تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     21-03-2015

کواکب

معلوم نہیں غالبؔ ولی تھا یا نہیں! ایک بات طے ہے کہ خود اس نے اپنی ولایت کا اقرار کیا نہ انکار۔ بس ایک مشروط سے شعر میں اپنی ولایت کے بارے میں مشکوک انداز میں بات کردی ؎
یہ مسائلِ تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
تاہم ڈیڑھ سو سال پہلے آج کے پاکستان کے متعلق ایسی ایسی پیشگوئیاں کر گیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً یہ جو شعر ہے ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
تو یہ ہمارے رہنمائوں کے بارے ہی میں تو ہے۔ جنرل پرویز مشرف ہی کا معاملہ لے لیجیے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ ان کے اور ہمارے وزیراعظم جناب میاں محمد نوازشریف کے درمیان نہ صرف یہ کہ تعلقات منقطع ہیں بلکہ مخاصمت بھی ہے‘ مگر غالب بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے دھوکا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کواکب کوکب کی جمع ہے۔ کوکب ستارے کو کہتے ہیں۔ یہ دونوں محترم حضرات ہمارے آسمانِ سیاست کے روشن ستارے ہیں۔ روشنی سے انکار کس کافر کو ہے! مگر غالب ایک اور زاویے سے متنبہ کرتے ہیں کہ جو کچھ اوپر سے نظر آتا ہے اصل میں وہ نہیں‘ آخر وزیراعظم کو جنرل صاحب بھائے تھے‘ جبھی تو انہیں سپہ سالار مقرر کیا تھا۔ ورنہ سینیارٹی کے حوالے سے تو باری ایک اور جرنیل کی تھی۔ وہی تعلقات اب بھی نبھائے جا رہے ہیں۔ اس میں کچھ کمال جنرل صاحب کا بھی ہے۔ وہ اپنے دوستوں کو فراموش نہیں کرتے اور ان کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ جناب طارق عظیم نے اقتدار کے مشکل اور پُرصعوبت ایام میں جنرل صاحب کا ساتھ دیا۔ ٹیلی ویژن پر ان کا دفاع کرتے رہے۔ سالہا سال تک مخالفین کے اعتراضات کے جواب دیتے رہے۔ جنرل صاحب نے ان احسانات کا بدلہ اس طرح اتارا کہ دو دن پہلے جناب طارق عظیم کو کینیڈا میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کروا دیا۔ اگر اب بھی جناب وزیراعظم اور جنرل صاحب کے باہمی خوشگوار تعلقات کے بارے میں کسی کو شک ہے تو پھر شک اور وہم کا علاج تو بقراط حکیم کے پاس بھی نہ تھا۔ جناب طارق عظیم فارن سروس سے نہیں۔ فارن سروس آف پاکستان کے آزمودہ کار اور جہاندیدہ افسروں کی کمی بھی نہیں‘ مگر جنرل صاحب کے دوست کو جناب وزیراعظم کس طرح محرومِ توجہ رکھ سکتے تھے!
ایک اور مثال دیکھیے۔ محترمہ ماروی میمن برسوں مسلم لیگ قاف کی رکن رہیں اور یوں جنرل صاحب کے سایۂ عاطفت میں تھیں۔ والدِ گرامی بھی جنرل صاحب کی کابینہ میں وزیر رہے۔ اب وہ موجودہ حکومت میں ایک اہم مالی ادارے کی سربراہ ہیں۔ سٹیٹس ان کا بمنزلہ وزیر کے ہے۔ اسے بھی ریٹائرڈ جنرل صاحب کی کرامت ہی سمجھیے کہ جناب وزیراعظم سے اپنے خوشگوار تعلقات کو (جو بظاہر غیر خوشگوار ہیں) بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ایک دیرینہ وفادار کارکن کو بلند منصب پر فائز کرا دیا۔ یہی کرم گستری جنرل صاحب نے جناب زاہد حامد سے بھی کی۔ آپ جنرل صاحب کے عہدِ اقتدار میں وزیر تھے۔ جنرل صاحب نے اقتدار سے رخصت ہونے کے فوراً بعد انہیں مسلم لیگ نون میں داخل کرا دیا!
اب ایک اور کوکب دیکھیے۔ یہ عمران خان ہیں۔ بظاہر ایک دنیادار سیاستدان۔ مگر ان کی اصل صلاحیتوں سے پردہ حال ہی میں ایک وفاقی وزیر نے اٹھایا۔ یہ محترم وزیر ایک انتہائی اہم قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔ یوحنا آباد کے سانحہ کے فوراً بعد انہوں نے عمران خان کی حقیقت کو واشگاف کرتے ہوئے قوم کو اعتماد میں لیا اور بتایا کہ عمران خان کے 126 دن کے دھرنے نے عوام کو جلائو گھیرائو‘ زندہ جلانا‘ راہ چلتی خواتین پر حملہ اور پولیس پر تشدد کرنا سکھایا جس کا عملی مظاہرہ یوحنا آباد میں ہوا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لوگوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے اور زندہ جلانے کی راہ دھرنے نے دکھائی۔ راہ چلتی خواتین پر حملہ کرنا بھی دھرنے نے سکھایا اور پولیس پر تشدد کا طریقہ بھی دھرنے نے سکھایا۔
اب اگر آپ ٹیلی ویژن کا مقبولِ خاص و عام مزاحیہ سلسلہ ''بلبلے‘‘ دیکھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حنا دلپذیر ایسے مواقع پر ''ہَیش شاباشے‘‘ کہتی ہیں! عمران خان بھی چھپے رستم نکلے۔ بظاہر کنٹینر میں ٹھہرے رہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ کسی خفیہ مقام پر انہوں نے اکیڈمی کھولی اور اس میں زندہ جلانے‘ پولیس پر تشدد کرنے‘ لوگوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے اور راہ چلتی خواتین پر حملہ کرنے کی کلاسیں لیتے رہے۔ عوام کو‘ جن کی تعداد اٹھارہ بیس کروڑ ہے‘ عمران خان نے 126 دن میں ان سارے فنون میں طاق کردیا! جس دن محترم وفاقی وزیر نے عمران خان کی یہ اصلیت فاش کی اُسی دن یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ ایک شادی شدہ حاملہ خاتون سے اجتماعی زیادتی کی گئی جس میں حکومتی پارٹی سے تعلق رکھنے والا ایک منتخب عوامی نمائندہ بھی ملوث تھا۔ پولیس نے اسے پکڑا اور پھر چھوڑ دیا۔ چھوڑنے والی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن پکڑنا سراسر زیادتی تھی۔ خواتین پر حملہ کرنے کی کلاسیں تو دھرنے کے دوران ہوتی رہیں! کسی اور کو ملوث کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
حکومتی نمائندے نے عمران خان کے بارے میں جو اہم بات نہیں بتائی وہ یہ ہے کہ عمران خان کی صلاحیتیں زمان و مکان سے بھی ماورا ہیں‘ جو کچھ یوحنا آباد میں ہوا‘ اس کی ذمہ داری تو یقینا عمران خان پر ہے کیونکہ یہ واقعہ دھرنے کے بعد کا ہے۔ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ جلائو گھیرائو اور تشدد کے واقعات جو دھرنے سے پہلے ماضی میں ہوئے‘ ان کا بھی اصل سبب 126 دن کا دھرنا ہی ہے۔ مثلاً 2010ء میں سیالکوٹ میں دو بھائیوں مغیث اور منیب کو جس طرح ہجوم نے جلائو گھیرائو سے ہلاک کیا‘ وہ بھی اُس دھرنے ہی کا نتیجہ تھا جو 2014ء میں عمران خان نے دیا۔ اس سے بھی ایک سال پہلے 2009ء میں گوجرہ میں چالیس گھروں کو جلایا گیا جس میں مکین زندہ خاکستر کر دیے گئے‘ اس کی بھی اصل ذمہ داری عمران خان ہی پر پڑنی چاہیے۔ غرض لب لباب وہی ہے جو غالب کہہ گئیع
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ!
ہمارے ایک اور رہنما جناب آصف علی زرداری ہیں۔ آج کل ایم کیو ایم کا ستارہ گردش میں ہے۔ جناب آصف زرداری نے کہا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو مشکل میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اب بظاہر زرداری صاحب یہی تاثر دیتے ہیں کہ وہ محض جوڑ توڑ کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ صدارت کی مدت پوری کرنی ہو یا سینیٹ میں نشستیں حاصل کرنی ہوں‘ وہ اپنا ٹارگٹ پورا کر لیتے ہیں‘ دوستوں سے وفاداری بشرط استواری پر بھی ان کا ایمان ہے خواہ دوستوں نے جرم یا جرائم ہی کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو۔ مگر اصل میں ایسا نہیں! ایم کیو ایم سے اصل رشتہ جناب زرداری کا خالص نظریاتی بنیادوں پر استوار ہے۔ ایم کیو ایم مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے اور جاگیرداری کے خلاف ہے۔ لوگوں کو معلوم نہیں کہ جناب زرداری بھی مڈل کلاس کے بہت بڑے طرف دار ہیں اور جاگیرداری اور فیوڈلزم کے سخت خلاف ہیں۔ اپنے عہدِ صدارت میں وہ انقلابی کارنامے سرانجام دینا چاہتے تھے۔ مثلاً زرعی اصلاحات نافذ کر کے فیوڈلزم کی کمر توڑ دینے کا ارادہ تھا۔ نظامِ تعلیم پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ تعلیمی اصلاحات پر انہوں نے بہت سا کام کر رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت بڑے سوشل ریفارمر ہیں۔ بس مصیبت یہ آن پڑی کہ عہدِ صدارت مختصر تھا۔ عزائم ان کے طویل و عریض تھے۔ بقول احمد ندیم قاسمی ؎
مجھے تسلیم ہے مجھ سے محبت تو نے کی ہو گی
زمانے نے مگر اظہار کی مہلت نہ دی گی ہو گی
اب یہ ارمان وہ مڈل کلاس کی دلدادہ جماعت ایم کیو ایم کے ذریعے پورے کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم سے ان کی محبت کا اور کوئی سبب نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved