کسی بھی بڑی تنظیم یا پارٹی کے سربراہ کو‘ زبردستی منظرعام سے ہٹانے کے لئے‘ اس کے خلاف جتنے مقدمات بھی بنائے جائیں‘ اس کے حامیوں کی اکثریت کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ کسی بھی دور کی حکومت اگر یہ سوچے کہ مقدمے قائم کر کے‘ وہ اپنے ناپسندیدہ سیاسی لیڈر کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے گی‘ تو یہ ایک ایسی خوش فہمی ہے جس کا شکار ہو کر‘ یہ سوچنے یا ارادہ کرنے والوںہی کو پچھتانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں‘ ہم ایسے ان گنت تجربے کر چکے ہیں۔ آخر کار ایسی حرکتیں کرنے والوں کو خود ہی پچھتانا پڑا۔ چھوٹے چھوٹے واقعات تو بے شمار ہیں ''پر سو گلاں دی اِکو گل‘‘ شیخ مجیب الرحمن کا واقعہ ہے۔ ان پر بھی غنڈہ گردی‘ تخریب کاری بلکہ غداری کا الزام تھا۔ حکومت نے ان کے خلاف بڑی چھان بین کے بعد ‘ فوج کے ذریعے غداری کا مقدمہ قائم کیا۔ مزید تفصیل کی ضرورت نہیں۔ مقدمہ قائم کرنے والوں کا پروگرام تھا کہ غداری کے جرم میں انہیں سزا دے کر‘ سیاست سے باہر کر دیں گے۔ سیاست سے باہر نہ کیا جا سکا۔ لیکن مجیب کو سیاست سے ہمیشہ کے لئے باہر کرنے کے خواہش مند‘ خود بھی اقتدار سے محروم ہوئے اور جس ملک کی غداری کا الزام لگا کر‘ شیخ مجیب کو پھانسی یا عمرقید دینے کے منصوبے بنائے تھے‘ انجام کار اسی شیخ مجیب کے ہاتھوں پاکستان ٹوٹ گیا۔ مجیب پر غداری کا مقدمہ نہ بنایا جاتا‘ تو میں ابھی تک یہی گمان رکھتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو دولخت نہیں کر سکتی تھی۔ پاکستان ‘توڑنے کے گناہ کے ذمہ دار ‘اس وقت کے حکمران ہیں۔
شیخ مجیب پر جب حکومت کی طرف سے غداری کا الزام لگا کر مقدمہ قائم کیا گیا‘ تو اپنے وقت کے سارے سیاستدان اور میڈیا‘ مجیب کو سخت سے سخت سزا دینے کے مطالبے کرنے لگے۔ مگر جب مجیب کے حامیوں نے مشرقی پاکستان میں زندگی مفلوج کر دی‘ تو وہی سب ان کی رہائی کے مطالبے کرنے لگے اور انہیں اعلیٰ درجے کا پروٹوکول دے کر‘ جیل سے ایوان صدر کی گول میز کانفرنس میں لایا گیا۔ چھوٹی چھوٹی مثالیں بے شمار ہیں۔ محمود خان اچکزئی‘ جو آج نہ صرف وفاقی حکومت کے معتمد خاص ہیں‘ ان کا خاندان بلوچستان کی آدھی سے زیادہ حکومت پر قابض ہے‘ ان کے والد پر غداری کا الزام لگایا گیا تھا اور بعد میں محمودخان اچکزئی کو بھی ایسے ہی الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ خان عبدالولی خان پر غداری کا مقدمہ قائم کر کے‘ انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ مقدمے میں تو انہیں کوئی سزا نہ دی جا سکی‘ انہیںعزت و احترام کے ساتھ رہا کرنا پڑا‘ لیکن خان عبدالغفار خان اور ان کے بعد خان عبدالولی خان کو غداری کے الزام میں جیلیں بھگتنا پڑیں۔ وہ تو واپس اپنی سیاست میں آ گئے لیکن حکمرانوں کے جرائم کی جو سزا ‘جواب میں انہوں نے دی‘ اس کی سزا آج پورا پاکستان بھگت رہا ہے۔ اب ہم کالا باغ ڈیم کبھی نہیں بنا سکیں گے۔ میں نے جن لیڈروں کی مثالیں دی ہیں‘ ان میں کروڑوں عوام کے لیڈر بھی شامل ہیں اور لاکھوں کے بھی۔
موجودہ حکمران‘ الطاف حسین کی شکل میں‘ آج پھر یہی تجربہ دہرانے پر تلے ہیں۔ الطاف حسین کی جماعت‘ اس وقت پارلیمنٹ میں ملک کی تیسری بڑی جماعت ہے۔ سندھ اسمبلی میں بھی ایم کیو ایم قریباً 40فیصد نشستوں پر قابض ہے۔ الطاف حسین کے طرزسیاست سے کم و بیش سبھی کو اختلاف ہے‘ ماسوائے ان کے حامیوں کے۔ انہوں نے جن مخصوص حالات میں اپنی جماعت منظم کی تھی‘ اس نے دو بنیادی ضرورتوں کو پورا کیا۔ ایک مہاجر کمیونٹی کی ضرورت جو قیام پاکستان کے فوراً ہی بعد‘ سماجی دبائو کا شکار ہو گئی اور ہجرت کے پس منظر اور زبان و تہذیب کے فرق کی وجہ سے اسے اجتماعی نفرت کا نشانہ بنایا گیا اور دوسری ضرورت‘ اس وقت کے حکمران جنرل ضیاالحق کی تھی‘ جنہوں نے مقبول ترین لیڈر ‘ذوالفقار علی بھٹو کو جبراً اقتدار سے نکال کر‘ قید میںڈالا اور پھانسی دی۔ بھٹو یوں تو پاکستانی عوام کے پسندیدہ لیڈر تھے لیکن سندھی ہونے کی وجہ سے‘ اس صوبے کے عوام نے ان کی سزا کو خصوصاً اپنی توہین سمجھا اور وہ ضیا کے خلاف شدید نفرت کا شکار ہو گئے۔ ضیا کو سندھیوں کی سیاسی طاقت توڑنے کے لئے‘ انہی کے صوبے میں ایک دوسری طاقت کی ضرورت تھی۔ مہاجروں کو اپنی عزت و وقار کی بحالی کے لئے کسی رہنما کی ضرورت تھی اور ضیاالحق کو پیپلزپارٹی کی طاقت توڑنے کے لئے کسی نئی طاقت کی۔ یہ دونوں ضرورتیں‘ الطاف حسین نے پوری کیں۔ سیاست میں ان کے جس طریقہ کار کو ناپسندیدہ قرار دیا جا رہا ہے‘ ابتدا میں اس کی سرپرستی ایک فوجی حکمران نے کی اور حمایت مہاجروں نے۔ بعد میں حالات بدلتے گئے۔ جمہوری حکومتیں بھی آئیں اور فوجی بھی۔ سب نے ایم کیو ایم کو اپنی ضرورتوں کے تحت ساتھ ملایا اور ان کے جس طرز سیاست کو غلط کہا جا رہا ہے‘ سبھی نے اس کی سرپرستی کی۔ سرپرستی کیا؟ انہیں حکومتوں میں شامل کیا۔ بجائے اس کے کہ حکمران ایم کیو ایم کو طور طریقے بدلنے پر مجبور کرتے‘ انہوں نے خود وہی طریقے اختیار کر لئے۔ مجھے موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی اور رینجرز کے سابق ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر کا ایک بیان یاد ہے‘ جس میں انہوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں کہا تھا ''ہر سیاسی جماعت کے ملیٹینٹ ونگز ہیں۔‘‘ ایم کیو ایم کے خلاف تعزیری مہم شروع کر دی گئی ہے۔ باقی سیاسی جماعتوں کے ملیٹینٹ ونگز کے خلاف کیا ہو رہاہے؟ اس کا جواب عوام کی طرح مجھے بھی معلوم نہیں۔ میں نے ایم کیو ایم کا جائزہ لیتے ہوئے‘ ایک بار لکھا تھا کہ ''کسی جماعت پر ظلم مت کرو۔ کیونکہ نتیجہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔جب مظلوم‘ ظالم بنتا ہے‘ تو وہ ظالم ترین ہوتا ہے۔‘‘ مجھے ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر لگائے گئے الزامات کی حقیقت معلوم نہیں۔ جو کچھ زبان زدعام ہے‘ وہی میں جانتا ہوں‘ لیکن میں اسے عدالت میں ثابت نہیں کر سکتا۔ کم و بیش تمام حکمران جماعتوں پر ‘بدعنوانیوں اور لاقانونیت کے الزامات لگے۔ سب کا جواب یہی رہا ‘ جو الطاف حسین کا ہے۔ ''عدالتوں میں ثابت کرو۔‘‘ حال میں ماڈل ٹائون لاہور کے اندر‘ ٹی وی کیمروں کے سامنے‘ ایک سو سے زیادہ انسانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ طاہرالقادری آج تک کسی عدالت میں یہ خونریزی ثابت نہیں کر سکے۔ ایک جماعت کھلم کھلا خونریزی کر کے‘ کسی الزام پر جوابدہ نہ ہو اور ایسا ہی کام چھوٹے پیمانے پر‘ الطاف حسین کریں تو واجب القتل۔ ناانصافیوں کے ذریعے انصاف نہیں کیا جا سکتا۔جرم و بے گناہی کے پیمانے یکساں ہوتے ہیں۔ سب کو ایک ہی طرح پرکھا جائے‘ تو انصاف ہے اور کسی ایک کو چن کر نشانہ بنا لیا جائے‘ تو یہ ناانصافی ہے۔میں الطاف حسین کے حق میں نہیں لکھ رہا۔ میں اپنے مصیبت زدہ اہل وطن کو‘ مزید تباہی سے بچانے کا خواہش مند ہو ں اور اسی لئے یہ رائے رکھتا ہوں کہ میرے اندازے کے مطابق موجودہ حالات میںالطاف حسین ‘اپنے آپ کو جرائم پیشہ عناصر سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں۔ عملی طور پر وہ اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ صولت مرزا کے معاملے میں انہوں نے یہ کہہ کر کہ ''اگر ایم کیو ایم کے کسی آدمی نے جرم کیا ہے‘ تو اسے سزا دیجئے‘‘ ایک واضح اشارہ کر دیا ہے۔ حکومتوں کا کام ممکنات سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری کسی بھی حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ مشرقی پاکستان کو ساتھ رکھنے کے بے شمار طریقے دستیاب تھے۔ حکمرانوں نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا اور ملک توڑ دیا۔ آج کے حکمران بھی چاہیں تو الطاف حسین پر دبائو جاری رکھتے ہوئے‘ انہیں اپنی جماعت کے ناپسندیدہ عناصر سے علیحدگی پر آمادہ کر لیں‘ تو جو کچھ عوام اور حکومت چاہتے ہیں‘ وہ آسانی سے ہو سکتا ہے۔ کوئی حکومت میں رہ کر یہ کہے کہ ''الطاف حسین اپنے وعدے توڑ دیں گے‘‘ تو یہ اس کی نااہلی ہے۔ وہ حکومت ہی کیا؟ جو اپنے سارے آپشنز چھوڑ دے اور وعدوں پرتکیہ کر کے بیٹھ جائے۔ حکومت وعدوں پر اعتبار بھی کرے اور وعدوں پر عمل کرانے کی طاقت سے کام بھی لے۔ سیاست میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ باقی جماعتیں جن کے اپنے ملیٹینٹ ونگز ہیں‘ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اقتدارمیں بیٹھی ہیں۔ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے ونگز ختم نہیں کریں گی۔ جب ان کے ونگز برقرار رہیں گے۔ ایم کیو ایم تن تنہا نہتے ہو کر بیٹھے گی‘ تو ظلم کا نشانہ بنے گی۔ یہ بات ریاست کے محافظوں کو سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ سیاستدانوں پر اعتبار کر کے‘ کبھی کوئی فائدے میں نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ساری سماجی طاقتوں کو‘ اپنی غیرقانونی طاقت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ الطاف حسین نے بالکل صحیح پوچھا کہ ''میرے پاس اسلحہ ہے تو کیا مولانا فضل الرحمن خالی ہاتھ گھومتے ہیں؟‘‘ یہاں کوئی خالی ہاتھ نہیں گھومتا۔ وہ ‘جنہیں قانون نے اسلحہ رکھنے کی ڈیوٹی دی ہے‘ ان کی بنیادی ڈیوٹی یہ ہے کہ سماج کے دوسرے تمام طبقوں کو بلاامتیاز غیر مسلح کریں۔ خود حفاظتی کے لئے اسلحہ کے جو لائسنس دیئے جاتے ہیں‘ اس کے لئے فول پروف قانون بنا کر اختیار عدالتوں کو دیا جائے۔ اسلحہ لائسنس جاری کرنے کا مجاز سیشن جج ہو۔ ضلعی انتظامیہ کے پاس اسلحہ کے لائسنس کا اختیار ہونے کا‘ واضح مطلب یہ ہے کہ حکمران جماعت کو مسلح ہونے کی چھوٹ مل گئی۔ گننے بیٹھوں تو بے شمار کوتاہیاں ہیں۔ تیری چادر میں سو سو چھید۔رہ گیا آسان کام‘ جو سارے کر رہے ہیں‘ تو میں بھی نعرہ لگا دیتا ہوں ''الطاف حسین کو پکڑو‘‘۔ مگر اس کا فائدہ؟