تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     19-03-2015

کوئی دن جاتا ہے

سیاسی جماعتوں کے نام پر ہمارے سامنے برباد ہونے والوں کے لشکر ہیں ۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ان میں سے اکثر ایم کیو ایم کے سے انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔
گریہ و ماتم بجا مگر اس سے حاصل کیا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ ہمارا سلوک ہرگز وہ نہیں، جو کبھی ہمارا شعار تھا۔ وہ جو ایک پُرامن اور مہذب معاشرے کی ضرورت ہوتا ہے۔ وہ، جس میں افراد کی صلاحیتیں پوری توانائی سے بروئے کار آتی ہیں۔
یوحنا آباد کے سانحے پر خلط مبحث بہت ہے۔ چرچ پر حملہ کیا اس لیے ہوا کہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں؟ یہ دشمن کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ نظامِ عدل اگر بروئے کار آتا‘ اگر پولیس اور عدالتیں اپنے فرائض انجام دے رہی ہوتیں تو کیا پھر بھی ردّعمل یہی ہوتا؟ اگر جوزف کالونی، گوجرہ اور کوٹ رادھا کشن کے مجرموں کو سزا مل گئی ہوتی؟
جناب آصف علی زرداری کا ارشاد یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو تنہا نہ چھوڑا جائے گا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ایک بلوچ اپنے وعدے سے منحرف نہیں ہو سکتا۔ یہ وہی آصف علی زرداری ہیں، جنہوں نے ججوں کی بحالی کا تحریری پیمان توڑ دیا تھا۔ کہا تھا کہ وعدہ کوئی قرآن اور حدیث تو نہیں۔ ان کی اپنی جماعت اس اقدام پر خوش نہیں۔ سوال کیا گیا تو ارکانِ اسمبلی کی اکثریت خاموش رہی۔ غالباً بلاول بھٹو بھی اس فیصلے سے خوش نہ ہوں گے مگر کسی کی مجال کیا ہے کہ زرداری صاحب سے اختلاف کرے؟ یہی اصل مسئلہ ہے۔ کارندوں نے اپنا مقدر آقا کے سپرد کر رکھا ہے۔ غلط یا صحیح کا سوال ہی نہیں؛ چنانچہ اس پر بحث بھی نہ ہوئی۔ حکمران طبقہ ایک موثر نظامِ عدل کا متحمل نہیں۔
میاں محمد نواز شریف نے بھی یہی کیا تھا اور جنرل پرویز مشرف نے بھی۔ 1995ء سے شروع ہو کر 1996ء کے آخر تک جاری رہنے والے آپریشن کے بعد نواز شریف اقتدار میں آئے۔ ایم کیو ایم کے مطالبے پر انہوں نے آپریشن میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو معاوضہ ادا کیا۔ آپریشن پر وہ خورسند تھے۔ بعد میں بھی جب لندن میں ان کی آل پارٹیز کانفرنس میں عہد کیا گیا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ کبھی سیاسی اتحاد نہ کیا جائے۔ پھر 1996ء میں انہوں نے ریاستی خزانے سے ''خراج‘‘ ادا کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
جنرل پرویز مشرف کے دور میں آپریشن سے وابستہ دو سو پولیس افسروں کے قتل پر خاموشی؟ ان میں سے اکثر نواز شریف دور میں قتل کیے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے 12 مئی اور آس پاس کے دنوں میں وکلا کو زندہ جلا دینے والوں کے خلاف کیا کیا؟
تیس برس سے کراچی میں جو خونیں ہنگامہ برپا ہے، براہِ راست ایم کیو ایم اور بالواسطہ پورا معاشرہ اس کا ذمہ دارہے۔ تمام سیاسی جماعتیں، عسکری قیادت اور میڈیا بھی۔ عملی مزاحمت کا وقت آتا ہے تو میڈیا حکمران طبقات سے مختلف طرزِ عمل کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ ایک مشہور اخبار نویس یاد آیا۔ برسوں جو حیلے بہانے سے ایم کیو ایم کی تائید کیا کرتا۔ پرسوں پرلے روز آنجناب کی باچھیں کھلی تھیں؛ اگرچہ گفتگو ویسی ہی منافقانہ!
ہم ایک مصلحت پسند معاشرہ ہیں۔ پوری بات کہنے سے گریزاں۔ صاف صاف یہ بات کیوں نہیں کہتے کہ نون لیگ ہو یا اس سے پہلے کی حکومتیں، انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہی تھیں۔ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اور واویلا کرنے والا میڈیا بھی۔ کتنے ہی مجرم دندناتے پھر رہے ہیں۔ کروڑوں نہیں، اربوں لوٹ رہے ہیں۔ نہ صرف ان کی مذمت اور مخالفت نہیں بلکہ تعریف و ستائش بھی۔ ایک مشہور ڈاکو کا ذکر کیا تو دو سیاستدان میری جان کو اٹک گئے۔ کچھ خیر خواہ بھی وقتا فوقتاً تاکید کیا کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار ڈالروں پر پلتے ہیں۔ این جی اوز کے پلیٹ فارم سے دہائی دیا کرتے ہیں مگر پورے سماج کو یرغمال بنا لینے والے جرائم پیشہ افراد سے رہ ورسم بھی رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک وکیل کے بارے میں، ایک مشہور کھرب پتی نے کہا تھا: میرا جہاز وہ اس طرح استعمال کرتا ہے، جیسے پڑوسی کی بائیسکل۔
کیا یہ وہ پولیس ہے، جو جرائم کی بیج کنی کے لیے درکار ہوا کرتی ہے؟ ان میں سے کوئی ایک پارٹی بھی پولیس آرڈر 2002ء کو اپنی اصلی شکل میں نافذ کرنے لیے کیوں تحریک نہیں چلاتی؟ اس لیے کہ قانون کے دائرے میں پولیس اگر آزاد ہو گئی‘ اگر اس پر صداقت شعار شہریوں کی کمیٹیاں نگران ہو گئیں تو ان پارٹیوں کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں نون لیگ کو اگر بلدیاتی الیکشن گوارا نہیں تھے تو یہ قابلِ فہم ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو چھوڑیے، تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی نے کیوں صدائے احتجاج بلند نہ کی؟
کیا یہ افسر شاہی ڈھنگ سے ملک چلا سکتی ہے، جس کی اکثریت حکمران جماعتوں کی آلہء کار بن چکی۔ کیا اسے آزادی عطا کرنے، اس کے تربیتی معیار کو بہتر بنانے اور اس میں احتساب کا نظام رائج کرنے کی ضرورت نہیں؟ سیاسی پارٹیوں نے اس سلسلے میں کیا کیا؟ میڈیا نے کیا کیا؟ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان مرتب ہوئے کتنے ماہ بیت گئے۔ کوئی سیاسی پارٹی تحریک کیوں نہیں چلاتی؟
یوحنا آباد کے چرچ پر حملے کے بعد مسیحیوں کے خوفناک ردّعمل کو الگ سے دیکھا جائے گا تو پوری طرح مسئلے کا ادراک کبھی نہ ہو گا۔ دہشت گردی، بلوچستان، کراچی، بجلی، گیس اور ہر سال 400 ارب روپے ہڑپ کر جانے والے سرکاری اداروں کے بحران تو اور بھی پیچیدہ ہیں۔
ایک فرسودہ نظام کا مسئلہ ہے جو پولیس، عدلیہ، افسر شاہی، انٹیلی جنس اور ایف بی آر کی تشکیلِ نو پر آمادہ نہیں۔ یہ فرار کی ذہنیت ہے، عدم تحفظ ہے، جس کا ہم سب شکار ہیں۔ نہیں، یہ نظام زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔ اشتراکیت، ملوکیت یا سیاسی ٹھگوں کے منظم گروہ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ظلم کا ہر نظام ایک دن موت کے گھاٹ اترتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے نام پر ہمارے سامنے برباد ہونے والوں کے لشکر ہیں۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ان میں سے اکثر ایم کیو ایم کے سے انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔
پسِ تحریر: بلدیہ ٹائون کے قاتل بچ نہیں سکتے۔ عسکری قیادت الٹے پائوں پھر نہیں سکتی۔ تازہ ترین یہ ہے کہ زہرہ شاہد کا قاتل پکڑا گیا۔ کچھ اور بھی پکڑے جائیں گے۔ تازہ ترین یہ بھی ہے کہ الطاف حسین پر قائم مقدمے سے آگاہ کرنے کے لیے چوہدری نثار علی خاں نے برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات کی ہے۔ نواز شریف قدرے ہوش مند ہیں کہ حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ زرداری صاحب اپنی تقدیر کے لیے زیادہ بے تاب ہیں۔ یہی قدرت کا انصاف ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved