تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     17-03-2015

ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا

برطانیہ کے مؤقر اور معتبر روزنامہ گارڈین نے اپنی 28 فروری کی اشاعت میں قارئین سے دہلی کے ایک ایسے محلہ کا تعارف کرایا جو کتابوں کی دُکانوں، چائے خانوں، آرٹ گیلریوں اور فنونِ لطیفہ کے دُوسرے مظاہروں سے مالا مال ہے۔ اس کا نام ہے حوضِ خاص۔ اس کالم نگار کی طرح جن لوگوں نے اُردو ادب کا تھوڑا سا مطالعہ بھی کیا ہے وہ حوضِ خاص کے نام سے اچھی طرح واقف ہیں۔ غالباً غالبؔ کے نادر روزگار خطوط میں بھی کسی جگہ حوضِ خاص کا ذکر آتا ہے۔ صد افسوس،میں دہلی کئی بار جانے کے باوجود حوضِ خاص کی سیر و سیاحت کرنے سے ہمیشہ محروم رہا۔ جو دوچار دن ملتے تھے وہ اپنی وکیلانہ مصروفیات کی نذر ہوجاتے۔ وقت غالبؔ سے لے کر حضرت نظام الدین اولیاءؒ اور امیر خسرو ؒکے مزارات پر حاضری دینے(جس کا سارا ثواب میری عبادت گزار بیوی کو جاتا ہے) ، لال قلعہ کی سیر اور جامع مسجد کی زیارت اور چاندنی چوک میں دُنیا بھر میں سب سے مزیدارگول گپے کھانے میں اس طرح پلک جھپکتے گزر جاتا تھا کہ لگتا خواب دیکھا ہے۔ ابھی آنکھ لگی تھی کہ کھل گئی۔ رات گئی اور بات گئی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک مہربان دوست نے میری مادری زبان پنجابی سے میری گہری عقیدت اور محبت دیکھ کر مجھے پیشکش کی کہ وہ مجھے پنجابی کی شہرئہ آفاق شاعرہ امرتا پریتم کے گھر لے جائے گا،جہاں وہ عظیم شاعرہ نہ صرف مجھے اپنی سب سے مشہور نظم (اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوںقبراں وچوں بول) خود سنائیں گی بلکہ اپنے ہاتھو ں سے کشمیری چائے بھی بنا کر پلائیں گی۔ میری میزبان خاتون بار بار کوشش کے باوجود اس ملاقات کا دن اور وقت طے نہ کر سکیں۔ بد قسمتی سے اُن دنوں امرتا پریتم کی صحت اچھی نہ تھی اور اُنہیں بار بار ہسپتالوں کے چکر لگانے پڑتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اُنہوں نے اپنے ڈاکٹر وں سے ملاقات کو ،لندن سے آئے ہوئے ایک بن بلائے مہمان سے گپ شپ پر،بجا طور پر ترجیح دی۔ میں اگلے سال اُن سے ملاقات کے شوق میں پھر بھاگم بھاگ دہلی گیا مگر (دُوسری اور زیادہ بڑی بدقسمتی سے) پنجاب کی یہ قابل فخر بیٹی جو پہلے گوجرانوالہ سے ہجرت کر کے دہلی گئی تھیں،اب دہلی سے اتنی دُور جا چکی تھیں جہاں اُن کی رُوح ابد تک سُکھ کی نیندسوئے گی۔ نہ ڈاکٹر نہ ہسپتال نہ دوائی نہ علاج معالجہ۔ امرتا کو وہ پریتم جو اس جہاں میں نہ ملا، اگلے جہان میں ضرور مل گیا ہوگا۔ چار سُو پھولوں کی پتیاں، مدھر گیتوں کی دُھنیں، گوجرانوالہ کی خوبصورت یادیں۔ اُن کے رفیق حیات (جو ساری عمر شادی کئے بغیر اُن کے ساتھ آخری دم تک رہا) کا یہ مزاحیہ جملہ آخر سچ نکلا کہ امرتا ہر وقت صرف مجھے ڈرانے کے لئے اپنی آنے والی موت کا ذکر کرتی ہے مگر اس کا مرنے ورنے کا نہ ارادہ ہے اور نہ پروگرام۔ شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ مرجانے کے لئے نہ ارادے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ پروگرام کی۔ امرتا کا ذکر یوں آیا کہ وہ حوضِ خاص کے پاس رہتی تھیں اور میزبان خاتون کے مطابق میں امرتا کے گھر اُس کے ساتھ جاتا تو ایک ٹکٹ میں دو مزے والی بات ہوتی۔ آخر کار میں ہاتھ ملتا رہا گیا۔ نہ امرتا پریتم کے دیدار ہوئے اور نہ حوضِ خاص کے۔ میری نظر میں تو خاص بات یہ تھی کہ اُس محلہ کے پاس امرتا رہتی تھی ۔ بس ایک حوضِ خاص ہے جو رہ گیا۔ میری نظر میں تو صرف حوض ہی باقی ہے۔ خاص تو خواب و خیال ہوا۔ گارڈین میں حوضِ خاص کا تذکرہ (بقول غالب ) ع
ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
میرے لئے تھوڑے سے حسد اور بہت سے رشک کا باعث بنا۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ کیفیت چند لمحوں میں ختم ہو گئی۔ برطانیہ میں بائیں بازو کے سب سے قابل احترام ،قدیم،قابل مطالعہ اور قابل تعریف ہفت روزہ کا نام ہے نیو سٹیٹسمین ۔اس کے تازہ شمارہ میں میرے ایک بیرسٹر بیٹے علی کے دوست پیٹراوبورن کا لاہور پر مضمون پڑھا تو دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ برطانیہ میں ایسے بااثر انگریزوں کی تعداد کئی ہزاروں میں ہے جو تمام منفی نکات کے باوجود پاکستان سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں اور اُردو شاعری کے عشاقِ نامُراد کی طرح اس محبت کو دل کے نہاں خانوں میں چھپاکر نہیں رکھتے بلکہ اس کا ہر موقع پر کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان سے اس گہری محبت کا صرف اُوپر ے دل سے اظہار نہیں بلکہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔پیٹرکا شمار اس قبیلہ کے سرداروں میںکیا جا سکتا ہے۔ اُس نے پاکستانی کرکٹ اور اس کی تاریخ اور اس کے کھیلنے والوں پرWounded Tigers کے نام سے جو کمال کی کتاب لکھی ہے اُس کا ذکر میں اپنے ایک گذشتہ کالم میںکر چکا ہوں، اس لئے تکرار مناسب نہ ہوگی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس کتاب کا اُردو ترجمہ ماہ مئی تک چھپ کر بازار میں آجائے گا۔ اب ہم چلتے ہیںپیٹرکی بقیہ تحریر کی طرف۔
پیٹرماہ فروری میں لاہور الحمرا میں ہونے والے ادبی میلہ میں حصہ لینے خاص طور پر پاکستان گیاتھا۔ یہ بات ہم سب کے لئے کتنی باعث مسرت ہے کہ اس گئے گزرے وقت میں (جب پڑھے لکھے لوگ بھی مطالعہ سے دُور ہو گئے ہیں) ادبی میلہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد ستر ہزار سے زیادہ تھی۔ اس میلہ میں نہ صرف مشاعرے ہوئے اور ادبی محفلیں سجائی گئیں بلکہ موسیقی اور رقص کے مظاہروں کے علاوہ تاریخ، سیاست اور سماجی علوم پر درجنوں مذاکرے بھی ہوئے ۔ امریکہ کی ایک چوٹی کی یونیورسٹی میں پڑھانے والی پاکستانی مورخ خاتون عائشہ جلال بھی اُن نامور شخصیات میں شامل تھیں ،جن کی شرکت نے اس ادبی میلہ کو چار چاند لگائے۔پیٹر لاہور کے اندرون شہر کے حسن کی تعریف میں قصیدے لکھتا نہیں تھکتا۔ وہ باغ جناح کی اُس گرائونڈ میں کرکٹ کھیلنے بھی گیا جہاں پاکستان اوّلین دنوں میں ٹیسٹ میچ کھیلتا تھا۔ پاکستانی کرکٹ باغ جناح کے گہوارے میں پل کر جوان ہوئی۔ پیٹرنے برٹش کونسل کے حکام پر لاٹھی چارج کرنے میں کوئی دریغ نہیں کیا ،کیونکہ اس کے حکام دہشت گردی سے ڈر کر غیر ملکی ادیبوں کو غیر ضروری طور پر ادھر اُدھر بھگائے اور چھپائے پھرتے تھے۔ ادبی میلہ کے آغاز سے صرف دو دن پہلے لاہور میں ایک خودکش حملہ اور دھماکہ ہوا جس نے منتظمین کو اس حد تک سراسیمہ اور پریشان کر دیا کہ وہ اس میلہ کو آخری وقت پر منسوخ کر دینے کی احمقانہ اور بزدلانہ تجویز پر دیر تک غور کرتے رہے۔
پیٹرپاکستانی کھانوں کا بہت بڑا مداح ہے اور لاہور میں اُسے اپنے اس رُسوائے زمانہ چٹورہ پن کے مظاہروں کے بے پناہ مواقع ملے۔ کتنی اچھی بات ہے کہ ادبی میلہ کے غیر ملکی مہمانوں کے اعزاز میں ان کے باذوق میزبانوں نے گورنر ہائوس کے 80 ایکڑوں میں پھیلے ہوئے باغ کے وسط میں ایک یادگار ڈنر کا اہتمام کیا۔ پیٹربرطانیہ کے ایک بڑے روزنامہ ''ٹیلیگراف‘‘ سے بہت عرصہ وابستہ رہ کر ایک اُصولی اختلاف کی بنیاد پر حال ہی میں مستعفی ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ایوان اقتدار کی غلام گردشوں سے بہت اچھی طرح واقف ہے۔ وہ اپنے پرُانے دوست چوہدری محمد سرور کو گورنر ہائوس میں اس لئے نہ مل سکا کہ محمد سرور صاحب اس سے پہلے استعفیٰ دے کر حزب اقتدار سے حزب اختلاف تک کا سفر (جو پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے) طے کر چکے تھے۔ اُصولوں کی بنیاد پر بڑے اخبار کے ایک بڑے عہدہ کو چھوڑ دینے والے شخص کو لاٹ صاحب کا عہدہ چھوڑ دینے والے شخص کی یہ ادا کتنی بھائی ہوگی، میرے قارئین اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پیٹرنے اس ادبی میلہ میں ہونے والی جس تقریب کا خاص طور پرتعریفاً ذکر کیا ہے وہ سرگودھا کے ایک گائوں ہڈالی (جو مٹھ ٹوانہ اور جوہر آباد کا پڑوسی ہے)میں پیدا ہونے والے اور تقسیم ملک کے بعد بھارت چلے جانے والے شہرئہ آفاق ادیب خشونت سنگھ کی یاد میں منعقد کی گئی۔ 1971 ء کی جنگ کے بعد پاکستان کے نوے ہزار فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے تو ان دنوں خشونت سنگھ کی مسز اندرا گاندھی سے ملاقات ہوئی۔ خشونت سنگھ نے مسز گاندھی کو منانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستانی قیدیوں کو جلد از جلد رہا کر دیں تو کتنا مناسب رہے گا اور ہمسایہ ممالک میں خیر سگالی کا کتنا جذبہ پیدا ہوگا ۔ مسز گاندھی نے اس مشورہ کا برُا مناتے ہوئے کہا کہ اُنہیں خشونت سنگھ سے اخلاقیات پر درس لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وُہ نہیں جانتی تھیں کہ آگے سے سرگودھا کا اکھڑ اور بے خوف سکھ یہ جواب دے گا کہ آپ کو اپنی اخلاقی سطح بلند کرنے کے لئے جو بھی موقع ملے اُسے گنوانا نہیں چاہیے۔
ادبی میلہ کے دوران پیٹرکے ان گنت مداحوں نے اُس کی بہادری اور اپنے ضمیر کی آواز سننے کی تعریف بھی کی۔وہ چاہتا تو باآسانی خاموش رہ سکتا تھا مگر اپنے اخبار کے مالکان کی بے اُصولی اُس سے برداشت نہ ہو سکی۔ اُس نے ایسے بڑے عہدے کو احتجاجاً چھوڑ دیا جس کے خواب عام لوگ عمر بھر دیکھتے ہیں۔ پیٹرنے اپنے سر پر بہادری کے پُھولوں کا تاج پہننے سے انکار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بہادر تو پاکستان کے صحافی ہیں جہاں گزشتہ بیس سالوں کے اندر پچاس صحافی حق گوئی کے جرم میں شہید کئے جا چکے ہیں۔ جنوبی امریکہ کے ملک کولمبیا میں 40 اور رُوس میں 56 قتل کر دیئے جانے والے صحافی اس اسم صفت کے اصل مستحق ہیں۔ بقول فیض ؎
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved