یوں تو پوری پاکستانی قوم ہی دہشت گردوں کی درندگی کا نشانہ ہے ، لیکن ہماری قوم کے کچھ طبقے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اقلیتیں سرفہرست ہیں۔ ان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی علیحدہ ہے۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد‘ اجتماعی دہشت گردی کا شکار تو ہوتے ہی ہیں‘ جیسے مارکیٹوں‘ بازاروں اور عام اجتماعات میں ہونے والی دہشت گردی‘ جہاں پر ہر طبقے کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اس دہشت گردی میں مسلمان‘ عیسائی‘ شیعہ‘ ہندو‘ احمدی‘ سب اہل وطن کے ساتھ قربانی دیتے ہیں‘ مگر اس کے بعد انہیں علیحدہ علیحدہ بھی دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور یہ اکہری دہشت گردی نہیں‘ ہفت پہلو ہوتی ہے۔ مثلاً عیسائی ‘ ہندو اور احمدی ‘ سماج کی ہر پرت کا علیحدہ علیحدہ نشانہ بنتے ہیں۔ ان سب کی بدنصیبی مختلف سمتوں سے ان پر یلغار کرتی ہے۔ مثلاً انتظامیہ خصوصاً پولیس کی امتیازی بدسلوکی‘ ان کے ساتھ جداگانہ ہوتی ہے۔ معاشرہ انہیں الگ سے اچھوتوں کی طرح بیگانگی سے دیکھتا ہے۔ انہیں اپنی قوم کا حصہ نہیں سمجھتا۔ ان کے بنیادی حقوق دینا پسند نہیں کرتا۔ انہیں برابری کا مقام نہیں دیتا۔ ان کے کاروبار نہیں چلنے دیتا۔ انہیں اچھی ملازمتوں سے محروم رکھا جاتا ہے اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے‘ تو انتظامیہ اسے خاص اہمیت نہیںدیتی۔ اب میں صرف عیسائیوں کی طرف آتا ہوں۔ سب سے حقیر اور گندی محنت مزدوری‘ عیسائیوں کے لئے مختص ہے۔ گھروں‘ گلیوں اور بازاروں میں صفائی کرنا‘ عیسائیوں کے حصے میں آیا ہے۔ یہ سخت ترین محنت ہے‘ جو اس کمیونٹی کے لوگ ‘ ہمارے شہروں اور گھروں کو صاف رکھنے کے لئے انجام دیتے ہیں۔ اس پر ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ ان کے کام میں عزت بھی نہیں کی جاتی۔ اس وجہ سے انہیں کم حیثیت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی بدترین مزدوریاں‘ عیسائیوں کے حصے میں آتی ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال بھٹہ مزدوری ہے۔ ملک کا کوئی قانون‘ کوئی فلاحی ادارہ‘ کوئی سماجی تنظیم‘ کوئی این جی او‘ ان کی مدد کو نہیں آتی۔ دنیا میں مصیبت زدگان کی مدد کرنے والے زیادہ تر ملک‘ عیسائیوں کے ہیں۔ بیشتر این جی اوز کو سرمایہ بھی انہی کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستانی عیسائیوں کی بدنصیبی ہے کہ ان کے نام پر جتنی این جی اوز کو گرانٹ دی گئی‘ ان کی انتظامیہ ہی سب کچھ خردبرد کرتی رہی اور بعض افراد توخرد برد کی گئی اسی رقم کو جمع کر کے بیرونی ملکوں میں جا بسے۔
عیسائیوں کے بچے پڑھ لکھ جائیں‘ (بعض کو تو مشنری سکولوں میں مفت تعلیم بھی دی جاتی ہے۔) یہ بچے کتنے ہی لائق کیوں نہ ہوں؟ انہیں معاشرے میں اپنی علمی اور فنی مہارت کی مطابقت سے اچھی ملازمتیں نہیں ملتیں، کیونکہ یہ غریب ہوتے ہیں۔ یہ بیرون ملک بھی نہیں جا سکتے۔ میں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ عیسائی نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ ایسے دیکھے‘ جن کے پاس بیرون ملک جانے کے وسائل نہیں اور پاکستان ہی میں چھوٹی موٹی پرائیویٹ نوکریاں کر کے گزر اوقات کر رہے ہیں۔ یہ اجتماعی ناانصافی کی بدترین مثال ہے۔ کچھ انجینئرز اور ڈاکٹرز کو میں جانتا ہوں‘ جنہیں اعلیٰ درجے کی مہارتوں کے باوجود‘ نوکری کے لئے بیرون ملک جانا پڑا۔ آج وہاں وہ انتہائی آسودہ اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، مگر ان کی بے بسی دیکھئے‘ جو اعلیٰ ملازمتوں کے مستحق ہیں لیکن کمتر درجے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے رہائشی علاقے‘ کچے گھروندوں اور جھونپڑوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جہاں کسی طرح کی شہری سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔ ان کی گلیوں میں سیوریج سسٹم نہیں ہوتا۔ پانی کی سپلائی نہیں ہوتی۔ دھکے کھانے کے بعد‘ بجلی کا کنکشن ملتا ہے‘ تو چھ سات جھونپڑوں والے مل کے اس پر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ ایسی کچی بستیوں میں گیس کے پائپ لگائے ہی نہیں جاتے۔ عیسائیوں کے گھروں کو آگ لگانا تو کٹھ ملائوں کا مشغلہ بن چکا ہے۔ ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ جب یہ اپنا سب کچھ آگ کی نذر کر کے اور افراد خاندان کو زندہ جلتا ہوا چھوڑ کر‘ جان بچانے کے لئے بھاگتے ہیں‘ تو انہیں پناہ دینے والا کوئی نہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ جلے ہوئے گھروں سے بچ کر نکلنے والوں کو حکومت کی طرف سے کوئی پناہ گاہ دی گئی ہو؟ یا انہیں بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا بندوبست کیا گیا ہو؟ گوجرہ کے ایک گائوں میں جب عیسائیوں کے گھر جلائے گئے‘ تو ان میں سے جو چند صاحب حیثیت تھے‘ اس طبقے میں صاحب حیثیت ہونے کا مطلب چالیس پچاس ہزار سے زیادہ کی حیثیت نہیں ہوتی۔ ایسے ہی لوگ جب اپنی پونجی لے کر شہروں میں آئے‘ تو وہ چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں تین چار ہزار روپے ماہانہ کرائے پر‘ ایک کمرہ بھی لینے گئے‘ تو مسلمان غریبوں نے‘ عیسائی غریبوں کو اپنے علاقے میں بسانا پسند نہ کیا۔ مالک مکان کو جونہی پتہ چلتا ہے‘ وہ یہ کہہ کر کمرہ یا کھولی دینے سے انکار کر دیتا ہے کہ ہم عیسائیوں کو گھر نہیں رکھتے۔ کوئی خوانچہ یا ریڑھی لگاتا ہے‘ تو اردگرد کے خوانچے ریڑھی والے‘ گاہکوں سے کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ''یہ ہے تو عیسائی‘ مرضی ہے تو سودا اس سے لے لو‘‘ اور اہل ایمان کی اکثریت اپنی دانست میں‘ ایمان بچا کرمسلمان خوانچے ریڑھی والے سے سودا خریدنے لگتی ہے اور وہ بیچارا‘ منڈی سے جو سبزیاں اور پھل لے کر روزی کمانے نکلتا ہے‘ اپنی ڈوبی ہوئی رقم پر آہیں بھرتا‘ واپس چلا جاتا ہے‘ جہاں اس نے بال بچوں کو چھوڑا ہوتا ہے۔
بدترین زندگی گزارنے والے عیسائی وہ ہوتے ہیں‘ جنہیں بھٹہ مزدور کہا جاتا ہے۔ ان کے کوئی سروس رولز نہیں۔ لیبر قوانین نہیں۔ یہ جہالت اور دن رات کی مزدوری کی وجہ سے‘ اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ اپنی یونین بنا کر جدوجہد کر سکیں۔ ان کی اکثریت بندی مزدوروں کی ہوتی ہے۔ پورے کا پورا خاندان‘ بچوں سمیت دوچار ہزار روپے ایڈوانس لے کر نوکری لیتا ہے اور پھر قسطیں کٹوانے کے بعد بھی یہ قرضہ کم ہونے میں نہیں آتا۔ روز انہیں صرف اتنا ہی ملتا ہے‘ جس سے وہ ایک دن کی روٹی کھا سکیں۔ بیماری کے علاج یا کسی تہوار کے لئے انہیں‘مزید ایڈوانس مانگنا پڑتا ہے‘ جو قرضے میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ بدترین غلامی کے بندھن میں جکڑے جاتے ہیں۔ ان کی عورتیں بھٹہ مالکان کی ملکیت ہوتی ہیں۔ جو اس روایت سے بغاوت کرتا ہے‘ اسے گالی گلوچ اور مارپیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب میں لاہور میں ہونے والے کل کے واقعے کی طرف آتا ہوں۔ آپ کو یاد ہو گا‘ گزشتہ تھوڑے ہی عرصے میں عیسائیوں کی کئی آبادیاں جلائی گئی ہیں۔ان کی جلتی ہوئی جھگیوں اور گھروں میںرہنے والے‘ خاندانوں کے متعدد افراد جل کرمرتے رہے ہیں اور انہوں نے اپنے جلتے ہوئے بچوں‘ بہنوں اور بھائیوں کو مدد کے لئے پکارتے‘ بے بسی کے ساتھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے۔ اس چھوٹی سی کمیونٹی میں جہاں بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے‘ تو فوراً سب کو پتہ چل جاتا ہے، مگر وہ کچھ کر نہیں سکتے۔ آہیں بھر کے رہ جاتے ہیں۔ آپ اس مجموعی صورتحال کا اندازہ کیجئے‘ جو کچھ سماجی زندگی میں ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ گزراوقات کے لئے انہیں کام کاج کے‘ جو تحقیرانگیز مواقع ملتے ہیں‘ ان سے بھی وہ پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ یہ ہے وہ کیفیت‘ جس میں کوٹ رادھا کشن میں ایک نوجوان میاں بیوی نے‘ کسی فوری ضرورت کے لئے مالکان سے تھوڑے سے روپے مانگے۔ مالکان کے انکار پر میاں بیوی منت سماجت کرتے رہے اور بھٹہ مالکان نے مشتعل ہو کر‘ الزام لگا دیا کہ انہوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔ وہیں کام کرنے والے دوسرے ملازمین جو کہ مسلمان تھے ‘ ان سے یہی کہہ کر اس جوڑے پر تشدد کرایا۔ لڑکی حاملہ تھی۔ اس پر بھی کسی نے رحم نہ کیا۔ جب دونوں میاں بیوی چوٹوں اور زخموں سے نیم جان ہو گئے‘ تو انہیں اٹھا کر جلتے ہوئے بھٹے میں پھینک دیاگیا۔حیرت کی بات یہ تھی کہ ایسے بھیانک ظلم پر‘ اردگرد کی آبادی میں سے کسی ایک نے بھی اس سانحے کا نوٹس تک نہ لیا۔ کوئی اہمیت ہی نہیں دی گئی۔ میڈیا نے معاملہ اٹھایا‘ تو حسب روایت اسے بند بستے کی نذر کر دیا گیا۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب ایک چھوٹی کمیونٹی کو اجتماعی طور پر توہین‘ تذلیل‘ ذرائع روزگار سے محرومی اور سماجی اعتبار سے بے وقعت بنا کر رکھ دیا گیا ہو اور تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد وہ اپنے جلتے ہوئے گھر دیکھنے پر مجبور ہوں اور کچھ کر نہ پا رہے ہوں‘ توان کی کیفیت اس شعر کی مثل ہو جاتی ہے ؎
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
اتوار کے دن‘ عیسائی عورتوں بچوں سمیت نہا دھو کر‘ صاف ستھرے لباسوں میں ملبوس اپنی اپنی حیثیت کے مطابق‘ خوشبوئیں لگا کر‘ ہاتھوں میں پھول لئے‘ چرچ کے اندر جا کر‘عبادت میں مصروف ہوئے‘ توانہیں بموں کا نشانہ بنا دیا گیا۔ درجنوں عورتیں‘ مرد اور بچے زخمی ہوئے اور 15کی جانیں گئیں۔ ظلم کی ایک حد ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے‘ عیسائیوں کے نزدیک ظلم کی وہ حد کل آ گئی۔ چڑھے ہوئے نالوںکو راہ مل گئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ برسوں سے چڑھے ہوئے نالوں کی طغیانی تھی۔ جن دو اجنبیوں کو انہوں نے‘ جوابی ظلم کا نشانہ بنایا‘ وہ کون تھے؟ یہ جاننے کا انہیں ہوش نہیں تھا۔ و ہ کچلے‘ دبے ہوئے اور زخموں سے چور انتقامی جذبے کی لہر میں بہتے جو کچھ بھی کر رہے تھے‘ اس سے بے خبر تھے۔ ایک جنون تھا‘ جو اب شاید اتر گیا ہو۔ ہو سکتا ہے‘ وہ خود بھی پچھتا رہے ہوں۔ اگر ہم اس سانحے پر بھی‘ پہلے کی طرح لاتعلقی سے گزرتے ہوئے آگے نکل جائیں گے‘ تو محرومی کے انگاروں پر ایک اور تہہ چڑھ جائے گی اور پھر کسی دن اس سے زیادہ شدید اظہار ہو گا۔ یہ صرف عیسائی کمیونٹی کا مسئلہ نہیں۔ اجتماعی ظلم و جبر کا شکار باقی کمیونٹیز بھی ‘ایسے ہی اپنے سینوں میں دہکتے ہوئے انگاروں کوٹھنڈا کرتے کرتے وقت گزار رہی ہیں، لیکن ایک دن شعلے وہاں سے بھی اٹھیں گے۔کہاں کہاں کے بس سٹاپ بند کرو گے؟ کتنے مقدمے بنائو گے؟ ظلم اور بے رحمی کا علاج صرف انصاف ہے۔ ملے گا تو حالات بدلیں گے، ورنہ بے رحمی کا پھل یہی ہوتا ہے‘ جو کل لاہور کی سڑکوں پر دیکھنے میں آیا۔