نوے کی دہائی کے آغاز میں شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ میں بھارتی فوج کی 15 پنجاب رجمنٹ نے گورنمنٹ کالج کے ہوسٹل میں ڈیرہ ڈالا ہوا تھا۔ ایک دن فوجی علی الصبح مارکیٹ میں راہ چلتے، دفتروں اور کالج کی طرف گامزن افراد کو ٹرکوں میں سوار کرا رہے تھے۔ بتایا گیا کہ کیمپ میں کوئی افسر ان لوگوں سے ملنا چاہتا ہے۔ کیمپ جاکر پتا چلا کہ فوجیوں کو بنکر بنانے کے لیے مزدورں کی ضرورت تھی، اس لیے چن چن کر ہٹے کٹے افراد کو کیمپ لایا گیا اور انہیں اینٹ، گارا، ریت وغیرہ ڈھونے کا حکم صادر ہوا۔ تقریباً 50افراد کی اس ٹولی میں ایک لیکچرر صاحب بھی تھے۔ انہوں نے اپنی لیکچرری کے زعم میں مزدوری کرنے سے انکار کیا اور حفاظت پر تعینات ایک سپاہی سے الجھ پڑے۔ وہ انگریزی میں بے تکان تقریر کرتے ہوئے افسر سے ملنے کی ضد کرنے لگے اور فوجیوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ ایک گزیٹڈ افسر ہیں اور رتبے میں میجر کے برابر یا کچھ زیادہ ہی ہیں، اس لیے وہ جبراً مزدوری کا کام نہیں کر سکتے۔ مگر ان کی یہ تقریر ادھوری ہی رہ گئی جب سپاہی نے اپنے بندوق کا بٹ ان کے کندھے پر مارا‘ جس سے ان کی کالر کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا۔ جب لیبر کے لیے لائی گئی فورس نے صدائے احتجاج بلند کی تو افسر‘ جو شمالی بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک کیپٹن صاحب تھے، برآمد ہوئے‘ فوراً طبی امداد منگوائی اور لیکچرر صاحب کے آرام کے لیے ہوسٹل کا ایک کمرہ بھی خالی کرا دیا۔
شام کو جب طلبہ کو کیمپ میں اپنے والدین کے سپرد کیا جا رہا تھا، کیپٹن صاحب نے لیکچرر کو ان کے ساتھ جانے نہ دیا، وجہ یہ بتائی کہ ان کا مکمل علاج ہونے بعد ہی والدین کے حوالے کریں گے۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اگلے دن ایک بریگیڈیر علاقے کے دورہ پر تھا، کیمپ میں ایک سویلین کو دیکھ کر وہ بھڑک اٹھا اور لیکچرر صاحب کو علاقائی ہیڈکوارٹرز بارہ مولہ ساتھ لے گیا۔ وہاں سے انہیں سرینگر میں کور ہیڈکوارٹرز بھیج دیا گیا‘ جہاں چند دن بعد وہ ٹھیک ہو گئے۔ فوج نے
ان کو گھر جانے کی اجازت دینے کے بجائے پولیس کے سپرد کر دیا۔ ان پر کوئی الزام نہ تھا‘ لیکن پولیس نے لیکچرر صاحب کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بند کرکے جیل بھیج دیا۔ کشمیر میں چونکہ عسکری دور کا آغاز ہو چکا تھا‘ اس لیے تلاش بسیار کے باوجود لیکچرر صاحب کا پتا نہیں چل پا رہا تھا۔ آخر 6 ماہ بعد‘ جب ان کے گھر والوںکو ادھم پور جیل سے ایک پوسٹ کارڈ ملا تو انہیں معلوم ہوا کہ صاحب زادے پی ایس اے میں بند ہیں۔ کئی ماہ کی تگ و دو کے بعد عدالت نے نظر بندی کو کالعدم کرکے رہائی کے احکامات صادر کیے، مگر پولیس نے لیکچر صاحب کو رہا ہوتے ہی دوسرا پی ایس اے لگا کر دوبارہ اسی جیل میں پہنچا دیا۔ مجھے یاد ہے کہ 7 سال تک میں اس کیس کو معلومات رکھنے کی حد تک فالو کرتا رہا۔ اس دوران اور بعد میں بھی عدالت رہائی کے احکامات صادر کرتی رہی، پولیس پی ایس اے کی باز گردانی کرتی رہی اور لیکچرر صاحب زندان کی دیواروں کے ساتھ بغیر کسی قصور کے سر پٹختے رہے۔ اس دوران ان کا پورا خاندان بکھر گیا۔ والد عدالت اور جیل کے چکر لگا لگا کر فوت ہو گئے اور دوسرے اہل خانہ نان شبینہ تک کے محتاج ہو گئے۔ میں نہیں جانتا کہ اس کیس کا کیا انجام ہوا۔ مجھے اس لیکچرر کا نام بھی یاد نہیں آرہا کیونکہ کشمیر نے جو کچھ اس کے بعد دیکھا‘ یہ اس کی ایک ہلکی سی جھلک تھی۔ جب پی ایس اے میں بند حریت رہنما مسرت عالم بٹ کی رہائی پر پورے بھارت میں ہاہاکار مچی تو مجھے وہ لیکچرر یاد آ گئے۔ میں قریب ہی اینٹ گارا اٹھا رہا تھا اور یہ حضرت جبری مزدوری کر نے سے انکارکر رہے تھے اور سپاہی کو گزیٹڈ اور نان گریٹڈکا فلسفہ سمجھا رہے تھے۔
مسرت عالم کو سبھی 27 کیسوں میں ضمانت مل چکی تھی۔ پی ایس اے میں بھی ان کے خلاف گرائونڈ آف ڈیٹنشن یہ تھی کہ کسی آمدنی کے بغیر وہ کس طرح نامی گرامی وکیلوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں‘ جو کورٹ میں ان کا کیس مضبوط بنا کر ان کی رہائی کے احکامات حاصل کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت کانگریس کے رویے پر ہوئی۔ اس نے جس طرح ہاہاکار مچائی، لگتا ہے کہ وہ بی جے پی سے بھی زیادہ اپنے آپ کو محب وطن اور قوم پرست تسلیم کروانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس کے لیڈروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ افضل گورو کو انہوں نے اسی مقصد کی خاطر پھانسی پر چڑھایا تھا مگر پھر بھی وہ ہندو ووٹ بٹورنے میں ناکام رہے۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر گزشتہ پانچ برسوں سے انہوں نے مسرت عالم کے خلاف عدالتی کارروائی کیوں نہیں کی؟ اگر وہ اتنے ہی خطرناک ملزم ہیں تو ان کو سزا کیوں نہیں دلائی؟ ایک احتیاطی نظربندی۔ قانون کے تحت آخر کب تک کسی کو جیل میں بند رکھا جا سکتا ہے؟
حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا کہ کشمیر میں 1991ء سے 8 ہزار اور 20 ہزار کے درمیان افراد پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کیے جا چکے ہیں۔ اس ادارے نے حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ اس '' بے قاعدہ اور ظالمانہ قانون‘‘ کے تحت نظربند افراد کو یا تو فوری طور پر رہا کرے یا ان کے خلاف بین الاقوامی قوانین کے تحت شفاف طریقے سے مقدمہ چلا ئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی بھارتی شاخ نے مسرت عالم بٹ کی رہائی کے حوالے سے بھی تفصیلی بیان جاری کیا‘ جس میں کہا گیا کہ مسرت
عالم کی کئی بار پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندی نے ایک بار پھر اس ''ظالمانہ قانون‘‘ کے غلط استعمال کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ ایمنسٹی نے ہر سال متعدد افراد کو بغیر مقدمہ چلائے نظربند کرنے کے لیے پبلک سیفٹی ایکٹ کے بے تحاشا استعمال سے متعلق ایک مفصل دستاویز مرتب کی ہے۔ مارچ 2011ء میں بھی ایمنسٹی نے ریاست میں پی ایس اے کو ایک ''غیر قانونی قانون‘‘ قرار دیا تھا۔ اس دوران ایمنسٹی نے بہت سے معاملات کو دستاویزی شکل دی اور یہ نکتہ اجاگر کیا کہ اس قانون کے ناجائز استعمال سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی۔ جولائی 2012ء میں بھی ایمنسٹی نے ''اب بھی! غیر قانونی قانون‘‘ کے زیر عنوان رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح پی ایس اے کے استعمال سے انسانی حقوق کے کلیدی تحفظات دور نہیں کیے گئے۔ ایمنسٹی کے ایک بیان میں کہا گیا کہ تنظیم کی تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ ایک ایسا ''بے قاعدہ اور بے لگام‘‘ قانون ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو جرم کیے بغیر نظر بند رکھا جاتا ہے۔ بیان کے مطابق اس قانون کے ''گول مول‘‘ ہونے اور اس میں ضرورت سے زیادہ شقیں موجود ہونے کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنا آسان بنا دیا گیا ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس قانون کے تحت کسی شہری کو دو سال تک نظربند رکھا جا سکتا ہے؛ تاہم جموں و کشمیر کے حکام نظربندوں کی رہائی سے متعلق عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بار بار پی ایس اے کے آرڈر جاری کرکے لوگوں کو غیر موزوں طریقے سے نظر بند کرتے ہیں، متعدد افراد نظربندی کے بھنور میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کو ''غیر قانونی قانون‘‘ قرار دیا ہے، اس کے باوجود ''انصاف کے غیررسمی نظام‘‘ کے تحت اس قانون کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کو استعمال کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو یہی قانون تحفظ فراہم کرتا ہے۔ نومبر2014ء میں محمد احمد انصاری نے واضح طور پر کہا تھا کہ انسانی حقوق کی پامالی کے لیے پی ایس اے جیسے قانون کا استعمال ریاستوں اور ان کے ایجنٹوں کی بے بسی کی داستان بیان کرتا ہے۔
ادھر مسرت عالمم کی رہائی پر پیدا ہونے والے تنازع کے باعث ریاستی انتظامیہ نے مزید کسی سیاسی لیڈر یا کارکن کو رہا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ جو باعث حیرت اور پریشان کن ہے۔ ریاست میں حکمران پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید نے ناصرف انتخابی منشور بلکہ بی جے پی کے ساتھ حکومت سازی کے لیے ترتیب دیے گئے کم سے کم مشترکہ پروگرام میں بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ خارجی سطح پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے علاوہ داخلہ سطح پر مزاحمتی قیادت کے ساتھ مفاہمت کا عمل شروع کیا جائے گا۔ مفتی سعید نے پولیس سربراہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں بھی واضح کیاکہ جمہوریت خیالات کی جنگ کا نام ہے اور محض اختلافات کی بنا پر لوگوں کو عتاب کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ نئی حکومت کی اس پالیسی سے یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ ریاست کے اندر مفاہمت کا ایک نیا دور شروع ہو گا جس کے نتیجے میں دیرپا امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مفاہمتی عمل کو فروغ دینے کے لیے اختلافی آوازوں کو برداشت کرنا اور انہیں سیاسی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت دینا لازمی ہے۔ اس کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور مزاحمتی رہنمائوں کو اپنی بات کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا جائے؛ تاہم مسرت عالم کی رہائی کے بعد جس طرح ریاستی حکومت دبائو میں آگئی اور جس طرح اس نے رہائی کا عمل روکنے کا اعلان کیا ہے وہ مفاہمتی عمل کے حوالے سے کسی بھی طور خوش آئند نہیں اور اس کے یقینامنفی نتائج برآمد ہوں گے۔