تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     19-03-2015

کند ہم جنس با ہم جنس پر واز

قائد تحریک الطاف حسین کے خلاف رینجرز کی طرف سے اندراج مقدمہ کی قانونی اہمیت کیا ہے؟ آئینی و قانونی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں مگر سیاسی اور علامتی اہمیت بہت ہے۔ عزیز آباد چھاپے کے بعد کراچی کے عوام اور متحدہ کے کارکنوں کو یہ باور کرانے کی کاوش کہ ٹارگٹڈ آپریشن میں مصروف فورسز کو دھمکیوں سے مرعوب کیا جا سکتا ہے‘ نہ دبائو سے پیچھے ہٹانا ممکن۔
الطاف بھائی اور متحدہ کے لیے اندراج مقدمہ کوئی نئی بات ہے نہ چھاپے اور گرفتاریاں پریشان کن عمل۔ 19جون 1992ء سے 12اکتوبر 1999ء تک متحدہ کے رہنمائوں اور کارکنوں نے ریاستی اداروں کی طرف سے مقدمات‘ گرفتاریوں‘ تشدد اور سزائوں کا سامنا کیا۔ الطاف بھائی پر اقدام قتل سمیت 72مقدمات درج ہوئے جو 2007ء میں این آر او کے اجراء کے نتیجے میں واپس لیے گئے۔ متحدہ کو ریاستی کارروائیوں سے سیاسی طور پر زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ ایک پُرامن جماعت کے طور پر اس کا تشخص ضرور متاثر ہوا مگر متحدہ کے ووٹر اور کراچی کے عوام تباہ ہو گئے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایم کیو ایم وہ پہلی جماعت تھی جو شرح صدر کے ساتھ شریک ہوئی‘ جنرل پرویز مشرف کی دست و بازو بنی اور تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوج و دیگر ریاستی اداروں کو اپنی خدمات پیش کرتی رہی مگر یہ ایم کیو ایم اور کراچی کے عوام دونوں کی بدقسمتی ہے کہ الطاف بھائی کی طاقتور اور مضبوط قیادت میں یہ جماعت اپنے عمل سے ماضی کے الزامات کو جھٹلا سکی نہ اپنی صفوں میں گھسے عسکریت پسندوں‘ ٹارگٹ کلرز ‘ بھتہ خوروں سے نجات حاصل کر پائی۔ الطاف بھائی نے مختلف شکایات پر رابطہ کمیٹی میں بار بار تبدیلیاں کیں۔ بعض اہم لوگ کراچی چھوڑ کر دوسرے ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے مگر پرنالہ جہاں تھا وہیں رہا۔ نوبت باینجا رسید کہ گزشتہ ہفتے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ پڑا تو موٹا‘ کے ٹو اور اس طرح کے کئی بدنام زمانہ سزا یافتہ مجرم موجود پائے اور پکڑے گئے اور الطاف بھائی سمیت ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کو ان جرائم پیشہ افراد کی وجہ سے اپنے ووٹروں ‘ پرامن کارکنوں‘ میڈیا اور پاکستانی عوام کے سامنے بار بار موقف بدلنا پڑا ؎
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
مشکلات میں گھری ایم کیو ایم کی مدد کو اب سابق صدر آصف علی زرداری آئے ہیں۔ زرداری صاحب سینیٹ انتخابات میں ایم کیو ایم کے احسان کا بدلہ چکا کر اپنے دیگر اتحادیوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی کمٹمنٹ پر قائم رہتے ہیں اور بُرے وقت میں دوستوں کو تنہا نہیں چھوڑتے۔ اسٹیبلشمنٹ کی واحد مدمقابل پارٹی کے طور پر پیپلز پارٹی کو میدان میں اتارنے کی یہ سوچی سمجھی کوشش ہو سکتی ہے تاکہ پچھلے انتخابات میں پارٹی کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کا ازالہ ہو اور مستقبل میں کرپشن‘ بے ضابطگیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے کسی سنجیدہ تادیبی کارروائی کی صورت میں یہ کہا جا سکے کہ ہمیں جمہوری قوتوں کے خلاف ایسٹیبلشمنٹ کی سازشوں میں ساتھ نہ دینے کی سزا مل رہی ہے۔
چونکہ ماضی میں یہ حربہ کارگر رہا ہے اور سیاستدانوں نے ہمیشہ اپنے اور اپنے سنگی ساتھیوں کے سیاسی و مالیاتی جرائم‘ بہیمانہ مظالم اور لوٹ مار کو مظلومیت کی دہائی دے کر نہ صرف چھپالیا بلکہ اس مظلومیت کے پروپیگنڈے اور اربوں روپے کی کرپشن کو حصول اقتدار کی سیڑھی بنایا‘ اس لیے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی قیادت اسی طرز کا راگ الاپ رہی ہے جو ہمیشہ سود مند ثابت ہوا ہے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ رینجرز کے چھاپے ہوں یا اندراج مقدمہ کی کارروائیاں یہ چند روز کا کھیل ہے پھر وہی سودے بازی ہو گی اور ہر ایک پرانی تنخواہ پر کام کرتا نظر آئے گا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ تاثر چنداں غلط نہیں۔
کراچی اور پورے ملک کے عوام مگر اس طرح نہیں سوچتے۔ تین عشروں سے ظلم‘ درندگی ‘ قتل و غارت گری‘ اغوا برائے تاوان‘ بھتہ خوری اور دیگر مجرمانہ کارروائیوں کا شکار عوام اب اس صورتحال کا خاتمہ چاہتے ہیں اور رینجرز کی بلا تفریق و تخصیص کارروائیاں ان کے نقطہ نظر سے حوصلہ افزا ہیں ۔ امن‘ انصاف‘ روزگار اور تحفظ عوام کی پہلی اور آخری ترجیح ہے جو بدقسمتی سے سندھ کی نمائندہ دونوں جماعتیں بار بار اقتدار میں آنے کے باوجود فراہم نہیں کر سکیں۔ اب اگر روشنی کی کرن انہیں نظر آئی ہے تو وہ نہیں چاہتے کہ سیاستدانوں کے باہمی مفادات اور ذاتی مصلحتوں کی بنا پر اندھیرے بدستور مسلط رہیں اور سندھ کے عوام کی اگلی نسلیں بھی روشنی کا منہ نہ دیکھ سکیں۔
بعض سیاستدانوں اور مذہبی رہنمائوں کا طرز عمل مگر حیران کن ہے۔ پہلے مولانا فضل الرحمن دینی مدارس اور مذہبی طبقات کی آڑ میں نیشنل ایکشن پلان سے فاصلہ پیدا کرتے نظر آئے‘ اب آصف علی زرداری اس راہ پر چل پڑے اور رینجرز کے آپریشن کو مشکوک اور کمزور کر رہے ہیں حالانکہ اس وقت کراچی کے تمام سٹیک ہولڈرز‘ بشمول ایم کیو ایم‘ کو اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور دہشت گردی کے عفریت سے نجات حاصل کرنی چاہیے مگر سیاستدان اپنی سیاسی مصلحتوں اور ذاتی و خاندانی مفادات کی بنا پر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے اس الزام کو بالواسطہ طور پرسچ ثابت کرنے کے درپے ہیں کہ ''یہ سب اندر سے ایک ہیں جرائم پیشہ گروہوں کے سرپرست اور سیاست کو ریاست پر ترجیح دینے کے مرض میں مبتلا۔ یہ موقع ملنے پر ریاست کے بدترین دشمنوں کے ساتھ مل کر بھی اپنا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے‘‘۔
نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد میڈیا نے بھی یہ ذمہ داری قبول کی تھی کہ وہ دہشت گردوں کے بیانیے کو فروغ دیں گے نہ ان کی حوصلہ افزائی پر مبنی بیانات کو نشر و شائع کریں گے۔ بحیثیت مجموعی میڈیا نے ذمہ داری کا ثبوت دیا اور اب افغانستان یا قبائلی علاقوں سے جاری ہونے والے بیانات نشر و شائع نہیں ہوتے مگر رینجرز کی کارروائیوں کو غلط‘ امتیازی اور انتقامی ثابت کرنے اور انہیں سیاسی و جمہوری قوتوں کے خلاف سازش قرار دینے والے بیانات اور الزامات کی تشہیر بدستور جاری ہے اور اس بیانیے کے حق میں دلائل گھڑنے اور ظالموں کو مظلوم ثابت کرنے والے تجزیہ کار اور دانشور بھی حیلوں بہانوں سے اپنا لچ تل رہے ہیں‘ کسی کو زرداری صاحب کی خوشنودی مطلوب ہے‘ کوئی موجودہ بے ننگ و نام‘ دشمن عوام ظالمانہ نظام کو بہر صورت برقرار رکھنے کی خاطر شمشیر بکف ہے اور کسی کو پاکستان کا اتحاد و یکجہتی برقرار رکھنے والے اداروں سے نفرت ہے اس لیے فوج کے خلاف ہر طرح کی الزام تراشی یا بقول نثار علیخاں ہرزہ سرائی مرغوب۔
عام طور پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کرپشن کے الزامات ہوں یا کسی فرد یا گروہ کے خلاف ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کی سرپرستی کی مہم ماضی میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا مگر اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ ریاستی اداروں کی تحقیق و تفتیش اور سو فیصد مصدقہ شواہد کو ناکامی سے دوچار کس نے کیا؟ اگر تلہ سازش کیس سے کراچی میں دہشت گردی اور اہم سیاسی رہنمائوں کی ہوشربا کرپشن کا پردہ چاک ہونے لگا تو سیاستدانوں نے جتھے بندی کر کے کسی تحقیقاتی کمشن‘ آپریشن اور عدالتی کارروائی کو منطقی انجام تک نہ پہنچنے دیا اور کچھ نہ بن پڑا تو این آر او کا سہارا لیا گیا ورنہ عام آدمی تو آج بھی یہ جانتا اور سمجھتا ہے کہ مختلف حکمران اورسیاستدان آڑے نہ آتے تو یہ گند کب کا صاف ہو چکا ہوتا۔
اپنے بقا کی جنگ میں مصروف ریاست مگر اب کسی مصلحت کیشی‘ دوعملی اور کمزوری کی متحمل نہیں۔ یہ جنگ جیتنے کے سوا کوئی آپشن ہے نہ پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ۔ ہم بحیثیت قوم شیطان اور گہرے سمندر کے درمیان کھڑے اپنے دفاع میں مصروف ہیں ۔ جن لوگوں کے اثاثے‘ بینک اکائونٹس ‘گھر‘ کاروبار اور خاندان بیرون ملک مقیم ہیں ان کے لیے یہ جنگ‘ جنگ نہیں محض مشغلہ ہے‘ شطرنج کی بازی۔ یہ اپنے مفادات اور سیاسی مصلحتوں کے سوا کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے مگر جن کا سب کچھ یہ وطن ہے‘ وہ اپنے محافظوں اور ضرب عضب کے توسیعی پروگرام کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ سیاسی و مذہبی قوتوں اور میڈیا سے ثابت قدمی کی امید کرتے ہیں اور امکانات کے جو دریچے کھلے ہیں انہیں ایک بار پھر بند دیکھنا نہیں چاہتے۔ رینجرز نے تفویض کردہ فرائض میں کوتاہی نہیں برتی کیا اہل سیاست و صحافت بھی اپنے دعووں ‘ وعدوں اور یقین دہانیوں کی تکرار چھوڑ کرعمل و استقامت پر آمادہ ہوں گے یا ریاست پر سیاست کے غلبے اور ذاتی و خاندانی بالادستی کی خواہش سے مغلوب وہی کچھ کریں گے جو وہ ماضی میں کرتے رہے۔مجھاں‘ مجھاں دیاں بھیناں ؎
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر‘ باز با باز

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved