٹر ہی کام کرنا بند کر دیں۔ اگر پاکستان ایران سے بجلی خریدسکتا ہے تو پھر سستی ترین قدرتی گیس کی پائپ لائن بچھانے میں کیا امر مانع ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved