جب تک مرض کی صحیح تشخیص نہ ہو اور اس کے اسباب و علل کا پتہ نہ چلایا جائے‘ علاج نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی کے ایک پرانا مرض ہونے سے کون انکار کر سکتا ہے جس کے قلع قمع کے لیے کراچی میں بھرپور کارروائی کی جا رہی ہے۔ چونکہ اس سرطان کا وائرس سارے ملک میں پھیلا ہوا ہے اس لیے جب تک یہی صفائی ستھرائی ملک کے دوسرے حصوں میں بھی نہیں کی جائے گی‘ اس بیماری سے نجات حاصل نہیں کی جا سکتی۔ علاوہ ازیں اگر اس کارروائی کو کراچی تک ہی محدود رکھا جاتا ہے اور دوسرے صوبوں بالخصوص پنجاب کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے تو ایک تو یہ انصاف اور غیر جانبداری کے تقاضوں کے سراسر خلاف ہوگا اور دوسرے اس شبہے کو بھی تقویت ملے گی کہ چھوٹے صوبوں کی نسبت‘ بلکہ ان کی قیمت پر‘ بڑے صوبے کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے جبکہ پنجاب کے موجودہ حکمرانوں کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ قریبی روابط‘ جو ماضی میں اور حالیہ الیکشن کے دوران دیکھے گئے‘ سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسی تنظیموں کے قابل ذکر افراد اس جماعت کے انتخابی جلسوں بلکہ سٹیج پر بھی موجود پائے گئے تھے۔ اور‘ اس کا دوسرا بڑا ثبوت وہ بے نتیجہ اور طویل مذاکرات کا سلسلہ ہے جسے خواہ مخواہ طول دیا گیا اور اگر آپریشن شروع نہ کردیا جاتا تو یہ مذاق نہ جانے اور کب تک جاری رہتا۔
دہشت گردی کی تاریخ ہمارے ملک میں کچھ اتنی پرانی نہیں‘ بلکہ کل کی بات لگتی ہے‘ اس لیے اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے جو افغانستان میں روسی چڑھائی کا مقابلہ کرنے کے لیے استوار کی گئی اور مجاہدین کے جتھے تیار کیے گئے جو بعد میں کشمیر میں بھی بھیجے گئے۔ چنانچہ وہ نسل کم و بیش ختم ہو چکی ہے لیکن اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی دہشت گردوں کی ایک پنیری بعض دینی مدرسوں کے ذریعے بھی تیار ہو رہی تھی جو اب جوان ہو کر اپنے کمالات دکھا رہی ہے۔ اس پنیری کے شروع ہونے کی سب سے بڑی وجہ غربت تھی کیونکہ اس وجہ سے والدین چونکہ اپنے بچوں کو کھلانے پلانے اور لباس وغیرہ مہیا کرنے سے قاصر تھے اور ان مدارس میں انہیں یہ سہولیات حاصل تھیں‘ چنانچہ ان مدرسوں میں اسی وجہ سے نوخیز طالب علموں کی ریل پیل شروع ہوئی اور انہیں جلد از جلد جنت کا ٹکٹ کٹانے کی طرف راغب کیا گیا۔
چنانچہ بعد میں یہ لوگ خودکش بمباری کا بھیانک کھیل بھی کھیلتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ معاشرے کے ہر شعبے میں دخیل ہوتے گئے اور حکمرانوں کے لیے کارآمد ہونے کا سبب بھی بنتے رہے‘ حتیٰ کہ بیوروکریسی اور دوسرے اہم اداروں میں بھی اپنا راستہ بناتے گئے‘ چنانچہ عسکری تنصیبات پر حملوں کے واقعات میں یہ بھی ظاہر ہوا کہ انہیں اندر سے بھی مدد اور تعاون حاصل تھا۔ بدقسمتی سے یہ صورتحال اب بھی موجود ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور جس کی وجہ سے مشکلات بھی پیش آ رہی ہیں۔ اگرچہ اب معاشرے میں ان کا وہ زور شور دیکھنے میں نہیں آ رہا لیکن ان کے وجود سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
چنانچہ اس ناسور کے پھیلنے کی بنیادی وجہ غربت ہی ٹھہرتی ہے اور اس کے علاوہ بے روزگاری بھی‘ جن کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور جس وجہ سے مہنگائی کے مارے ہوئے نوجوانوں نے یا تو چوری‘ ڈکیتی کا پیشہ اختیار کیا یا بھتہ خوری اور دہشت گردی کا۔ اس غربت کی اصل وجہ تک پہنچنے اور اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس میں ماہر ہونا ضروری نہیں بلکہ سیدھی سی بات ہے کہ یہ سب ہماری حکومتوں ہی کا کیا دھرا ہے ورنہ اس ملک میں کیا نہیں تھا‘ اور کیا نہیں ہے؛ چنانچہ اس بات کو اب ضرب المثل کا درجہ حاصل ہو گیا ہے کہ پاکستان میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ ان حکمرانوں کے اثاثے اور بینک بیلنس سُوج کر کُپا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ زراندوزی اور بدحکومتی کا ایک شاخسانہ تو یہ ہے کہ منافع دینے والے محکمے مثلاً سٹیل ملز اور ریلوے وغیرہ نہ صرف پھانک ہو چکے ہیں بلکہ اب ان کی نجکاری کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ان میں ضرورت سے اس قدر زیادہ بھرتیاں کی گئیں اور یہ نوکریاں باقاعدہ بیچی گئیں کہ یہ قابلِ رفت ہی نہ رہے اور ان کا بیڑہ ہی غرق ہو کر رہ گیا۔
نااہلی کا عالم یہ ہے اور جس میں دروغ گوئی بطور خاص شامل ہے کہ الیکشن کے دوران ان حکومتی دعووں کے باوجود کہ انرجی کے بحران پر چھ ماہ میں قابو پا لیا جائے گا‘ اب تک نہ صرف لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا جا رہا ہے بلکہ نیشنل گرڈ میں ایک میگاواٹ بجلی کا بھی اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔ آج ہی ایک ماہر کا بیان ہے کہ اگر جلد از جلد چھوٹے بڑے ڈیم نہ بنائے گئے تو پانی کا قحط کچھ زیادہ دور نہیں ہے جبکہ حکومت کی توجہ صرف میگاپروجیکٹس پر ہے کیونکہ حکمرانوں کو ان سے آمدن زیادہ ہے۔ پولیس کا ستیاناس کر کے رکھ دیا گیا ہے جس کی وجہ سیاسی بھرتیاں ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ اس میں جرائم پیشہ افراد بھی بھرتی کیے گئے۔ علاوہ ازیں عوام کو سکیورٹی فراہم کرنا تو ویسے بھی اس حکومت کے بس کی بات نہیں ہے‘ اوپر سے اس کا بہت بڑا حصہ حکمرانوں‘ ان کے عزیز و اقارب اور قریبی جاننے والوں کی سکیورٹی پر تعینات ہے۔
چنانچہ اگر اس ناجائز دولت کی طرف توجہ مبذول نہیں کی جاتی جو عام لوگوں کی غربت کی اصل وجہ ہے تو یہ سلسلہ جاری بھی رہے گا اور غربت میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا اور دہشت گرد بھی پیدا ہوتے رہیں گے‘ کیونکہ یہی دہشت گردی کی اصل اور بنیادی وجہ ہے‘ جبکہ یہاں حکومت اور کاروبار کو یکجا کر دیا گیا جس کی اجازت کسی ملک اور کسی معاشرے میں نہیں ہے۔ قدیم مصر اور روم میں طوائفوں اور تاجروں کو شہروں میں رہنے کی اجازت نہیں تھی بلکہ ان کی بستیاں شہروں سے باہر بسائی جاتی تھیں لیکن یہاں تاجروں کو حکمران بنا دیا گیا اور جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ چنانچہ اگر فساد کی اس جڑ کا خاتمہ کیا گیا تو دہشت گرد اُدھر ختم کیے جاتے رہیں گے اور اِدھر پیدا ہوتے رہیں گے۔
آج کامقطع
ہر طرف گھور اندھیرا تھا‘ ظفرؔ
اور‘ اندھیرے کے کنارے جھلمل