تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     21-03-2015

سبحان اللہ، سبحان اللہ!

سبحان اللہ، سبحان اللہ، ان دانشوروں کے کیا کہنے۔ جس معاشرے کو ایسے جینئس میسر ہوں، اپنے فروغ کے لیے اسے کسی اور کی کیا ضرورت؟
انہیں تعجب ہے کہ کال کوٹھڑی میں مجرم کا اعترافی بیان کیسے حاصل کر لیا گیا، پھر یہ بیان ٹی وی کی سکرین تک کیسے جا پہنچا۔ حیرت کا یہ سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔ نثر نگاروں نے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ مبصرین نے ایسے ایسے سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا کہیے!
عجیب بات یہ ہے کہ ان قلمکاروں کو بعض واقعات پر کبھی تعجب نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر یہ کہ بدنامِ زمانہ قاتل ایک سیاسی جماعت کے دفتر میں کیوں براجمان تھے۔ ان کے آس پاس ایسے اسلحے کے انبار کیوں پڑے تھے، پاکستان میں جو میسر ہی نہیں۔ اس پر بھی انہیں حیرت نہیں کہ دو طرح کے بیانات دیے جاتے رہے۔ ایک تو یہ کہ رینجرز انہیں کمبلوں میں چھپا کر لائے تھے‘ دوسرے یہ کہ ان میں سے ایک ایک کا لائسنس موجود ہے۔ لائسنس اگر موجود ہے تو وہ اپنے ہتھیاروں کی واپسی کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ الطاف حسین یہ بتانا بھول گئے کہ کیا اسلحے کی طرح فیصل موٹے، عابد کے ٹو اور فرحان ملّا کو بھی رینجرز کمبلوں میں ڈال کر لائے تھے؟ کوئی یہ سوال بھی نہیں پوچھتا کہ زہرہ شاہد کے قاتل کلیم کی گرفتاری پر چیخ چیخ کر متحدہ یہ کیوں کہتی رہی کہ وہ پچیس فروری سے گرفتار تھا۔ کیا اہمیت اس بات کی ہے کہ قاتل پکڑا گیا یا اس بات کی کہ کب یہ گرفتاری عمل میں آئی۔
اخبار نویسوں کو اس پر بھی کوئی حیرت نہیں کہ 13 مارچ کے بعد ٹارگٹ کلنگ رک گئی، درآں حالیکہ اس سے قبل ہر روز کئی لاشیں گرتی تھیں۔
ہم چاہیں تو کچھ مفروضے قائم کر سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ٹارگٹ کلنگ خود رینجرز ہی کیا کرتے۔ ممنوعہ اسلحہ بھی دراصل انہی کی مِلک تھا، جو ایک معزز اور محترم سیاسی پارٹی کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس سوال کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ منظم سکیورٹی فورس کے سخت گیر ڈھانچے میں ایک ایک ہتھیار ہی نہیں، ایک ایک گولی کا حساب بھی رکھا جاتا ہے۔ بھارتی سرحد پر تعینات سپاہیوں سے بھی ڈیوٹی ختم ہونے پر رائفل واپس لے لی جاتی اور کاغذات میں درج کی جاتی ہے۔
اخبار نویسوں کو اس پر بھی کوئی حیرت نہیں کہ اس چھاپے کے فوراً بعد، جس نے واقعا ت کے موجودہ سلسلے کو جنم دیا، اس مکرّم سیاسی پارٹی کے سربراہ نے یہ کہا تھا: ان لوگوں کو کہیں اور چلے جانا چاہیے تھا، دفتر میں پناہ حاصل نہ کرنی چاہیے تھی۔ ایک چھوٹی سی اقلیت کو اکثریت کے لیے مشکلات پیدا نہ کرنی چاہیے تھیں‘ ''آخر میں بھی تو پچیس برس سے یہاں بیٹھا ہوں‘‘۔
قلمکاروں کو اس پر کوئی تعجب نہیں کہ صولت مرزا کو 1999ء کے مارشل لا سے قبل سزائے موت دی گئی۔ سولہ برس تک، کامل سولہ برس تک عمل درآمد کی نوبت نہ آئی۔ میاں محمد نواز شریف کا اقتدار ختم ہوا۔ پرویز مشرف انقلاب کا عَلم لہراتے ہوئے نمودار ہوئے۔ ایشیا کے نیلسن منڈیلا نے عنانِ اقتدار سنبھالی۔ ایک بار پھر نواز شریف مرکز میں براجمان ہوئے مگر متعدد افراد کے قتل کا اعتراف کرنے والے اس شخص کو سزا نہ دی گئی۔ آخر کیوں؟ کسی ذہن میں یہ سوال اٹھتا کیوں نہیں؟ کیا اس لیے وہ بچا رہا کہ ہر دور میں متحدہ قومی موومنٹ مرکز کے ساتھ اقتدار میں شریک تھی؟ اپنے آپ سے کوئی یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ جمہوریت اور قانون کی بالاتری کے لیے بے شمار قربانیاں پیش کرنے والی پارٹی کے عالی قدر زعما اس قدر فیاض کیوں تھے کہ جیل میں اس قاتل کی آسودگی کے لیے انہوں نے غیر معمولی انتظامات کیے۔ آخر کس لیے؟
جب چاہتے ہیں، یہ اخبار نویس اپنی حیرت کو جس طرح چاہے تھام لیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے اس موضوع پر کبھی ایک جملہ تک کیوں نہ لکھا کہ 111 افراد کے قتل کا اعتراف کرنے والا اجمل پہاڑی ایک کے بعد دوسری عدالت سے بری کیوں ہوتا رہا؟ اس قدر اچھے وکیل، اس قدر ڈٹ کر مقدمہ لڑنے والے؟ کبھی کسی نے غور کرنے کی زحمت نہ کی کہ آخر کار جب وہ گرفتار ہوا اور اب کی بار عدالت نے اسے سزا سنا دی تو جیل میں وہ شاہانہ زندگی کیسے بسر کرتا رہا۔ وہ کوئی رئیس آدمی نہ تھا۔ کون اس کے لیے روپیہ لٹا رہا تھا؟ ٹی وی کے کسی پروگرام، کسی کالم، کسی تجزیے میں ایک حوالے کے طور پر بھی کبھی اس کا نام کیوں نہ آیا؟ کبھی کوئی حیران کیوں نہ ہوا؟
ان اخبار نویسوں میں سے، جو اب حیرت سے مرے جا رہے ہیں، کوئی نہیں، ٹی وی چینلوں پر جس کی معرکہ آرائی میں یہ استفسار کبھی جاگا ہو کہ 1995ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے تقریباً دو سو پولیس افسر ایک ایک کر کے کیسے قتل کر دیے گئے۔ ان کے قاتلوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟ کسی ایک قتل کی تفتیش بھی کیوں نہ ہو سکی؟ کیا ان کا خون دوسروں سے کم سرخ تھا؟ کیا وہ ٹین یا گتّے کے بنے ہوئے تھے؟ یا وہ کسی ماں کے بطن سے پیدا نہ ہوئے تھے؟ کیا ان میں سے کسی لاش پر گریہ کرنے والا کوئی نہ تھا؟ کوئی چوڑیاں توڑ دینے والی سہاگن، جس کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بنجر ہو جاتی ہے۔ کوئی ماتم گسار ماں اور بہن، جن کے لیے مسرتوں کے سب چراغ بجھ جاتے ہیں۔ جن کے لیے سورج پھر کبھی طلوع نہیں ہوتا۔ کبھی کوئی سحر نہیں جاگتی اور زندگی ایک طویل سیاہ رات بن جاتی ہے، جو آنکھوں میں کاٹنی پڑتی ہے۔ کیا ان کے آنگنوں میں ہنستے ہوئے ہاتھوں والے بچے نہ کھیلتے تھے؟
اخبار نویسوں کو اس پر کوئی تعجب نہیں کہ ان ہولناک واقعات کے بعد، ممکنہ طور پر جو ذمہ دار قرار پا سکتے تھے، ان میں سے کبھی کسی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی گئی؟ کوئی ابتدائی کوشش تک نہیں۔ کبھی کسی لیڈر نے ان کی طرف انگلی تک نہ اٹھائی۔ دخترِ مشرق بے نظیر بھٹو، وعدے کے پکّے ان کے بلوچ شریکِ حیات۔ قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف اور کبھی کسی سے خوف زدہ نہ ہونے والے پرویز مشرف۔ بالکل برعکس ان میں سے ہر ایک خوش دلی سے انہیں شریکِ اقتدار کرتا رہا۔ گلدستے لے کر وہ ان کے گھر جاتے رہے۔ ان ہاتھوں کو گویا چومتے رہے کہ جمہوریت کی باگ انہی نے تھام رکھی ہے۔
اس پر بھی شاذ ہی انہیں حیرت ہوئی کہ الطاف حسین کے سوا کسی اور رہنما کو یہ اعزاز حاصل نہ ہو سکا کہ گھنٹوں اس کی تقاریر ٹی وی سے نشر ہوتی رہیں... اور حرفِ انکار کی کسی کو مجال نہیں تھی۔ ان دلاوروں کو بھی نہیں، جو اس ملک کے جواز تک کا مذاق اڑاتے ہیں، جو خون سے سینچ کر اگایا گیا۔ ساری دنیا کے برعکس عسکری قیادت کو جو سینگوں پر اٹھا رکھتے ہیں۔ قومی سلامتی کے ان امور پر جی کھول کر شاعری فرماتے ہیں، کسی دوسری سرزمین میں جس کا تصور بھی ممکن نہیں۔
پھانسی کے کسی مجرم کا انٹرویو اور اس کی اشاعت یقینا ایک تعجب خیز واقعہ ہے مگر کتنا تعجب خیز؟ اس قوم کی عظمت کا کیا ٹھکانا، جس کے دانشور حیرت کے اظہار میں اس قدر سلیقہ مند ہیں ؎
یہ لوگ بھی عجیب ہیں‘ دل پر یہ اختیار!
شب موم کر لیا‘ سحر آہن بنا لیا
سبحان اللہ، سبحان اللہ، ان دانشوروں کے کیا کہنے۔ جس معاشرے کو ایسے جینئس میسر ہوں، اپنے فروغ کے لیے اسے کسی اور کی کیا ضرورت؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved