قارئین،آج آپ ہی کے اخبار ''دنیا ‘‘ میں شائع ہونے والی تین خبروں کی سرخیوں میں سے پہلی تواس طرح سے ہے کہ دوسرے ملکوں سے مجرم لاکر چھوڑنے کا سکینڈل ، وزیر داخلہ نے معاہدے پر عملدرآمد کرتے ہوئے مجرموں کی رہائی میں ملوث افراد کی گرفتاری اور مقدمات درج کرنے کا حکم دے دیا اور اس بارے میں شفاف پالیسی بنانے کی ہدایت کردی۔ دوسری خبر کی سرخی یوں ہے کہ گداگر سکیورٹی کے لیے خطرہ ، بڑی تعداد جرائم میں ملوث، پولیس کی ملی بھگت سے سرعام دھندا جاری، شہر میں بڑے مین بازاروں ، مارکیٹوں ،درباروں اور اہم فوڈ پوائنٹس پر گداگروں کا قبضہ ، متعلقہ اداروں کی جانب سے بڑے بڑے دعووں کے باوجود کوئی کارروائی نہ کی جاسکی۔ تیسری خبر کی سرخی کچھ اس طرح سے ہے کہ واسا میں بوگس بلوں کے ذریعے کروڑوں کی کرپشن۔
اس طرح کی خبریں کم و بیش ہر روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں اور یہ کام اس قدر بے خوفی سے کیا جاتا ہے کہ پکڑے جانے اور سزا و جزا کا جیسے کوئی نظام ہی موجود نہ ہو ، جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ متعلقہ اداروں کے ایما اور اجازت کے بغیر یہ کاروبار ہو ہی نہیں سکتا اور حکومت بھی ایسی خبروں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی ہے بلکہ یہ دعویٰ کرتے ہوئے بھی کوئی حجاب محسوس نہیں کرتی کہ حکومت کرپشن سے پاک ہے اور کوئی اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا حالانکہ اتنا بڑا اور خلاف واقعہ دعویٰ کرنے کی بجائے یہ کہہ دینا کہیں بہتر ہوتا کہ کرپشن موجود تو ہے لیکن حکومت اس کا قلع قمع کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
اور، جہاں تک انگلی اٹھانے کا سوال ہے تو لیپ ٹاپس کی تقسیم سے لے کر میٹرو بس منصوبے تک کہیں پر بھی انگلیاں نہیں اٹھائی جارہیں۔ جناب حنیف عباسی ،جن کے خلاف عدالت میں اربوں کی کرپشن کا مقدمہ زیر سماعت ہے اور جو اسلام آباد میٹرو بس منصوبے کے سربراہ ہیں ،سے اگلے روز ایک ٹی وی اینکر نے سوال کیا کہ اس طرح کا ٹھیکہ بار بار ایک ہی فرم کو کیوں دیا جارہا ہے جو نہ صرف یہ کہ طے شدہ معیار پر پوری ہی نہیں اترتی بلکہ اسے اپنی بعض کمیاں پوری کرنے کے لیے مہلت تک دی گئی، ان کا سیدھا سادہ جواب یہ تھا کہ جہاں تک ٹھیکہ وغیرہ دینے کا تعلق ہے تو اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ۔
خیر یہ تو ایک لامتناہی سلسلہ اور ایک بہت بڑا موضوع ہے، اصل مسئلہ یہ بھی ہے کہ صرف پیسہ بنانا اور کھانا ہی کرپشن کے ذیل میں نہیں آتا بلکہ اس کے کئی اور مظاہر بھی ہیں، مثلاً جنوبی پنجاب ، اسلام آباد اور معلوم نہیں کہاں کہاں کا ڈویلپمنٹ فنڈ اٹھا کر کیپٹن محمد صفدر کے حلقے میں جھونک دیاگیا۔ علاوہ ازیں جنوبی پنجاب کے حصے کا تقریباً سارا سرمایہ لاہور میں لگا دیاگیا، اسے کرپشن سے الگ کیونکر شمار کیا جاسکتا ہے۔ پھر آئین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک صوبے سے بندے لاکر دوسرے صوبے کے سینیٹر بنانے کو کیا کہیں گے ؟ اور پھر بدحکومتی سے بڑی کرپشن اور کیا ہوسکتی ہے؟
اور جہاں تک روپے پیسے والی کرپشن کا سوال ہے تو حکومت خود ہی بتائے کہ کیا اس کا کوئی محکمہ اور شعبہ ایسا ہے جہاں رشوت کے بغیر عام آدمی کا کام ہوجاتا ہو؟ باقی محکمے تو الگ رہے ماتحت عدلیہ کے اندر کرپشن کی جو ریل پیل ہے وہ کس سے پوشیدہ ہے۔ حتیٰ کہ بعض زرخیز اضلاع میں پوسٹنگ کے لیے باقاعدہ ریٹس ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ شعبہ حکومت کے براہ راست کنٹرول میں نہیں ہے لیکن یہ حکومت ہی کے قائم کردہ پبلک سروس کمیشن سے منظور ہوکر آتا ہے اور تنخواہ بھی سرکاری خزانے ہی سے وصول کرتا ہے۔ حکومت نے کبھی اس کے سدباب کے لیے آواز نہیں اٹھائی بلکہ خود سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چودھری نے بارہا اپنے بیانات میں ماتحت عدلیہ میں جاری و ساری کرپشن کا اعتراف کیا لیکن اس سلسلے میں کبھی کوئی کارروائی نہیں کی، حتیٰ کہ ارسلان افتخار کیس کو بھی اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچایاگیا۔
صاحب، موصوف کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہوں نے ارسلان کی شادی قرض اٹھا کر کی تھی، اور اب معلوم ہوا ہے کہ آپ آٹھ بیڈ روز پر مشتمل ایک گھر تعمیر کروا رہے ہیں، کیا یہ بھی برخوردار ہی کی نیک کمائی کے فیوض و برکات کے ثمرات میں سے ہے؟ ایک لڑکا آم کے پیڑ پر چڑھا آم چوری کررہا تھا کہ باغ کا مالک بھی آگیا اور بولا:'' تم نیچے اترتے ہو یا تمہارے باپ کو بلائوں؟‘‘
'' انہیں بلانے کی ضرورت نہیں ‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
'' کیوں ؟‘‘ باغ کے مالک نے پوچھا۔
'' اس لیے کہ وہ ساتھ والے درخت پر چڑھے ہوئے ہیں!‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
لیکن ججوں کی کرپشن کے خلاف لکھنا بھی کون سا آسان کام ہے۔ اردو سائنس بورڈ سے فارغ ہونے کے بعد میں لاہور ہائیکورٹ ہی میں پریکٹس کرتا تھا کہ میں نے سینئر جج ملک محمد قیوم اور اس وقت کے چیف جسٹس کی کرپشن کے حوالے سے ایک کالم لکھ مارا حالانکہ ملک قیوم ہی کا دیا ہوا نیلامی کا ایک کیس ان کی عدالت میں چل رہا تھا ، جس میں میرا معاوضہ کوئی 90لاکھ روپے بنتا تھا۔ ان دونوں جج صاحبان کی فرمائش پر ایک تو مدیر شہیر نے میرا کالم بند کردیا اور دوسرے میرا وہ معاوضہ بھی غتربود ہوگیا، حتیٰ کہ مجھے وہ رقم بھی ادا نہ کی گئی جو میں نے اخباری اشتہارات کی مد میں اپنی جیب سے ادا کی تھی۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ یہ دونوں جج کیسے رسوا ہوکر عدلیہ سے علیحدہ ہوئے۔ججوں کی کرپشن کے ہم لوگ یعنی طبقہ وکلا بھی خاصی حد تک ذمہ دار ہے کیونکہ ہمارے تعاون کے بغیر یہ کام ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ بعض حضرات سائل سے اپنی فیس کے ساتھ جج صاحب کی فیس بھی وصول کرلیتے ہیں اور اس طرح مقدمہ وار عوام کا استحصال جاری رہتا ہے جس کے خلاف اور نہیں تو انسانی حقوق کا علم بلند کرنے اور عالمی ایوارڈ حاصل کرنے والی ہماری بہن عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کوان حوالوں سے ضرور آواز اٹھانے بلکہ ایک تحریک چلانے کا ڈول ڈالنا چاہیے۔
آج کا مطلع
یہ فردِ جُرم ہے مجھ پر کہ اس سے پیار کرتا ہوں
میں اس الزام سے فی الحال تو انکار کرتا ہوں