تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     17-03-2015

میرا کی ممی اور منّو بھائی کے نام

شرمیلا فاروقی اور ڈاکٹر حشام کے ولیمے کی تقریب سندھ فیسٹیول کی طرح رنگارنگ تھی۔ تقریب میں دلہن شرمیلا اپنے دولہے‘ نوشے میاں ڈاکٹر حشام اور اے پی سی ( آل پارٹیز کانفرنس) جیسی سٹار کاسٹ سے نقد سلامیاں وصول کرتے ہوئے خوش دکھائی دے رہی تھیں۔ شرمیلا فاروقی پیپلز پارٹی میڈیا الیون ٹیم کی ایسی سنٹر فاروڈ ہیں‘ جو ٹاک شوز میں اکثر و بیشتر اپنے مدمقابل کو شکست سے دوچار کر دیتی ہیں۔ شرمیلا میڈیا میں مقبول شخصیت ہیں لیکن ان کی دعوت ولیمہ میں سیاست اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی کثیر تعداد میں شرکت ان کے سسر احمد ریاض شیخ کی وجہ سے تھی۔ ولیمے کی رنگارنگ تقریب میں چوہدری شجاعت حسین تو اپنے سیکرٹری صوفی صاحب کے ساتھ آئے لیکن اداکارہ میرا اپنے اہل خانہ کے ساتھ جلوہ گر تھیں۔ چوہدری اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ، جہانگیر بدر، نوید چوہدری، چوہدری منظور، زمرد خان، نہال ہاشمی اور میڈیا کے کئی چاند چہرے ولیمے کی رونق بڑھائے ہوئے تھے۔ ایک صوفے پر اداکارہ میرا کی امی شفقت زہرہ بخاری اور نامور کالم نگار منّو بھائی کو خوش گپیوں میں مصروف دیکھا تو میں ان کے پاس جا بیٹھا۔
شفقت بخاری پُرتکلف لہجے میں منّو بھائی سے مخاطب تھیں۔ وہ منو بھائی کو 'منّو جی‘ کہہ رہی تھیں۔ منّو بھائی کو صرف 'منّو‘ کہنا یا 'منّو جی‘ کہنا ایسے ہی ہے جیسے امریکی صدر بارک اوباما کو 'بارک‘ کہہ کر مخاطب کیا جائے یا پھر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کو 'استاد حامد‘ کہا جائے۔ استاد کا ذکر آتے ہی مجھے لاہور کے اس بازار کی وہ مغنیائیں یاد آ جاتی ہیں جو بے تکلفی سے استاد کو ہمیشہ 'وے استاد‘ کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ منّو بھائی اگرچہ ملک کے سٹار کالم نگار ہیں مگر ان کے نام اور کام کا بھرپور صوتی اور معنوی تصور ذہن میں اس وقت تک نہیں ابھرتا جب تک ان کا پورا نام لکھا اور پکارا نہ جائے۔ منّو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی ہے۔ منّو بھائی کا یہ صحافتی نام انہیں احمد ندیم قاسمی مرحوم نے دیا تھا۔ منیر احمد قریشی سے منّو بھائی بننے کا سفر تو مختصر تھا لیکن منّو بھائی کو صحافت کے اس دشت میں محو سفر ہوئے 55 سال کا عرصہ ہو گیا ہے۔ منّو بھائی جیسا کام اور نام کمانے والے بڑے لوگوں کے لئے فراز نے کہا تھا: ؎
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تیرا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
ہارون الرشید کہا کرتے ہیں کہ منّو بھائی صحافت کے رومانس کا نام ہیں۔ خود منّو بھائی بھی اچھے خاصے رومانٹک ہیں۔ ایک دفعہ دلدار پرویز بھٹی مرحوم کے ٹی وی شو 'ٹاکرا‘ میں گئے۔ دلدار بھٹی نے سوال کیا: ''آپ کو سب منّو بھائی کہتے ہیں‘ آپ کی بیوی آپ کو کس نام سے پکارتی ہیں؟‘‘ منّو بھائی نے جھینپے بغیر جواب دیا: ''وہ مجھے دلدار کہتی ہے‘‘۔ میں نے یہ لطیفہ نما واقعہ اداکارہ میرا کی ممی کو سنایا‘ جنہوں نے اسے خوب انجوائے کیا۔ میرا کی نسبت ان کی ممی بہتر طور پر لطیفہ انجوائے کرتی ہیں۔ ممی کے برعکس میرا کو لطیفہ سنانے سے پہلے تاکید کرنا پڑتی ہے کہ اسے لطیفہ سنایا جا رہا ہے اور لطیفہ سنانے کے بعد میرا سے ہنسنے کے لئے باقاعدہ اپیل کرنا پڑتی ہے۔ اپیل بھی اس طرز کی جیسے پاکستانی بائولرز امپائر ڈیوڈ شیفرڈ کے سامنے کیا کرتے تھے۔ دوسرے معنوں میں جیسے پاکستانی بائولرز سچن ٹنڈولکر کو آئوٹ کرکے بھارتی امپائرز کے سامنے اپیلیں کیا کرتے تھے‘ اور کرکٹ امپائر اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کے امپائر دکھائی دیا کرتے تھے۔ میرا کی ممی شفقت زہرہ بخاری خوش دلی سے منّو بھائی کو 'منّو جی‘ کہہ رہی تھیں‘ مگر مجھے منّو بھائی کا نام نامکمل محسوس ہو رہا تھا۔ 'منّو‘ یا الگ سے 'بھائی‘ کہنے سے منّو بھائی کا نام ذہن میں نہیں آتا۔ ویسے بھی 'بھائی‘ سے مراد سیاست اور صحافت میں الطاف بھائی سے ہے‘ جن کی سیاست اور براہ راست تقریریں موضوع بحث بنی رہتی ہیں۔
جیسے صحافتی نام ہوتے ہیں ویسے سیاسی نام بھی ہوتے ہیں۔ خادم اعلیٰ ایک مقبول سیاسی برانڈ نیم ہے‘ جس سے پورا ملک واقف ہے لیکن اگر کوئی 'خادم اعلیٰ‘ کی بجائے 'خادم‘ 'خادم حسین‘ یا 'چوہدری خادم حسین‘ بھی کہے تو مفہوم ادا نہیں ہوتا۔ اسی طرح انجلینا جولی کو صرف 'انجو‘ کہنے سے ان کی مکمل خوبصورتی کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اداکارہ انجمن کا عرف 'انجو‘ تھا۔ نگار خانوں میں قریبی دوست انہیں 'انجو‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ اداکار شان کا اصل نام ارمغان شاہد ہے ۔ قریبی دوست انہیں 'منَی‘ کہتے ہیں۔ اداکارہ ریما کو 'ریم‘ صائمہ کو 'صائم‘ اور سلطان راہی مرحوم کو 'راہی صاحب‘ پکارا جاتا تھا۔ راہی صاحب کو 'آغا جی‘ بھی کہا جاتا تھا۔ بابرہ شریف کا نک نیم 'بابو‘ اور کرینہ کپور کا 'بے بو‘ ہے۔ اداکار محمد علی کو ساری انڈسٹری 'بھیا‘ اور زیبا بیگم کو 'زیبا بھابی‘ کہتی رہی۔ انضمام الحق کا نک نیم انزی‘ ثقلین کا ثقی‘ مشتاق احمد کا مُشی اور شاہد آفریدی کو لالہ کہا جاتا ہے۔ بالی وڈ کے بگ بی امیتابھ بچن کو انڈسٹری میں 'امیت جی‘ ہیما مالنی کو 'ہیما جی‘ دھرمیندر کو 'دھرم جی‘ راجیش کھنہ کو 'کاکا‘ سلمان خان کو 'سلو‘ اور سنجے دت کو 'سنجو بابا‘ کہا جاتا ہے۔ دلیپ کمار صاحب کو بھارتی انڈسٹری میں زیادہ تر لوگ 'صاحب‘ کہتے رہے۔ دلیپ صاحب کے ساتھ 'صاحب‘ کا سابقہ ان کے عزت و احترام کا ثبوت ہے۔
بعض نام ایسے بھی ہوتے ہیں‘ جو ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہو جاتے ہیں‘ جیسے آصف زرداری کے ساتھ رحمان ملک کا نام آتا ہے، عمران خان کے ساتھ جہانگیر ترین کا نام لیا جاتا ہے اور جہاں شیخ رشید کا نام آئے وہاں پس پردہ راولپنڈی والے بھی ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مولانا عبدالغفور حیدری، صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے ساتھ احمد رضا قصوری، چوہدری شجاعت کے ساتھ چوہدری پرویز الٰہی، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ رانا ثنااللہ اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ اسحاق ڈار لازمی ہوتے ہیں اور اس ٹرم میں فواد حسن فواد بھی ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ان کے وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید بھی ہوتے ہیں۔ صحافتی میدان ایسے موثر شعبے میں ان کے ہمراہ عرفان صدیقی اور عطاالحق قاسمی بھی ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ 'پردہ نشینوں‘ کے نام بھی آتے ہیں۔ نام جب تسلسل کے ساتھ آتار ہے تو لوگ باتیں بھی بناتے ہیں۔ باتیں بنانے کے سیاسی اور صحافتی عمل کو 'جل جانا‘ یا 'حسد کرنا‘ بھی کہا جاتا ہے ؎
جب بھی آتا ہے میرا نام تیرے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ میرے نام سے جل جاتے ہیں
حکمرانوں کے ساتھ نام یونہی نہیں آ جاتے، اس کیلئے نامیوں اور ناموروں کو کمالات دکھانے پڑتے ہیں۔ یقینا وہ کمالات کرتے یا دکھاتے ہوں گے۔ بعض نامیوں کی ڈیوٹی یہ بھی ہوتی ہو گی کہ حکمران جو کمالات دکھاتے ہیں‘ انہیں میڈیا سے چھپانا کیسے ہے۔ یہ کہنہ مشق مشکل کام کر رہے ہوتے ہیں مگر حکمرانوں کے ناموں کے ساتھ ان کے نام آنے سے ان کے لئے آسانیاں بھی تو پیدا ہوتی ہوں گی ؎
زندگی ا پنی گزر جائے گی آرام کے ساتھ
اب میرا نام بھی آئے گا ترے نام کے ساتھ
ہمارے ہاں جیسے بعض نام مشہور ہوتے ہیں بعض بدنام ہوتے ہیں‘ اسی طرح کچھ نام، ادارے اور اصطلاحات ملے جلے تاثر کے حامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، چھلڑ (چھلکا)، چمک (رشوت) کسینو، چیف سلیکٹر، پنکچر، رینٹل، باغی، بلاّ، علی بابا، بھتہ، ٹارگٹ کلر، ناجائز اسلحہ، چھاپہ اور رینجرز ہمارے ہاں اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ چھاپے اکثر پڑتے رہتے ہیں مگر کچھ چھاپے خاص ہوتے ہیں‘ جب وہ پڑتے ہیں تو شہر سائیں سائیں کرنے لگتے ہیں۔ میرا کی ممی اور منّو بھائی کی ملاقات کی طرف واپس آتے ہیں۔ دونوں کی اس ملاقات سے مجھے اپنے دور کی نامور مغنیہ گوہر جان اور اکبر الہ آبادی کے مابین وہ دوستانہ مشاعرہ یاد آ گیا‘ جس میں ظریف شاعر نے اپنی خوبصورت اور غیر شادی شدہ محب پر یوں پھبتی کسی تھی کہ : ؎
خوش نصیب آج یہاں کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
گوہر جان خود بھی شاعرہ تھیں۔ انہوں نے ظریف شاعر کی شوخی کا جواب دیتے ہوئے اپنے مداحین کی تعداد بھی یوں بیان کر دی تھی : ؎
یوں تو گوہر کو میسر ہیں ہزاروں شوہر
پر پسند اس کو نہیں کوئی بھی اکبر کے سوا
سنا ہے جواب شکوہ سنتے ہی اکبر الٰہ آبادی گوہر جان کی محفل سے کھسک گئے تھے۔ دیکھتے ہیں کہ منّو بھائی اور میرا کی ممی کے مابین استوار ہونے والا سماجی رابطہ آگے بڑھتا ہے یا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved