تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-03-2015

ایک جملہ… برسبیل تذکرہ

قانون کی عملداری پر تو پھر بات ہوگی ابھی معاملہ اخلاقی اقدار‘ اخلاقی ذمہ داریوں اور مجموعی معاشرتی رویوں کے انحطاط کا ہے۔ معاشرے کا ہر طبقہ چند انفرادی مستثنیات کے علاوہ روز افزوں گراوٹ کا شکار ہے۔ دنیا بھر میں انسانی‘ معاشرتی اور اجتماعی حوالوں سے احساس ذمہ داری بہتری کی طرف گامزن ہے جبکہ ہمارے ہاں حساب بالکل الٹ ہے۔ اگر اسے ترقی کا نام دیں تو یہ ترقیٔ معکوس کہلا سکتی ہے۔
ان پڑھ‘ جاہل‘ غیر تعلیم یافتہ اور معاشرے کے نچلے طبقے کو تو معافی دے دیں کہ انہیں ہم نے دیا ہی کچھ نہیں لہٰذا ان سے امیدیں وابستہ کرنا اور توقعات کے محل تعمیر کرنا نہایت غیر منطقی ہوگا۔ ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہمارے نمائندے‘ تعلیم یافتہ‘ پڑھے لکھے‘ دنیا گھومے ہوئے‘ سرکار کی مراعات سے مستفید ہونے والے‘ معاشرے میں باعزت اور عالی مقام سمجھے جانے والے‘ عقل و دانش کے حوالے سے عام آدمی کے لیے مثالی قرار دیے جانے والے اور بزعم خود دنیا کی ہر بات سے آگاہ مہذب لوگ اخلاقی اقدار‘ معاشرتی قدروں اور بشری ذمہ داریوں کا جو حشر کر رہے ہیں وہ مقام عبرت ہے۔
معاشرے جب انحطاط کی طرف مائل ہوتے ہیں تو ان کی اصلاح اور بہتری کے لیے ہر اس طبقے کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جو معاشرے کو متاثر کرتا ہے‘ قیادت پر فائز ہے‘ لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے‘ عزت و تکریم اور دولت کا بیشتر حصہ سمیٹتا ہے اور فیصلے کرتا ہے۔ ہماری بدقسمتی اصل میں یہی ہے کہ ہمارے معاشرے کے یہی طبقے معاشرتی انحطاط کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ جن لوگوں نے معاشرے کی اصلاح کرنا تھی وہ بگاڑ کا باعث ہیں۔ جنہوں نے دوسروں کے لیے مشعل راہ بننا تھا وہ خرابی کا لائٹ ہائوس بن گئے۔
دولتمندوں‘ مراعات یافتہ لوگوں اور عوامی نمائندوں کو بھی رعایت دی جا سکتی ہے کہ دولت آ جانے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اچھا انسان بھی ہو کہ دولت کے آنے کا میکنزم تھوڑا مختلف ہے۔ دولت کمانے کے بہت سے طریقے ہیں اور فی الوقت اکثر ایسے ہیں کہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ لہٰذا دولتمند ہونا اور چیز ہے اور عزت دار ہونا بالکل مختلف۔ مراعات یافتہ اور عوامی نمائندوں کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ وہ کتنے معزز ہیں اور کتنے عزت دار۔ کتنے پانی میں ہیں اور کتنے اخلاقی اقدار کے مالک۔ لیکن پڑھے لکھے‘ دنیاوی علوم سے مالا مال‘ دنیا بھر کے معاشروں کو سمجھنے والے اور قوم کو اخلاقیات کا سبق پڑھانے اور سمجھانے پر مامور لوگ جس طرح اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں اور معاشرتی ذمہ داریوں سے فارغ ہو چکے ہیں وہی اصل خرابی کی جڑ ہے۔
ڈاکٹر‘ پروفیسر‘ وکیل اور استاد‘ یہ معاشرے کے وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے نمائندے ہی نہیں بلکہ معاشرے کے رہنما ہیں‘ معاشرے کے ڈرائیور ہیں اور معاشرے کے نمائندے بھی۔ معاشرے میں باعزت اور قابل تکریم بھی اور فیوض و برکات سے فیض یاب ہونے والے بھی۔ مگر کیا یہ معاشرے کے سدھار کے لیے کوئی مثالی کردار سرانجام دے رہے ہیں؟ جواب نہایت مایوس کن ہے۔ یہ معاشرے کا سدھار تو ایک طرف رہا معاشرے کے بگاڑ کے ذمہ داروں میں شاید اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔
وکیل قانون کے نفاذ کا ایک اہم ترین جزو ہیں مگر صورتحال یہ ہے کہ قانون کا مذاق اڑانے والوں میں سرفہرست ہیں۔ مدعی یا ملزم کو جھوٹ کا پہلا سبق وکیل پڑھاتا ہے۔ جھوٹی گواہیوں اور خلاف ازواقعہ ایف آئی آر وکیل کے مشورے سے درج ہوتی ہے۔ مرضی کا فیصلہ نہ ملنے پر توہین عدالت کا سب سے بڑا منبع آج کل وکیل ہیں۔ عدلیہ بحالی کی تحریک چلا کر وہ آئندہ کے لیے ہر قسم کے قانون‘ اخلاقی پابندیوں اور معاشرتی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو چکے ہیں۔ استثنیات ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر۔ ملتان میں عدالتی اوقات میں ضلع کچہری کے سامنے سے گزرنا ایک امر محال ہے۔ وکلاء کا جہاں دل چاہتا ہے گاڑی پارک کر دیتے ہیں۔ فلائی اوور کے نیچے کار پارکنگ ہے تاہم باقی بچ جانے والی سڑک بھی کار پارکنگ کا حصہ بن جاتی ہے۔ تین گاڑیاں گزرنے کے قابل سڑک بمشکل ایک گاڑی کے لیے بچتی ہے۔ ٹریفک وارڈن بے بس ہیں۔ عوامی تکلیف کا ذکر کریں تو باقاعدہ پٹائی ہو جاتی ہے۔ ٹریفک قوانین کی بات کریں تو وردی پھاڑ کر ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں۔ کچہری شفٹ کرنے کی بات کریں تو ہڑتال کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹروں کا حال بتائیں تو شرم آتی ہے۔ آئے دن ہڑتالیں کرنا‘ ایمرجنسی بند کرنا اور کسی بھی غیر ذمہ داری پر تادیبی کارروائی کی صورت میں مریضوں کو خوار کرنا اب میڈیکل کلچر کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے۔ اخلاقی قدریں رخصت ہوئے عرصہ ہو چکا ہے۔ میری اہلیہ کی علالت کے دوران ایسے ایسے تجربے ہوئے کہ ڈاکٹر کے مسیحا ہونے پر صرف اتنا اعتماد قائم رہ گیا کہ چند لوگ ابھی اس پیشے کی تحلیل ہوتی ہوئی اقدار کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں مگر کب تک؟ لاہور میں ایک نامور ڈاکٹر سے ٹائم مانگا۔ ڈیڑھ ماہ بعد ٹائم ملا۔ کلینک کے اندر جانا سنٹرل جیل ملتان میں کسی سزائے موت کے قیدی سے ملاقات سے زیادہ مشکل تھا۔ ڈاکٹر کے کمرے کا دروازہ اندر سے بٹن کے ذریعے کنٹرول ہوتا تھا۔ دیگر ڈاکٹروں سے ڈیڑھ گنا فیس لینے والے ڈاکٹر نے پوری بات سنے بغیر دو منٹ میں فارغ کردیا۔ ڈیڑھ ماہ بعد وقت ملا۔ پانچ گھنٹے کی مسافت طے کی۔ ایک گھنٹہ کلینک کے باہر انتظار کیا۔ ڈیڑھ گنا فیس دی اور ڈاکٹر نے پوری بات سنے بغیر نسخہ لکھا‘ ہاتھ میں پکڑایا‘ گھنٹی بجائی‘ اپنے چپڑاسی کو اگلا مریض بلانے کا حکم دیا‘ بٹن دبا کر دروازہ کھولا اور ہمیں فارغ کردیا۔
ایک اور ڈاکٹر سے لاہور وقت لیا‘ دو ماہ بعد کا وقت ملا۔ شومیٔ قسمت سے جس دن کا وقت ملا اس روز لاہور میں بسنت تھی۔ پانچ گھنٹے ملتان سے گاڑی چلائی۔ ڈیڑھ گھنٹہ لگا کر لاہور میں ڈاکٹر صاحب کے کلینک پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب بسنت منانے میں مصروف تھے۔ ڈاکٹر کے ''بکنگ کلرک‘‘ سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ ڈاکٹر بھی انسان ہوتا ہے۔ پوچھا کہ کل تک رُک جائیں۔ جواب ملا کل کا دن ''ہائوس فل‘‘ ہے۔ اگلے ماہ کی اٹھارہ تاریخ کو آ جائیں۔ ڈاکٹر کی شان میں تبرا کیا۔ دل کا بوجھ ہلکا کیا اور واپس ملتان آ گئے۔ دوبارہ اس ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے دل ہی نہ کیا۔ ایک اور ڈاکٹر سے سفارش کروا کر ٹائم لیا۔ اڑھائی گھنٹے کلینک پر بیٹھے رہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے اسسٹنٹ نے اعلان کیا کہ لگتا ہے آج ڈاکٹر صاحب نہیں آئیں گے۔ میں نے پوچھا آپ کے اس ''لگتا ہے‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اسسٹنٹ نے جواب دیا میں کچھ کہہ
نہیں سکتا۔ ڈاکٹر صاحب فون نہیں اٹھا رہے۔ میں نے کہا مجھے نمبر دیں میں کرتا ہوں۔ جواب ملا ڈاکٹر صاحب نے اپنا موبائل نمبر مریضوں کو دینے سے سختی سے منع کر رکھا ہے۔
ایک ڈاکٹر سے پوچھا کہ آپ کی فیس کا کیا سسٹم ہے؟ کوئی سات سو روپے لے رہا ہے‘ کوئی ہزار روپے‘ کوئی ڈیڑھ ہزار اور کوئی تو اس سے بھی زیادہ۔ جواب ملا‘ ہم مریض کو جتنا ایکسپلائٹ کر سکتے ہیں اتنی فیس لیتے ہیں۔ میں نے پوچھا‘ کوئی اخلاقیات؟ جواب ملا‘ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ کوئی سبیل نہیں کہ ٹینکی میں پانی ڈالا‘ برف ڈالی اور ثواب کما لیا۔ یہ ہمارا پیشہ ہے۔ آپ کو فیس قبول نہیں تو کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس جائیں۔ ہم کوئی زبردستی نہیں کر رہے‘ آپ کی مرضی ہے آئیں یا نہ آئیں۔ پیشہ ورانہ بددیانتی کے ایسے ایسے قصے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ نہ کوئی شرمندگی‘ نہ کوئی ملال۔ بس چوری‘ سینہ زوری اور ڈھٹائی۔
پہلی اور آخری امید استاد اور درسگاہ تھی۔ تعلیم پیشہ بن گیا اور استاد بزنس مین۔ سکولوں کی فیس کا معاملہ بھی ڈاکٹر کی فیس جیسا ہے۔ نہ کوئی قاعدہ اور نہ کوئی ضابطہ۔ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی کنٹرول۔ جنہوں نے معاملات کو دیکھنا اور سنبھالنا تھا ان کے بچے جن تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں ان کی فیس ڈالروں اور پائونڈوں میں جاتی ہے اور اتنی فیس بھرنے کے بعد حکمرانوں کو ملکی تعلیمی ادارے چور اور ڈاکو نہیں بلکہ سخی اور غریب پرور لگتے ہیں۔ جہاں معاشرے میں خوداحتسابی اور احساس ذمے داری ختم ہو جائے وہاں ریاست اپنا کردار ادا کرتی ہے مگر ریاست اپنے قانون سمیت بھنگ پی کر سو رہی ہے۔
میرے اس آخری جملے سے اگر کسی مقتدر شخص کی دل آزاری ہوئی ہو تو اس کی تشفی کے لیے عرض ہے کہ یہ جملہ بس ایسے ہی برسبیل تذکرہ آ گیا ہے۔ اس کی کسی شخصیت سے مماثلت محض اتفاق ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved