فراغت کے کھیل بھی عجیب ہوتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ فراغت میں کوئی کھیل کھیلا نہیں جاتا بلکہ فراغت انسان سے کھیل رہی ہوتی ہے! اور اگر فراغت دیکھنی ہو تو ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھیے۔ ہم تو خیر ہم ہیں، خود اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جو عدیم المثال فراغت ہاتھ آچکی ہے، اب اُس کا کیا کریں۔ زندگی کو تنوّع اور جِدّت سے ہمکنار کرنے کی کوشش نے بہت سے معاملات کو چُوں چُوں کا مُربّہ بنا ڈالا ہے۔
جب دستر خوان پر مختلف کھانے رکھے ہوں تو اِنسان سمجھ نہیں پاتا کہ کیا کھائے اور کیا نہ کھائے۔ ایسے میں کھانے کا لُطف ہی جاتا رہتا ہے۔ کچھ کچھ ایسی ہی کیفیت سے ترقی یافتہ دُنیا کے لوگ بھی دوچار ہیں۔ وہ بہت کچھ کرچکے ہیں۔ اب یہ ثابت کرنے کی دُھن سَروں پر سوار ہے کہ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ کچھ بھی کر گزرنے کی دُھن میں انسان سے ''بھنڈ‘‘ سرزد ہوتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ مغربی دنیا کا عام آدمی اب بیشتر معاملات میں ''بھنڈاری‘‘ ہوا جاتا ہے!
عام ڈگر سے ہٹ کر کچھ کر گزرنے کی خواہش اور کوشش نے مغرب میں ایسے ایسے تماشوں کو جنم دیا ہے کہ دیکھیے تو جِدّت کے معیار پر (اپنا) سَر پیٹ لیجیے۔ برطانیہ میں ہر سال ایک عجیب و غریب عالمی مقابلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ مقابلہ ہے بیوی کو کاندھے پر لاد کر رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہوئے دوڑنے کا۔ اہل مغرب سمجھتے ہیں کہ یہ غیر معمولی یا انوکھی بات ہے۔ ع
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خُدا!
یہ سب فراغت کے چونچلے ہیں۔ جب زندگی کے تمام بُنیادی مسائل حل کرلیے جائیں تو ایسی ہی اُوٹ پٹانگ حرکتیں سرزد ہوا کرتی ہیں۔ اور اِس سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بات حافظے سے نکل جائے تو کیا ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ مغربی دنیا میں شادی کے اِدارے کی تو مِٹّی پلید ہوچکی ہے۔ اہلِ مغرب نے شادی کرنے اور بیوی رکھنے کا چلن ایسا چھوڑا ہے کہ اب اُنہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ بیوی کیا ہوتی ہے اور اُس کا بوجھ اُٹھانا کیا ہوتا ہے!
ہم سمجھ نہیں پائے کہ بیوی کو کاندھے پر اُٹھاکر دوڑنے کا عالمی مقابلہ منعقد کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ بیوی کو کاندھے پر لاد کر دوڑنا ''دی ہائٹ آف ڈیلائٹ‘‘ ہے یا پھر انتہائے مجبوری! اِس میں سے مقابلے کا پہلو کہاں سے برآمد ہوتا ہے؟
بیوی کا بوجھ اُٹھانا ایسی کون سی انوکھی بات ہے کہ اُس کے لیے باضابطہ مقابلے، بلکہ عالمی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا جائے؟ یہ کون سا ایسا تیر ہے جس کے مارنے پر فخر کیا جائے؟ ہم جیسے بہت سے لاچار مَردوں نے (مجبوری کا نام شکریہ کے نام پر) زندگی بھر یہی کیا ہے مگر اب تک ''مغرور‘‘ نہیں ہوئے! عجیب بات ہے تو بس یہ کہ ہم جیسوں کے کاندھوں پر دُنیا والوں کو بیویاں دکھائی دیتی ہیں نہ راستے کی رکاوٹیں!
ہم جو زندگی بسر کر رہے ہیں وہ خود ہی ایسی ہے کہ جیسے کاندھوں پر کوئی پہاڑ کی سی لاش اُٹھا رکھی ہو۔ قدرت کا حکم ہے کہ چلتے رہیے۔ رُکنے اور دم لینے کی اجازت نہیں۔
ہمارے ہاں، بلکہ مشرق میں آج بھی ازدواجی زندگی اِس نوع کی ہے جیسے کاندھوں پر ایک دُنیا اُٹھا رکھی ہو۔ امریکہ اور یورپ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ بیوی کو کاندھوں پر اُٹھانا بہت بڑا کارنامہ ہے، مگر وہ تو کاندھوں پر معاملہ ختم کردیتے ہیں۔ ہم اُن سے ایک درجہ بلند ہیں یعنی بیگمات کو سَر، آنکھوں پر بٹھاتے ہیں! اور معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا۔ وہ جو کہتے ہیں ناں کہ سائیں تو سائیں، سائیں کا کُتّا بھی سائیں۔ بس کچھ ایسا ہی معاملہ مشرق کے مجبور شوہروں کا بھی ہے۔ بیوی ہی نہیں، اُس کے وابستگان یعنی سُسرال والوں کو بھی سَر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے یعنی بٹھانا پڑتا ہے! گویا ناز نخروں کا پورا پیکیج ہے جس سے ہم ''مستفید‘‘ ہوتے رہتے ہیں!
اور طُرفہ تماشا یہ ہے کہ کھیل ہی کھیل میں رونما و برپا ہونے والی اِس اذیت برداری کو ہم نے اب تک باضابطہ کھیل کا درجہ نہیں دیا۔ اِس میں بھی کچھ نہ کچھ مصلحت ضرور کارفرما ہے۔ اگر بیوی اور سُسرالیوں کے ناز نخرے برداشت کرنے اور اُنہیں سَر پر بٹھانے کو کھیل کا درجہ دے دیا گیا تو حقیقی اور حتمی فاتح کا فیصلہ شاید قیامت نہ کیا جاسکے گا! یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یہ بوجھ یُوں اُٹھائے پھرتے ہیں کہ خوشی سے پاگل ہوئے جاتے ہیں! اگر اِس عمل کو کھیل قرار دیا گیا تو منصفین بھی سوچ سوچ کر پاگل ہوجائیں گے اور فاتح کا تعین نہ کرپائیں گے!
ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے معاملے میں ہمارے ہاں مرد ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ بیویاں جانتی ہیں کہ وہ جب تک نخرے نہیں دکھائیں گی، بات نہیں بنے گی۔ اور شوہر بھی خوب باخبر ہیں کہ جب تک وہ نخرے اُٹھائیں گے نہیں تب تک گھریلو زندگی کے حلوے میں مٹھاس پیدا ہوگی نہ خوشبو کی لَپٹیں اُٹھیں گی۔ اِس کیفیت کو کسی نے یُوں بیان کیا ہے ع
کمال اُس نے کیا ... اور میں نے حد کر دی!
نتیجہ؟ یہی کہ ہمارے ہاں ازدواجی زندگی کا بیشتر حصہ ناز دِکھانے اور ناز اُٹھانے کے کھیل میں گزر جاتا ہے اور کسی عالمی مقابلے کے انعقاد کا خیال تک ذہن کے پردے پر نہیں اُبھرتا!
ہمیں تو مغرب کے خود پسندوں پر حیرت ہوتی ہے کہ سال میں ایک بار بیویوں کو کاندھے پر اُٹھاکر ذرا سا دوڑ کیا لیتے ہیں، اِس عمل پر فخر کرنے لگے ہیں۔ اور پھر کھیل یا تفریح کے نام پر انعام و اکرام کی فکر میں بھی غلطاں رہتے ہیں۔ اِدھر ہم ہیں کہ اِس خوبی (یعنی جبری مشقّت!) پر کبھی ناز نہیں کیا۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ ''معمول‘‘ پر کون ناز کرتا ہے! جو روز، بلکہ ہمہ وقت ہو رہا ہو اُس پر حیرت کیسی اور فخر کیوں؟
ایک بات پر آپ نے غور کیا؟ بیوی کو کاندھے پر اُٹھاکر دوڑنے کے مقابلے میں انعام کِسے ملتا ہے؟ وکٹری کے نشان تک سب سے پہلے پہنچنے والے کو۔ اور یہ فاصلہ ہے صرف اور صرف 380 میٹر۔ ذرا ''انصاف‘‘ ملاحظہ فرمائیے کہ اِک ذرا سا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے اور انعام ملتا ہے بیوی کو کاندھے سے جلد از جلد اُتار پھینکنے والے کو۔ اور یہاں جو زندگی بھر یہ بوجھ اُٹھائے پھرتے ہیں اُن کے لیے ہے ٹھینگا! مگر خیر، زندگی کے ہر بوجھ کا معاملہ ایسا ہے۔ جس قدر اُٹھائیے اُسی قدر بے توقیری ہے اور اگر جھٹ سے اُتار پھینکے تو دُنیا سلام کرے، ستائش کے ڈونگرے برسائے۔
بیوی ہو یا کوئی اور بوجھ، مشرقی مرد نبھاتے چلے جاتے ہیں۔ بیوی کوئی ایسا بوجھ تو ہے نہیں کہ کنویں میں پھینک کر سکون کا سانس لیا جائے۔ ایشیا اور بالخصوص بر صغیر کے مرد اپنے آپ کو تو کنویں میں اُتار لیتے ہیں، کنویں کے مینڈک بن جاتے ہیں مگر بیوی سمیت اہلِ خانہ کو کاندھے، بلکہ سَر آنکھوں پر بٹھاکر آسمان دیکھنے کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں! اور پھر اُن کی خوشی دیکھ کر خوش ہوتے اور مُسکراتے رہتے ہیں کہ ؎
اپنی ناکامیوں پہ آخرِکار
مسکرانا تو اختیار میں ہے!