ہماری مغرب نواز ''این جی اوز‘‘کا ایک ترجیحی اور نسبتاً آسانی سے حاصل ہونے والاایجنڈا مربوط خاندانی نظام کے مستحکم شیرازے کو، جوہماراافتخار ہے‘ بکھیر دینا ہے۔ مخلوط اجتماعات اورجنسی تعلیم کا فروغ اس مہم میں کامیابی کے لئے زینے کا کام دیتا ہے اور امریکہ کی رینڈ کارپوریشن اس مہم کے لیے فراخ دلی سے مالی وسائل فراہم کرتی ہے۔یہ بیگمات اور ان کاعملہ اپنے مشن کے لیے اتنا پُرعزم (Committed) ہوتاہے کہ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر ایسی ہی مستحکم وابستگی (Commitment)انہیں دین کے لیے نصیب ہوجائے تو سیدھے جنت میں جائیں۔اگر محبت کے نام پر شادی رچانے والاکوئی مفرور جوڑاہاتھ آجائے تو ان کا بانڈ نکل آتاہے ۔بھاگم بھاگ پہلے سول عدالت سے ضمانت قبل ازگرفتاری لیتے ہیں ،پھر لڑکی کوکسی دارالامان کے حوالے کرنے کاعدالتی پروانہ حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد سیدھا پریس کلب جاکر اُس جوڑے کے ہمراہ پریس کانفرنس کااہتمام کرتے ہیں۔اس سے ہمارے میڈیا کوبھی رونق ِمحفل کے لیے کچھ مواد ہاتھ آجاتاہے۔
اس ضمن میں ان بیگمات کاایک من پسند موضوع نکاح نامہ بھی ہوتاہے۔ آئے دن اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر نکاح خواں یارجسٹرارنکاح کو کوستی رہتی ہیںکہ نکاح نامے کے سارے کالم کیوں نہیں پُر کئے جاتے، صرف کراس لگادیے جاتے ہیں ،ان پر پابندی لگائی جائے کہ نکاح نامے کے کالم نمبر18میں درج کردیں کہ بیوی کو خود کو طلاق دینے کا اختیارحاصل ہے،یعنی طلاق کا حق اسے تفویض کردیاگیاہے۔ ان کا بس چلے تو ٹکٹکی باندھ کر ان نکاح خوانوں کو سرِ عام کوڑے لگوائیں۔ میڈیا پر یہ واویلا اکثر مچایا جاتا ہے۔ جب سے ہمارے ہاں انڈین ڈراموں ،فلموں اور ٹیلی وژن مکالموں میں ازدواجی معاملات کو بحث کا موضوع بنانے کا کلچرعام ہواہے، ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح میںکافی اضافہ ہوگیا ہے۔اسی طرح جب سے ''قانونِ تحفظِ حقوقِ نسواں‘‘ کی آڑ میں ''زنا بالرضا‘‘ کو تحفظ ملا ہے، غیر ت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
اصولی طورپر کسی نکاح خواں یا رجسٹرار کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ نکاح نامے کے کالموں میں اپنی طرف سے کچھ لکھ دے ،وہ صرف اسی صورت میں کوئی اندراج کرسکتا ہے،جب زوجین کسی شرط یاشرائط پر متفق ہوجائیں،نکاح خواں یاکسی ایک فریق (دولہایا دلہن)کی جانب سے یک طرفہ طورپر کوئی شرط نہیں لکھوائی جاسکتی۔ ہمارے ہاںاعلیٰ سرکاری ملازمتوںکے امیدواروں کے لیے درخواست فارم بھرنے کی بابت جوہدایات درج ہوتی ہیں، ان میں یہ لکھاہوتاہے کہ خالی کالم میں Not Applicableلکھیںاور کراس لگانے کا مقصد بھی یہی ہوتاہے۔سواگر نکاح کے موقع پر زوجین میں کچھ شرائط پراتفاق ہوجاتاہے تو نکاح نامے میں ان کودرج کرانا فریقین کی ذمہ داری ہے ۔اگرنکاح خواں یا رجسٹرار کالم کو خالی چھوڑ دے اورکراس نہ لگائے تو خدانخواستہ کوئی فریق یک طرفہ طورپر کوئی شرط درج کرکے ایک نئے تنازع کو جنم دے سکتاہے ،کیونکہ نکاح نامے کی ایک کاپی دولہا کے لیے اورایک دلہن کے لیے ہوتی ہے ۔
شریعت کی رُوسے نکاح کے صحیح طورپرمنعقد ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ فریقین ایک ہی مجلس میں دوگواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کریں۔ایجاب وقبول نکاح کے رُکن ہیں ،دوگواہوں کاموجود ہونا صحتِ نکاح کے لئے شرط ہے اورخطبۂ مسنونہ پڑھنا سنّت ہے اور اس خطبے کی حکمت بھی نکاح کا اعلانِ عام ہے تا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے اور کوئی انہیں اکٹھے دیکھ کر بدگمانی نہ کرے ۔صحتِ نکاح کے لیے ایک مرتبہ ایجاب وقبول کافی ہے، ہمارے ہاں بعض علاقوں میں تین مرتبہ ایجاب وقبول کرایا جاتاہے، ایسا کرنا نہ ضروری ہے اور نہ اس میں کوئی حرج ہے۔ اسی طرح پنجاب کے بعض علاقوں میں دولہا کو چھ کلمے پڑھائے جاتے ہیں ، ایسا کرنا صحتِ نکاح کے لئے لازم نہیں ہے اور اگر معنی ومفہوم سمجھ کر پڑھا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ برکت کا باعث ہے۔ اگر مجلسِ نکاح میں سب لوگ دلہن کے مَحرم ہوں تو زوجین براہِ راست بھی ایجاب وقبول کرسکتے ہیں ، ورنہ دلہن کی طرف سے ایجاب وقبول کے لئے ہمارے معاشرے میں وکیل مقرر کیا جاسکتا ہے، جب دلہن کسی شخص کو اپنا وکیلِ مُجاز (Authorised Attorney)بنالے تواس کے ایجاب یا قبول سے نکاح منعقد ہوتاہے۔نکاح نامہ پُر کرنا یانکاح کی دستاویز مُرتب کرنا یہ شریعت کامطالبہ نہیں ہے، بلکہ قانونی ضرورت ہے اور مفید بھی ہے کہ آئندہ کے معاملات کے لیے نکاح کا ثبوت زوجین کے پاس ہوتاہے اور خدانخواستہ کوئی تنازع ہوجائے تو اس کو طے کرنے میںبھی کام آتاہے۔
سورۂ بقرہ آیت 282، جو قرآن مجید کی طویل ترین آیات میں سے ایک ہے ، میں قرض کے لین دین کی دستاویزمرتب کرنے کا استحبابی حکم فرمایاگیاہے ،ارشاد ہوا:'' اے ایمان والو!جب تم کسی مقررہ مدت کے لئے آپس میں قرض کالین دین کرو ،تواسے لکھ دیاکرو‘‘۔پھراگر دستاویز یا وثیقہ لکھنے والا ایک ہی آدمی ہو تواسے ہدایت فرمائی گئی :'' اورتمہارے درمیان کسی کاتب (وثیقہ نویس) کوعدل کے ساتھ دستاویز لکھنی چاہئے اورجس شخص کو اللہ تعالیٰ نے لکھنا سکھایا ہو،اُسے لکھنے سے انکار نہیں کرناچاہئے‘‘۔یہ حکم اس لئے فرمایاکہ اپنے دینی بھائی کے حقوق کے تحفظ میں مددگار بننامسلمان کا شِعار ہونا چاہئے۔ حدیث پاک میں فرمایا:'' جواپنے مسلمان بھائی کی نصرت ومدد کرتاہے،اللہ تعالیٰ (جزاوانعام کے طورپر) اس کی مدد فرماتاہے‘‘ (صحیح مسلم:2074)۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ہدایت فرمائی :''جس پر کسی کا قرض ہے،دستاویز لکھوانااس کی ذمے داری ہے،وہ اللہ سے ڈرتا رہے جواس کا رب ہے اور(حق) میں کوئی کمی نہ کرے‘‘۔ اسی طرح اس آیت میں کاروباری معاملات میں گواہ مقرر کرنے کا بھی استحبابی حکم فرمایا گیا ہے۔ اور اس سے اگلی آیت میں فرمایا:'' پھر اگر تم کو ایک دوسرے پر اعتبار ہو،توجس پر اعتبار کیاگیا ہے، اُسے چاہئے کہ وہ اس کی امانت اداکرے اور (بارِامانت سے عہدہ براہونے میں) اللہ سے ڈرتارہے، جو اس کارب ہے اورشہادت کو نہ چھپاؤ اورجو شخص گواہی کو چھپائے گا (یعنی گواہی نہیں دے گا یا اس میں خیانت کرے گا)تواس کا دل گناہ گار ہے‘‘۔قرآن مجید میں دوسرے مقام پر ہے:'' اوراس سے بڑھ کر ظالم کون ہے،جس نے اُس شہادت کو چھپایا جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے ہے‘‘ (البقرہ:140)۔
لہٰذا نکاح نامہ پُر کرنا اور اس کی رجسٹریشن کرانا یہ ہمارے ملک کا قانون ہے اورہم پر اِس کی پاس داری لازم ہے۔قانون کی پاس داری اس لیے بھی لازم ہے کہ قانون شکنی کی صورت میں انسان قانون کی گرفت میں آتاہے اور اس کی عزت پامال ہوتی ہے ۔رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے : '' مومن کے شایانِ شان نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ذلت سے دوچار کرے ،صحابہ نے عرض کی:یارسول اللہ !وہ اپنے آپ کو ذلّت سے کیونکر دوچار کرے گا؟ آپﷺ نے فرمایا:اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے آپ کو ایسی آزمائش سے دوچار کرے ،جس سے سرخرو ہوکر نکلنے کی اس میں طاقت نہ ہو‘‘(سنن ترمذی:2254)۔ سوقانون شکنی بھی مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
اب آتے ہیں ''تفویضِ طلاق‘‘ [To Delegate The Powers of Divorce (Talaq)]کی طرف ،سو مسئلہ یہ ہے کہ باقاعدہ نکاح منعقد ہونے سے پہلے توخوددولہا کے پاس طلاق کا حق نہیں ہے ،تووہ دلہن کو یہ حق کیسے تفویض کرسکتاہے ،کیونکہ نکاح کے انعقاد سے پہلے وہ عورت اس کے لیے نامحرم اوراجنبی ہے۔اسی طرح کسی نکاح خواں یا رجسٹرار کو بھی یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اَزخود(Suo Moto) یہ حق حاصل کرلے ۔لہٰذا اگرنکاح سے پہلے نکاح نامے میں بیوی کے لیے خود کو طلاق دینے کا حق درج بھی کردیاجائے تووہ شرعاً مؤثراورمعتبر نہیں ہے ۔پس اس کا درست شرعی طریقہ یہ ہے کہ نکاح منعقد ہونے کے بعددولہا دلہن کو طلاق دینے کا حق تفویض کرے،اس لیے کہ اب اسے یہ حق حاصل ہوچکا ہے، لہٰذا اب وہ یہ حق اپنی بیوی کو تفویض کرسکتا ہے اور اس کے لئے درست الفاظ یہ ہیں:''میری بیوی جب کبھی چاہے، اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے ‘‘،اس کے لیے ہماری فقہ کی کتابوں میں ''مَتٰی شِئْتِ،مَتٰی مَاشِئْتِ،اِذَاشِئْتِ،اِذَامَاشِئْتِ‘‘ کے کلمات آئے ہیںاوران کا معنی ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے کہے :'' تو جب بھی چاہے یاجب کبھی چاہے اپنے آپ کو طلاق دینے کا حق رکھتی ہے‘‘ ۔ان کلمات سے تفویض طلاق کایہ حق اُسی مجلس یاکسی خاص وقت تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اُسے ہمیشہ یہ حق حاصل رہتاہے۔ڈاکٹر وھبہ الزحیلی نے بھی اس پر تفصیلی بحث کی ہے کہ فقہ حنبلی اورفقہ مالکی میں یہ توکیل طلاق ہے،یعنی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے اُسے اپنا وکیل بناتاہے اورایک بار یہ اختیار دینے کے بعد واپس نہیں لے سکتا (فقہ الاسلامی وادلتہٗ،جلد9،ص:6935-6941)‘‘۔
چند احادیثِ مبارَکہ پیشِ خدمت ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:(1)''عورتوں سے اُن کے حسن کے سبب نکاح نہ کرو ،ممکن ہے اُن کا حسن اُنہیں پستی میں گرادے اور نہ ہی اُن کے مال کے سبب اُن سے نکاح کرو،ممکن ہے کہ ان کا مال انہیں سرکش بنادے، بلکہ اُن کی دینداری کے سبب اُن سے نکاح کرو‘‘ (سنن ابن ماجہ : 1859)۔(2)'' تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل یعنی بیوی بچوں کے لیے اچھا ہو اور میں تم میں اپنے اہل کے لیے سب سے بہتر ین ہوں‘‘ (سُنن ابن ماجہ: 1977)۔