رضاربانی کے بلا مقابلہ چیئر مین سینیٹ منتخب ہونے کے بعد ان کی حلف برداری کی تقریب کے دوران ہال میں موجود پیپلز پارٹی کے ارکان کی جانب سے لگایا جانے والا نعرہ'' ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ اپنی بھر پور گونج کے ساتھ کئی ساعت تک گونجتا رہا۔ یہ وہ نعرہ تھا‘ جس سے جناب آصف علی زرداری نے خود پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو چند سال ہوئے منع کر دیا تھا لیکن کئی سالوں کی پابندی کے بعد اب اس نعرے کو پھر سے آزاد کر دیا گیا ہے‘ جو پیپلز پارٹی کے بچے کھچے جیالوں کا پسندیدہ نعرہ سمجھا جارہا ہے۔ اس سے قبل جب بھی پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی طرف سے ' اک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا نعرہ لگایا جاتا تو اس نعرے کی منطق سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ جناب زرداری کن خوبیوں کی وجہ سے سب پر بھاری ہو سکتے ہیں۔ ان کا وہ کون سا کارنامہ ہے جس کی بنا پر ان کیلئے یہ تعریفی نعرہ لگایا جاتا ہے اور وہ کون لوگ ہیں جن پر وہ بھاری ہیں؟ اگر تو ان کا موازنہ سیا ست میں عوامی مقبولیت سے کیا جائے تو یہ کچھ صحیح نہیں لگتا کیونکہ اب پنجاب میں عمران خان اور نواز شریف کی مقبولیت بہرحال ان سے کہیں زیادہ ہے اور ان کے دور حکومت میں بجلی اور گیس کی تباہ کن لوڈشیڈنگ نے تو انہیں تقریباََہر گھر میں ناپسندیدہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ پنجاب میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج بھی بتا رہے ہیں کہ یہاں سے بوجھ اب اتر کر کافی ہلکا ہو چکا ہے۔ سندھ کی سیاست کی طرف جائیں تو کراچی اور حیدر آباد میں وہ الطاف حسین کے سامنے بہت ہی کمزور ہیں۔ بلوچستان کی صورت حال پر کچھ کہنا مناسب ہی نہیں لگتا اور سرحد کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے‘ جہاں عمران خان اس وقت مقبولیت میں سب سے آگے ہیں۔ اک زرداری سب پر بھاری کا یہ نعرہ چونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں بھی لگتا تھا اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ محترمہ سے مقبولیت اور شہرت میں بھاری تھے لیکن ہمارے معاشرے میں چونکہ خاوند کو بیوی کے مجازی خدا کا رتبہ حاصل ہے اس لئے محترمہ کی حیات تک یہی سمجھ آتی تھی کہ وزیر اعظم کے شوہر کی حیثیت سے وہ سب پر بھاری ہیں اور جب محترمہ وطن دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہو گئیں تو ان کی شہا دت کے بعد پارٹی کے قائم مقام چیئر مین کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے کی حیثیت سے شاید وہ سب پر بھاری سمجھے جاتے ہوں اور شاید اسی لیے پیپلز پارٹی کے جیالے ان کو باقی سب پر بھاری سمجھتے ہوئے یہ نعرہ نعرہ لگایا کرتے تھے کیونکہ اس کے سوا کوئی وجہ بنتی نہیں تھی‘ نہ ہی وہ وزن میں اتنے زیادہ ہیں‘ جس سے سمجھا جائے کہ سب سے زیادہ موٹا ہونے کی وجہ سے وہ بھاری ہیں۔ ان کی پارٹی میں اس وقت جہانگیر بدر،رانا فاروق سعید،نوید قمر،مولابخش چانڈیو اور فردوس عاشق اعوان سمیت بہت سے لیڈر ان سے وزن میں بہت ہی بھاری ہیں۔ جب کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا تو اپنے دانشور استاد گوگا سے عرض کیا: جناب والا! آپ ہی بتائیں کہ '' اک زرداری سب پر بھاری کیسے ہو سکتا ہے‘‘۔۔۔۔۔استاد گوگا نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لگاتے ہوئے آنکھوں کو بھینچا اور کونے میں رکھے ہوئے ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ٹی وی دیکھو۔۔۔۔۔ادھر دیکھا تو خبروں میں دکھایا جا رہا تھا کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف ایک سیمینار سے خطاب کر رہے ہیں۔ ہم بھی با ادب ہو کر ان کا خطاب سننے کیلئے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ جناب نواز شریف کا سیمینار سے خطاب سننے کے بعد مجھے گوگا دانشور سے اپنے کیے گئے سوال کا جواب مل گیا اور جیالوں کی طرف سے لگائے جانے والے اس نعرہ کا دل سے قائل ہو نا پڑا کہ واقعی زرداری سب پر بھاری ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے ایک ٹی وی چینل کا شکوہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ یہ چینل اپنے پروگراموں میں الٹے سیدھے حوالے دیتا رہتا ہے اور کچھ مخصوص اینکروں اور صحافیوں کو بلا کر نوازلیگ کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ جناب نواز شریف کی طرف سے کیا گیا یہ شکوہ دن بھرتمام ٹی وی چینلز پر دکھایا جا تا رہا۔ سیمینار میں مذکورہ چینل سے کیا گیا ان کا یہ شکوہ سننے کے بعد مجھے قائل ہونا پڑا کہ ''اک زرداری سب پر بھاری‘‘ والا نعرہ کس حد تک سچا ہے۔
اگر آپ آنکھیں رکھتے ہیں‘ جن سے آپ دیکھتے رہے ہیں‘ اگر آپ کان رکھتے ہیں جن سے آپ سنتے رہے ہیں۔۔۔۔۔ ۔تو پھر کسی کو بھی یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی گزشتہ پانچ سالہ حکومت میں پاکستان کا ہرچینل صبح سے شام تک صدر آصف علی زرداری اور ان کے وزیر اعظم کو بُرا بھلا کہنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں جتا رہتا تھا اور ہر اینکر اپنی صبح کا آغاز صدر زرداری کو کوسنے دینے سے کیوں کرتا تھا اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہنے کے بعد اگلی صبح پھر سے جاری و ساری کیوں ہو جاتا تھا۔ ان ٹی وی چینلز پر زرداری صاحب کے خلاف وہ باتیں کی جاتی تھیں‘ وہ وہ الزامات لگائے جاتے تھے کہ الامان و الحفیظ۔ لگتا تھا کہ اس ''کام‘‘ میں چند ایک نجی ٹی وی چینلز نے ''مشترکہ کارٹل‘‘ بنا یا ہوا تھا جو ہر تین ماہ کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کرنے کی تاریخیں دیتے رہے۔ لوگوں کے کان ان کی طرف سے دی گئی تاریخیں سن سن کر پک گئے تھے۔ اس تاریخ نے نہ آنا تھا اور وہ نہ آئی اور زرداری صاحب سابق چیف جسٹس کی تیشہ گری کے با وجود اپنے پانچ سال پورے کر گئے۔ ہاں انہیں یوسف رضا گیلانی سے اپنی جان چھڑانے کیلئے میاں نواز شریف کی باہمی دوستی کا سہارا لینا پڑا۔ صدر زرداری نے میڈیا پر اپنے خلاف بھر پور مہم چلانے والوں کو سیا سی اداکار کے سوا اور کچھ نہیں کہا‘ لیکن '' اس‘‘ ٹی وی چینل کے گروپ کے لوگ اس پر بھی بس نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے اردو
انگریزی اخبارات کے علا وہ موبائل فونز اور ای میلز پر صدر زرداری کے بارے میں ایسا مواد پھیلاتے رہے کہ انہیں یہاںلکھنے کی نقل کرنے کی اخلاق اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے فیس بک اور سوشل میڈیا والوں پر پابندی کا سوچا تک نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان کے مقابلہ میں نواز لیگ کی حکومت کی جانب دیکھیں تو آزادیٔ صحافت اور جمہوریت کے دعوے دار وں کے بارے میںایک چینل پراپنے خلاف صرف اور صرف تین دن فیصل رضا عابدی کی پیش کی گئی کیسٹوں کو برداشت نہیں کیا ۔۔۔۔۔ دوسری طرف پانچ سالوں کے الزامات کے جواب میں صرف سیا سی اداکار کا خطاب !! ۔ اب زرداری صاحب کے مقابلہ میں اگر جناب نواز شریف کی طرف دیکھیں تو سب کو یاد ہو گا جب دو تین ماہ پہلے لاہور میں ایک رپورٹر نے جناب نواز شریف سے پریس کانفرنس میں ان کی سکیورٹی پر مامور افراد کی تعداد کے بارے میں سوال کیا‘ تو ان کا غصہ دیدنی تھا۔
ہو سکتا ہے کہ کرپشن اور لوٹ مار میں صدر زرداری باقی سب سیاستدانوں پر بھاری ہوں۔ حکومتی ادارے چلانے میں اپنی نا اہلی میں وہ سب پر بھاری ہوں۔ ملک میں مہنگائی کرنے میں وہ سب پر بھاری ہوں لیکن ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ دن رات ٹی وی چینلز، اخبارات موبائلز، ای میلز نیٹ پر اپنے خلاف مواد دیکھنے اور سننے کے بعد بھی ''وہ ہنسنے اور برداشت کرنے میں سب پر بھاری ضرور تھے‘‘ انہوں نے کسی کے اشتہار بند نہیں کئے تھے‘ نہ کسی چینل کا مقدمہ پیمرا کو بھیجا تھا اور نہ ہی کسی صحافی کو بے روزگار کرنے کے اشارے دیئے تھے۔