تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     20-03-2015

صولت مرزا کا بیان اور اس کے بعد

لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق صولت مرزا کی پھانسی روک دی گئی ہے اور اس کے بیان کے بعد یہ اطلاع بھی آئی ہے کہ بابر غوری اور دیگر متعدد رہنمائوں کو بھی گرفتار یا شامل تفتیش کیا جا سکتا ہے‘ اس کے علاوہ متحدہ کے قائد الطاف حسین کے خلاف بھی قتل پر اُکسانے اور بھتہ خوری وغیرہ کے الزام ہیں‘ مزید مقدمات درج کیے جانے کا بھی احتمال ہے۔ صولت مرزا کے لگائے گئے سنگین الزامات کے پیش نظر تحقیقات اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا بھی ضروری تھا جبکہ صولت مرزا کا ویڈیو بیان دلوانے کے پیچھے بھی یہی مصلحت اور ارادے کارفرما نظر آتے ہیں۔ اُدھر یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے متحدہ کے سابق لیڈر عمران فاروق کے مبینہ قاتلوں کو بھی سکاٹ لینڈ یارڈ کے سپرد کر دینے کا فیصلہ کیا ہے جس سے متحدہ کی قیادت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ مزید برآں ان حالات و واقعات کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے لیے بھی متحدہ کو حکومت میں شامل کرنا کچھ اتنا آسان نہیں رہا جس سے یہ دونوں جماعتیں تنہا رہ جائیں گی۔ مزید یہ کہ ماڈل ایان سے کی گئی تفتیش کے مطابق اس سے برآمد کی جانے والی رقم عزیر بلوچ کے وکیل کو دبئی پہنچائی جانا تھی تاکہ وہ اس کی پاکستان کو حوالگی کے خلاف مقدمہ لڑ سکے جبکہ یہ رقم مبینہ طور پر اسے رحمن ملک کے بھائی خالد ملک نے مہیا کی تھی۔ اس کے سبب سے متحدہ کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیے جانے کا احتمال پیدا ہو گیا ہے۔ نیز اس بات کا امکان اور خدشہ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی کے مبینہ عسکری ونگ سے متعلقہ کچھ لوگوں کی گرفتاری کے بعد اس کے بعض لیڈروں کے خلاف بھی انکشافات ہوں اور ان کے خلاف بھی اسی طرح کی کارروائی اور تفتیش شروع کر دی جائے۔
وزیراعظم اور آرمی چیف کے تازہ بیانات کے مطابق کراچی بلکہ سارے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کا عزم بالجزم ظاہر کیے جانے کے تناظر میں یہ کام اس وقت تک ممکن ہی نہ تھا جب تک کہ ان دہشت گردوں کے پیچھے چھپنے والے اصل ذمہ داروں پر ہاتھ نہ ڈالا جاتا؛ چنانچہ وہاں اے این پی سمیت جن جن جماعتوں کے عسکری ونگ قائم ہیں‘ انہیں صحیح معنوں میں فکرمند ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ اس ماحول میں ان کے لوگ بھی پکڑے جائیں گے اور جو اپنے اصل سرپرستوں کے نام ظاہر کردیں گے‘ اور اس طرح یہ ایک سائیکل چل پڑنے کا پورا پورا امکان موجود ہے جس سے یہ گُتھی اپنے حل کی طرف بڑھتی جائے گی۔
نہ صرف یہ بلکہ دوسرے علاقوں خصوصاً پنجاب کو بھی ان عناصر سے اسی طرح صاف کیے جانے کی طرف بھی بھرپور توجہ دیئے جانے کا امکان موجود ہے کیونکہ ملک کا کوئی بھی حصہ ان عناصر سے پاک قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ پنجاب اور خصوصاً لاہور میں بھتہ خوری کی وبا پھوٹ پڑنے کی اطلاعات بھی مسلسل آ رہی ہیں اور ان میں سے بعض افراد کے پکڑے جانے کے بعد ان کے سرپرستوں کے نام بھی ظاہر ہونے کا پورا پورا امکان موجود ہے اور جن کی مدد سے بعض دہشت گردوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں دہشت گردی کے الزام میں پنجاب سے پکڑے جانے والے بعض عناصر کی تفتیش کے دوران بھی بعض اہم سیاسی افراد کے بارے انکشافات ہو سکتے ہیں اور اس طرح کراچی والی صورت حال یہاں بھی دہرائی جا سکتی ہے کیونکہ فوج اور سول حکومت کی طرف سے بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ کارروائیاں بلاامتیاز جاری رکھی جائیں گی‘ جبکہ اس طرح کے شواہد پہلے سے ہی موجود ہیں کہ حکومت کے بعض اہم عناصر کے دہشت گردوں کے ساتھ رابطے ہیں یا موجود رہے ہیں‘ اس لیے یہاں بھی حکمران پارٹی کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ اس دودھ میں بھی پانی کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔
اب پھر کراچی کی طرف آتے ہوئے‘ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ حالات کا دھارا رفتہ رفتہ اس طرف بہہ نکلے کہ ایم کیو ایم کی قیادت یکسر تبدیل ہو کررہ جائے اور صولت مرزا کے بیان کی روشنی میں متحدہ سے متعلقہ جملہ افراد اپنی سوچ کا انداز بدلنے پر مجبور ہو جائیں اور جس کا نتیجہ پارٹی کی اوور ہالنگ کی صورت ہی میں برآمد ہو جائے۔ بیشک وہ پارٹی سے بددل نہ ہوں لیکن ان کی سوچ پارٹی کے مبینہ نامناسب کردار کے حوالے سے تبدیل ہو کر رہ جائے اور اس طرح ایک آہستہ رو اور خودکار عمل کے ذریعے پارٹی ایسے عناصر سے خود ہی پاک ہو جائے جن کی وجہ سے بُری طرح سے بدنام ہو جانے کا اندیشہ ہو کیونکہ اس جماعت کو وہاں کے عوام کی مسلمہ حمایت حاصل ہونے سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات بھی طے ہے کہ پارٹیوں کی لیڈر شپ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور پارٹی نہ صرف قائم رہتی ہے بلکہ اسی میں سے پارٹی کی بہتری کی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے امید کرنی چاہیے کہ ساری ممکنہ اتھل پتھل پارٹی کے لیے بہتری اور تازگی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ چنانچہ پارٹی اگر ایسے عناصر سے مکمل طور پر پاک ہو جاتی ہے تو یقینا یہ ایک طاقتور سیاسی قوت کے طور پر ایک نئی زندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جو ہماری سیاسی معاشرے میں تازہ ہوا کا اک جھونکا ثابت ہو بشرطیکہ پارٹی اپنی وہ خوبیاں برقرار رکھ سکے جن کی وجہ سے ہمارے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ ماحول کے لیے صحیح معنوں میں ایک خطرہ پیدا ہو جائے جس کی اس ملک کو سخت ضرورت ہے اور متحدہ قومی محاذ کے علاوہ کسی بھی اور سیاسی جماعت اور قوت سے توقع نہیں کی جا سکتی؛ چنانچہ کبُڑے کو یہ لات راس بھی آ سکتی ہے یعنی ع
خدا شرّے برانگیزد کہ خیرِ ما در آں باشد
اس لیے دعا بھی کرنی چاہیے کہ ان کارروائیوں کا نتیجہ ملکی سطح پر مثبت ا ور مفید ثابت ہو۔
آج کا مطلع
میں چلتے چلتے اپنے گھر کا راستہ بھول جاتا ہوں
اسے جب یاد کرتا ہوں تو کتنا بھول جاتا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved