تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     17-03-2015

مودی کا دورہ سری لنکا

وزیر اعظم نریندرمودی کا ہندی سمندر کا دورہ خاصانتیجہ خیز رہا ۔ انہوں نے سیشلس‘ماریشئس اور سری لنکا کا دورہ کیا۔ وہ مالدیپ بھی جانے والے تھے ‘لیکن وہاں چل رہی اندرونی اتھل پتھل کے سبب انہوں نے جانا ملتوی کیا ۔ خوشی کی بات ہے کہ مالدیپ میںکی گئی ہماری غلطیوں سے انہوں نے سبق سیکھا‘جس کافائدہ انہیں سری لنکا میں مل رہا ہے ۔مالدیپ کے اقتداری لیڈر ناراض نہ ہو جائیں ‘اس اندیشے کے سبب ہماری سرکارنے وہاں کی اپوزیشن کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیا۔اپوزیشن کے لیڈر اور سابق صدرنشید بھارت کے گہرے دوست ہیں ‘لیکن نئے صدر یامین ‘ جوکہ چین پرستی کے کئی ثبوت دے چکے ہیں ‘کے اشارے پر آج کل نشید کو تنگ کیا جا رہا ہے۔مالدیپ میں کہرام مچا ہوا ہے ‘اس لیے ہمارے وزیر اعظم کواپنا ما لدیپ کا دورہ ملتوی کرنا پڑا ہے ۔مگر مودی کی جرأت کی تعریف کرنی ہوگی کہ وہ ایسے پہلے بھارتی وزیر اعظم ہیںجو راجیو گاندھی کے اٹھائیس سال پہلے ہوئے دورے کے بعداب سری لنکا گئے ہیں ۔
سری لنکا جانے میں ہمارے وزرائے اعظم کو کافی جھجک رہی ہے ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ راجیو گاندھی جب بھارت لوٹ رہے تھے تو کولمبو ہوائی اڈے پر ایک سنگھلی فوجی نے ان پر حملہ کر دیا تھا اور پھر سری لنکائی تامل ٹائیگروں نے ان کو تامل ناڈو میں قتل بھی کر دیاتھا ۔یعنی بھارت اورسری لنکا سے سنگھل اور تامل دونوں ناراض تھے ۔وہاں جاکر وزیر اعظم اپنی جان خطرے میں کیوں
ڈالے ؟دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے ۔دوسرا سبب نہایت ہی اہم تھا۔بھارتی وزیر اعظم کے سری لنکا جانے کا مطلب تھا‘اپنے تامل لیڈروں کوناراض کرنا۔پچھلے پچیس تیس سال سے ہماری وفاقی سرکاریں اپنی تامل پارٹیوں کے اتحادسے ہی چل رہی ہیں ۔مودی سرکار پر اب ایسا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ مودی کے اس دورے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تاملوں کے گڑھ جافنامیں گئے اور تامل لیڈر سے ملے ۔انہوں نے تاملوں کے دکھ درد کو کان کھول کر سنا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے سری لنکا کے اکثریت سنگھلیوں سے لاپروائی کی ۔وہ سنگھل بودھوں کے زیارتی مقام انورادھا پور بھی گئے۔ انہوں نے سری لنکا کی دونوں بڑی آبادیوں کو خاص اہمیت دی ۔یہ قدم صحت مند پالیسی کا ثبوت ہے ۔وہ سابق صدر راج پکشے سے بھی مل رہے ہیں ۔انہوں نے سری لنکاکی پارلیمنٹ میں خطاب بھی کیا ہے۔۔مودی کے اس ہند مہاساگر ملکوں کے دورے کو کئی ماہر صرف چینی چشمے سے دیکھ رہے ہیں ۔ان کا ماننا ہے کہ مودی ان ملکوں میں اس لیے گئے کہ چین نے بھارت کے کان کھڑے کر دیئے ہیں ۔چینی سرکار نے آج کل سمندری ریشم پتھ کا جو شوشا چھوڑا ہوا ہے،اس سے کئی ماہر گھبرائے ہوئے ہیں کہ چین بنگلہ دیش‘سری لنکا‘مالدیپ ‘پاکستان وغیرہ سبھی
ملکوں کے سمندری کناروں کواپنے اثر میں لے رہا ہے ۔اس نے پاکستان کی گوادر بندر گاہ پر کئی سالوں سے تعمیراتی کام چالو کر رکھا ہے ۔اسی طرح سری لنکا کے جنوب میں ہمبن طوطہ بندر گاہ پر چینی گھیرا قائم ہو گیا ہے ۔وہ کولمبو کے پاس پچاس کروڑ ڈالر سے ایسی سہولیات تعمیر کر رہا ہے ‘جس میں بڑے کنٹینروہاں رکھے جا سکیں ۔ اس نے سری لنکا میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے لگ بھگ تیس ہزار کروڑ روپیہ کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے ۔
یہ سب سہولیات چین اس لئے کھڑی کر رہا ہے تاکہ ہند مہا ساگر کے سمندری راستوں پر اس کی طاقت قائم ہو جائے ۔یہ نیا 'سمندری ریشم پتھ ‘قدیم دور کے اسی زمینی 'ریشم پتھ ‘ کی طرح ہوگا ‘ جیساکہ وہ بھارت ‘افغانستان ‘ایران ‘ترکی اور یورپ ہوتا ہوا پولینڈ تک جاتا تھا۔اس میں شک نہیں کہ چین ہندی سمندر میں اپنا اثردار پھیلاؤ کر رہا ہے اوراس کا کہنا ہے کہ یہ وہ امریکی اثر کو روکنے کیلئے کر رہا ہے‘ لیکن ہم یہ نہ بھولیں کہ اس علاقے کا نام ہند مہا ساگر ہے ۔کوئی دوسرا نہیں ہے۔1902 ء میں ہندوستان کے لارڈ کرزن نے اس علاقے کو ہندوستان کا علاقہ کہا تھا ۔اگر نریندر مودی اس علاقہ میں بھارت کی طاقت قائم رکھنا چاہتے ہیں تواس میں غلط کیا ہے ؟اس میں امریکہ یا چین کے ناراض ہونے کی ضرورت کیا ہے ؟مودی نے تینوں ملکوں میں دیئے گئے اپنے خطابوں میں کہیں بھی کسی بھی ملک سے مقابلے کی بات نہیں کی ۔ یہی پالیسی اٹل بہاری واجپائی نے چلائی تھی ۔وہ ان ملکوں کو بھارت کی ساگر مالا کہا کرتے تھے ۔
اسی خاص نظریہ کی بنیاد پر اس دورے کے دوران تینوں ملکوں کے ساتھ درجن بھر سے زیادہ سمجھوتے ہوئے ہیں ۔ان سمجھوتوں کا ہدف ان ملکوں کے ساتھ بھارت کے اقتصادی ‘سیاسی اور پالیسی تعلقات کو گہرا بنانا ہے ۔ہند مہا ساگر سے جڑے ہوئے لگ بھگ چالیس ممالک کے ساتھ گہرے تعلق بنانے کا ارادہ لے کر ہی مودی ان ملکوں میں گئے ۔اس علاقے سے دنیا کا دو تہائی تیل اور ایک تہائی مال ادھر سے اُدھر آتا جاتا ہے ۔دنیا کی چالیس فیصدآبادی ان ملکوں میں رہتی ہے ۔یہ دیکھنا بھارت کا کام ہے کہ ہند مہا ساگر کے سمندری راستے سب کے لیے کھلے ہوں ۔ان میں گناہ یا جرم نہ ہوں۔جزیرے والے ملکوں میں فوجی تختہ پلٹ نہ ہوں ۔امن بنا رہے ۔خون خرابہ نہ ہو۔اور بھارت کے ساتھ مل جل کر سبھی ملک خوشحالی بڑھائیں۔اسی لئے ماریشئس کے 'اگلیگا‘ اور سیشلس کے 'ایجمپشن‘جزیروں پر بھارت نے پالیسی کے ڈھانچے کھڑے کرنے کے سمجھوتے کیے ہیں ۔ماریشئس اور سیشلس کے باشندوں کے لیے ویزا وغیرہ کی سہولیات بھی بڑھائی گئی ہیں ۔سری لنکا کے ساتھ تجارت‘سرمایہ کاری اور سیدھا عوامی رابطہ بڑھانے کا بھی ارادہ ہے ۔اس دورے کے دوران بھارت کی اور سے اتنی خبردار ی برتی گئی ہے کہ چین ‘امریکہ یا کسی دوسرے ملک کے ناراض ہونے کی کوئی گنجائش نہیں۔اگر ہمیں ہند مہا ساگر میں امن قائم کرنا ہے تو اسی خبرداری سے کام لینا ہوگا ۔
ویسے بھی دنیا کی تاریخ کو دیکھیں تو سمندری طاقت بنے بغیر کوئی ملک طاقتور نہیں بنا ہے ۔آج دنیا میں امریکہ کا ڈنکا بجتا ہے تو اسی لئے کہ اس کی بحری فوج باقی ملکوں کی بحری فوج کو ملا کر بھی بھاری پڑتی ہے ۔قدیم دور سے ہم بحری فوج کے بل پرطاقتور بنے ہوئے تھے ۔مشرقی ایشیا کے ملکوں میں اس کے کافی ثبوت موجود ہیں ۔جب ہم نے اس طاقت سے لاپروائی کی توہم یورپی بحری فوج طاقتوں کے دوسرے مقام پر جاکر رہنے لگے ‘ان کے غلام ملک ہوگئے ۔تاریخ کو ایک اور کردیں تو بھی اتنی بڑی سمندری سرحد والے ملک کو ویسے بھی بحری فوج کی نظر سے طاقتور ہونا ہی چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved