تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     21-03-2015

ہماری یرغمالی کرکٹ

اس کیچ کو بھول جائیے‘ جو راحت علی نے چھوڑا۔ وہ آٹھ اوورز‘ جو وہاب ریاض نے یکے بعد دیگرے کئے‘ ان کی خوشگوار یادوں سے لطف اٹھائیے۔ میں نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے تمام بائولرز کو‘ ہر قسم کی وکٹوں پر بائولنگ کرتے دیکھا ہے۔ اپنے سٹار بائولرز کے عہدِ شباب میں کئے گئے اوورز بھی یاد ہیں۔ بلاشبہ ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں یکتا تھا اور ہے مگر مسلسل آٹھ اوورز کا‘ وہ ''عالمی مقابلہ‘‘ شاید ہی کسی نے دیکھا ہو اور آنے والے کئی برسوں تک‘ شاید ہی دوبارہ دیکھا جا سکے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر وہاب ریاض نے کمالِ فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ضرورت اور موقع محل کے مطابق نپی تلی گیندیں پھینکیں تو ان کے سامنے کھڑے ہوئے شین واٹسن نے بھی کمال کیا۔ 48 میں سے کم و بیش 40 گیندیں انتہائی خطرناک تھیں۔ شاید ہی بیٹسمین سے چند سیدھے بلے پر لی جا سکی ہوں۔ زیادہ تر گیندیں بلے کے مختلف کناروں پر لگیں یا پھر واٹسن بطور دفاع اپنے بازو‘ سینے کے پیڈز‘ ہیلمٹ اور بازوئوں پر جھیلتا رہا۔ نہ وہاب ریاض نے وقفہ لیا‘ نہ واٹسن آئوٹ ہوا۔ وہاب ریاض نے ایک سے ایک گیند کمال کا پھینکا اور واٹسن نے ہر گیند پر شاندار دفاعی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ جب وہاب کا سپیل پورا ہوا تو اس نے اپنی ہتھیلی کا ایک بوسہ لے کر پھونک سے واٹسن کی طرف پھینکتے ہوئے اسے شاندار خراج تحسین پیش کیا‘ جس پر ورلڈ کپ جیتنے والے سابق بھارتی کپتان اور بے مثال بائولر کپل دیو نے ناظرین کو بتایا کہ جنٹلمنز گیم کی خوبصورت روایات‘ اب بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں۔ وہاب نے اپنی بہترین جارحانہ بائولنگ کا مقابلہ کرنے والے آسٹریلوی بلے باز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے حریف کو وہ بوسہء تحسین پیش کیا جو کرکٹ کی روایت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے بھی خوب زور لگایا اور تم نے بھی بہت اچھا مقابلہ کیا۔ وہاب ریاض کے یہ شاندار اوورز‘ اس کی زندگی کی بہترین یادگار ہوں گے۔ وہ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں بھی یاد رکھے جائیں گے اور ورلڈکپ کی ویڈیو لائبریری میں بھی اس کی فٹیج کو محفوظ کیا جائے گا۔ مبصرین میں کپل دیو اور پاکستان کے تیز ترین بائولر‘ شعیب اختر‘ دونوں نے وہاب کی تیز بائولنگ دیکھ کر ایک ایک گیند پر تحسین پیش کی‘ جیسے شاعر کو ایک ایک مصرعے پر داد ملتی ہے۔
ہماری کرکٹ کا انداز بڑا مہذب‘ شائستہ اور ایماندارانہ تھا۔ کرکٹ میں ہمارے پہلے کپتان اے ایچ کاردار تھے‘ جو آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ تھے۔ حکومت پاکستان کے اعلیٰ افسر اور محکمہ تعلیم کے اونچے منصب پر فائز تھے۔ وہ نجی زندگی میں بھی اعلیٰ خاندانی روایات پر عمل کرتے۔ انہیں ملنے کے بعد یوں لگتا تھا کہ یہ انسان شاندار تہذیبی روایات کی مشین سے بن کر نکلا ہے۔ ہماری کرکٹ کی پہلی ٹیم کے بیشتر کھلاڑی‘ متحدہ ہندوستان میں کھیلے ہوئے تھے۔ بھارت اور پاکستان کی کرکٹ‘ انگریزی روایات میں پروان چڑھی۔ اب تو انگریزوں سمیت‘ وہ روایات باقی نہیں رہ گئیں اور وہ ساری گندی حرکتیں‘ جو کمرشل کرکٹ میں ایجاد کی گئیں‘ کم و بیش سب نے اپنا لیں۔ جب وہاب ریاض نے اپنی بائولنگ کا پہلا سپیل مکمل کرتے ہوئے حریف بلے باز کو اشارے سے خراج تحسین پیش کیا‘ تو کپل دیو نے تعریف کرتے ہوئے بے ساختہ ساتھی کمنٹیٹرز سے پوچھا کہ ''یہ نوجوان‘ پاکستان کے کس شہر سے تعلق رکھتا ہے؟‘‘۔ انہیں ساتھی کمنٹیٹرز نے بتایا کہ ''یہ آپ کے پڑوس میں رہتا ہے مگر وہ شہر پاکستان میں واقع ہے‘‘۔ وہ لاہور کا حوالہ دے رہے تھے۔ لاہور جم خانہ کلب میں آج بھی جو بچے کرکٹ کھیلتے ہیں‘ وہ کرکٹ کے ساتھ ساتھ اس کے آداب و روایات سے بھی آشنا ہوتے ہیں۔ کوارٹر فائنل میں بنگلہ دیش کا بھارت سے جو مقابلہ ہوا‘ اس میں ہونے والی ایک گندی حرکت کا‘ دنیا بھر کے تماشائیوں نے نوٹس لیا۔ بنگلہ دیش کی ٹیم بہت اچھا کھیل پیش کر رہی تھی۔ اس کے بائولرز‘ بیٹسمین اور فیلڈرز‘ سب جان لڑا کر کھیل رہے تھے۔ مغرور بھارتی کھلاڑی ان کی پھرتیوں سے پریشان تھے۔ ظاہر ہے گرائونڈ کے باہر موجود بھارتی کرکٹ کے حکام نے کوئی اشارہ کیا ہو گا کہ اچانک اچھی بھلی بائولنگ کرتے ہوئے کھلاڑی پر نو بال کا الزام لگا دیا گیا۔ ویڈیو پر گیند پھینکنے کا منظر دوبارہ دکھایا گیا تو صاف ظاہر ہو گیا کہ نو بال نہیں تھی مگر امپائر بضد رہا۔ اس کے بعد جو اعتراض بھی اٹھایا گیا‘ اس کا منظر ٹی وی پر دوبارہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ تو مجھے اچھی طرح یاد ہے‘ جب بنگلہ دیشی ٹیم کے بیٹسمین اننگز کے شروع میں شاندار ہٹیں لگانے لگے تو امپائر پھر بھارتیوں کی مدد کو آیا۔ وکٹ کیپر دھونی نے وکٹوں کے پیچھے آتی ہوئی ایک گیند کو پکڑا اور کیچ کیچ کا شور مچا دیا۔ جب کیچ کا منظر دوبارہ دکھایا گیا تو ظاہر ہوا کہ اس کا کوئی حصہ سکپ کیا گیا ہے۔ یعنی گیند جب بیٹسمین کی طرف سے وکٹ کیپر کی طرف گئی تو جیسے ہی دھونی کے ہاتھوں میں آئی‘ کیمرہ اوپر اٹھا لیا گیا۔ ناظرین نے جو جھلک دیکھی‘ اس میں گیند زمین کی طرف جا رہی تھی۔ یقینی طور پر دھونی نے گیند کو زمین سے اٹھا کر کیچ کیچ کا شور مچایا اور امپائر نے وہ کیچ دے دیا۔ اس کیچ کو نیٹ پر دیکھنے کی کوشش کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ دھونی نے گیند گرائونڈ سے اٹھائی تھی۔ امپائر نے اس کے باوجود آئوٹ دے دیا۔ میں تو اس بات کا یقین کر بیٹھا ہوں کہ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور کرکٹ کلب کے دوسرے درجے کے دیگر اراکین‘ پانچ دس سالوں میں ایک ہی بار‘ ٹرافی اٹھایا کریں گے‘ ورنہ زیادہ تر ریوڑیاں آپس میں ہی بانٹی جاتی رہیں گی۔ یہ تو آپ جان ہی چکے ہوں گے کہ کلب کے اے کلاس ممبروں کو میچ کھیلنے کا معاوضہ زیادہ ملتا ہے اور بی کلاس ممبروں کو کم‘ حالانکہ کوئی بھی ٹیم میچ اکیلے نہیں کھیلتی۔ دونوں ٹیمیں کھیلیں تو میچ بنتا ہے لیکن ایک ہی کھیل پیش کرنے والی ٹیموں میں‘ ایک کو معاوضہ
کم اور دوسری کو زیادہ دیا جاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہم جیسے ملکوں کی کرکٹ انتظامیہ کو کرکٹ کے یہ بڑے‘ خرید لیتے ہیں۔ ہمارے ملک کی کرکٹ پر بدقسمتی سے ایک ایسا شخص قابض ہو گیا ہے‘ جسے پاکستان کی سوشل لائف سے تعلق رکھنے والے‘ انڈین لابی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ یہ شخص باقاعدگی سے دہلی کے چکر لگاتا ہے اور بھارت کی ممتاز شخصیتوں سے اس طرح ملتا ہے جیسے کوئی ماتحت اپنے افسر سے ملتا ہو۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ کا گرو‘ عمران خان‘ جن دو کھلاڑیوں کو کوارٹر فائنل میں کھلانے کا مشورہ دے‘ انہیں بطور خاص ٹیم سے باہر رکھا جائے؟ ظاہر ہے کہ ٹیم کا انتخاب کرنے والوں کی نیت ہی جیتنے کی نہیں تھی۔ انہیں جو احکامات ملے‘ انہوں نے عمل کر دیا ورنہ ہمارے کھلاڑی ایسے بھی گئے گزرے نہیں کہ پوری اننگز میں ایک بھی پچاس کا ہندسہ نہ چھو سکے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے انہیں ڈرا دیا گیا تھا کہ ''اگر پچاس رنز بنا کر باہر آئے تو اپنے بارے میں سوچ لینا‘‘؟ وہاب ریاض زیادہ جوشیلا ہے‘ اس لئے اگر کوئی منفی ہدایت ملی بھی ہو گی تو اس نے پروا نہیں کی اور اپنی پرفارمنس دکھا کر کرکٹ کی دنیا سے بے پناہ داد سمیٹی۔ کرکٹ کے پاکستانی شائقین سے مجھے ہمدردی ہے۔ وہ جذبہ حب الوطنی کے تحت اپنی ٹیم کی کامیابی کی خاطر دعائیں مانگتے اور حوصلہ افزائی کے لئے ہلہ گلہ کرتے ہیں۔ کرکٹ کی بے حس انتظامیہ کو نہ اپنے عوام کی پروا ہے اور نہ ہی عوام کو کرکٹ سے ہر وقت باخبر رکھنے اور لطف و سرور کے لمحات مہیا کرنے والے میڈیا کی۔ موجودہ ورلڈ کپ کے دوران ''دنیا نیوز چینل‘‘ کو کرکٹ کی شاندار کوریج پر بے پناہ پسندیدگی حاصل ہوئی تو کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ نے‘ فوراً ہی پروگرام میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو دھمکانا شروع کر دیا اور سرفراز نواز کا جو اعزازیہ‘ ان کی خدمات کے اعتراف میں لگا ہوا تھا‘ اسے بھی بطور سزا بند کر دیا۔ عوام کا محبوب کھیل کرکٹ‘ بھی ملک کے تمام تہذیبی اور مالی اثاثوں کی طرح حریص حکمرانوں کے قبضے میں ہے۔ آزادی جب بھی ملی‘ سب کو ایک ساتھ ملے گی۔ اس وقت تک ہم اپنی کرکٹ اور دیگر اثاثوں سے استفادہ کرنے کو ترستے رہیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved