تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     19-03-2015

راہول گاندھی کی جاسوسی ‘مذاق یا کچھ اور

راہول گاندھی کے بارے میں ایوان میں طوفان مچنے والا ہے ۔اخباروں اور ٹی وی چینلوں میں پہلے سے ہی مچ رہا ہے۔ کیوں مچ رہا ہے ؟اس لیے کہ کوئی پولیس والا راہول کے گھر پراس کے بارے میں جانکاری لینے کیوں چلا گیا؟ پولیس والا راہول کے مددگار اور نوکر چاکروںسے وہ سب جانکاریاں مانگ رہا تھا‘جو پولیس کا شعبہ سبھی وی آئی پی کے بارے میں ہر سال اکٹھی کرتا ہے ۔اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان 'وی آئی پیز‘ کو اعلیٰ سکیورٹی مہیا کرائی جاسکے ۔
اس بات کو جو تل برابر بھی نہیں‘ ہمارے کانگریسی درباری اسے تاڑ بنا رہے ہیں ۔آج کل کانگریس کے لیڈر اور پالیسی‘ دونوں کا دیوالہ پٹا ہوا ہے ۔اس کے درباری ہر وقت کسی نہ کسی مدعے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اب انہوں نے پولیس والے کے بہانے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا نشانہ بنایا ہے ۔وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ معاملہ راہول گاندھی کی جا سوسی کا ہے۔ یہ جاسوسی بالکل اسی طرح ہو رہی ہے ‘جیسی کہ مودی حکومت میں گجرات میں ہوا کرتی تھی ۔دلی کو احمد آباد بنایا جا رہا ہے۔ صرف راہول ہی نہیں ‘اپوزیشن کے سبھی تیز طرارلیڈروں کو وفاقی سرکار جاسوسی کے اس جال میں پھنسا رہی ہے ۔یہ ملکی مدعہ ہے ۔اب اس مدعہ پرکانگریس اگلے ہفتہ پارلیمنٹ کو ٹھپ کرے گی ۔
راہول کے چاپلوس یہ بھول گئے کہ راہول تو لیڈر ہی نہیں ہے ‘تیز طرارہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ملک کی سیاست کے ہر ضروری مقام پر راہول غائب پایا جاتا ہے ‘جیسا کہ وہ آج کل بھی ہے ۔اس پر کوئی کیا جاسوسی کرے گا؟ اور جسے جاسوسی کرنا ہے ‘وہ اس کے گھر کیوں جائے گا‘ان کے حامیوں سے سیدھی بات کیوں کرے گا‘اپنی پہچان کیوں بتائے گااور ایک سرکاری فارم کیوں بھروائے گا ؟اس طرح کی جانکاری جاسوسی کے لئے نہیں تحفظ کیلئے اکٹھی کی جاتی ہے۔ ورنہ بالکل اسی طرح کی جانکاری کیلئے پولیس والے اڈوانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور دیگر وزرا ء یا بھاجپائی ارکان پارلیمنٹ کے یہاں کیو ں جاتے ؟یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔کانگریس سرکار کے پچھلے دس برسوں میں بھی یہ روایت قائم تھی۔یہ ویسی جاسوسی تو نہیں ہے‘جیسی وزیر خزانہ پرناب مکھرجی کے دفتر میں پکڑی گئی تھی ۔اگر کانگریس اسے مدعہ بنائے گی بھی تووہ اپنا اور راہول کا مذاق اڑوائے گی۔ یہ ملکی مدعہ نہیں ‘مذاق کا مدعہ بن گیا ہے ۔
مالدیپ پر چپ رہنا ٹھیک نہیں
مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں ۔بھارتی خارجہ پالیسی کا دبوپنا اب جم کر اُجا گر ہو گیا ہے۔ بھارت سرکار مالدیپ صدر عبدالیامین سے اتنی ڈری ہوئی ہے کہ جب نشید کے جانشین بھارت آئے تو ہمارے افسروں نے ان سے ملنے سے منع کر دیا اور جب ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج مالدیپ گئیں تو وہ نشید یا ان کے اتحادیوں سے نہیں ملیں ‘جبکہ نشید کی مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی خاص اپوزیشن پارٹی ہے۔ اس کے علاوہ نشیدبھارت کے خاص دوست ہیں۔ اس کا انجام کیا ہوا؟
اب نشید کو 13 سال کی جیل ہو گئی ہے ۔یہ جیل کیوں ہوئی ہے؟ اس لیے کہ مالدیپ کی عدالت نے نشید کو دہشتگردی میں ملوث اعلان کر دیا ہے ۔نشید نے کیسی دہشتگردی کی تھی ؟کیا اس نے پارلیمنٹ میں بم دھماکہ کیا تھایا کسی لیڈر کا قتل کیا تھایا کسی مسجد کو گروا دیا تھا؟نہیں ‘ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا‘جسے دور دور تک کوئی دہشتگردی کہہ سکے !ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے صدر رہتے ہوئے ایک جج کوگرفتار کروا دیا تھا ۔اس جج پر رشوت لینے کا الزام تھا ۔ہو سکتا ہے کہ صدر سے کوئی قانونی بھول ہو گئی ہو لیکن کیا اسے دہشتگردکہا جا سکتا ہے ؟نشید کو پکڑ کر جیل میں بند کرنایامین سرکار نے پہلے سے طے کر رکھا تھا‘کیونکہ نشید نے سرکار کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔اس وقت مالدیپ میں زبردست عوامی تحریک چل رہی ہے ۔اب نشید کی گرفتاری سے وہ اور بھی تیز ہو جائے گی ۔
کیا ان حالات میں بھارت کا خاموش یا مایوس رہنا ٹھیک ہے؟ پہلی بات تو یہ کہ مالدیپ میں گھریلو لڑائی چھڑ گئی تو بھارت پر اس کا سیدھا اثر پڑے گا۔دوسرا‘ مالدیپ پالیسی بیکار ہو جائے گی تیسرا‘ بھارت کا اثر وہاں کم اور چین کا بڑھے گا۔ مالدیپ بھارت کے خلاف عمل کا اڈہ بن جائے گا۔ بھارت نے مالدیپ کا دورہ مستردکیا۔ٹھیک نہیں کیا۔انہیں وہاں جاکر دونوں پارٹیوں کو سمجھانا چاہئے تھا ۔ابھی موقع ہے۔ بھارت سرکار اپنے اثرو رسوخ کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے افسروں کو وہاں بھیج سکتی ہے یا ہائی کمشنر یا کسی دوسرے روابط سے مالدیپ کی گتھی کو سلجھا سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved