ایک اچھی بلکہ بہت اچھی خبر یہ آئی کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان گزشتہ عام انتخابات کا جائزہ لینے کے لئے عدالتی کمشن کے قیام پر اتفاق ہو گیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جس پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا، اس میں ان کے دائیں بائیں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور جہانگیر ترین موجود تھے۔ یہ سب ایک دوسرے کی بلائیں لے رہے تھے اور بڑے محتاط الفاظ میں اس ''کامیابی‘‘ کی اطلاع دینے میں لگے تھے۔ہر ایک کی کوشش تھی کہ کسی دوسرے کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچ جائے یا وہ یہ تاثر نہ دے گزرے کہ فریق مخالف کو شکست ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی سیاستدان اگر چاہیں یا ضرورت محسوس کریں تو وہ انسان بن کر بھی دکھا سکتے ہیں۔ آداب گفتگو ملحوظ رکھ سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت کرکے اپنی عزت کرا سکتے ہیں۔میری والدہ مرحومہ کے بقول عزت دوسرے کی رکابی میں اپنا سالن رکھ کر کھانے کا نام ہے۔ تحریک انصاف (اور طاہر القادری صاحب) کے دھرنے کے دوران جس زباندانی کا مظاہرہ کیا گیا اور اس کے جواب میں جو کچھ کہا گیا، وہ ہماری تاریخ کا ایک افسوس ناک ہی نہیں شرمناک باب بھی ہے۔ اس دوران میں محتاط مائوں نے اپنے بچوں کو ٹیلی ویژن کے قریب بیٹھنے سے منع کر دیا تھا...بہرحال ؎
رات کی بات کا مذکور ہی کیا
چھوڑیئے، رات گئی بات گئی
اب اس کا لطف اٹھایئے کہ سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل عدالتی کمشن کے قیام کا راستہ کھل گیا ہے۔ اس سے کس کے ہاتھ کیا لگے گا اور کون ہاتھ ملتا رہ جائے گا،یہ بعد کی باتیں ہیں، انہیں آنے والے وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ ویسے بھی، میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا،قاضی... فریقین اپنی اپنی پسند کے نکتے نکال نکال کر اپنے اپنے حامیوں کی تسکین کا سامان کر سکتے ہیں، عام آدمی تو ان کے اتفاق ہی سے تسکین حاصل کرلے گا۔ عمران خان بار بار سڑکوں پر آنے کی دھمکیاں دے رہے تھے، اب وہ (اور ہم سب) اس آزمائش سے محفوظ رہیں گے۔ خان صاحب ''حجلہء عروسی‘‘ میں طویل قیام فرما سکیں گے یا پھر قومی اسمبلی سے دل بہلائیں گے کہ کمشن کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی تحریک انصاف اسمبلیوں میں رونق افروز ہو جائے گی۔یہ کہنا تو مشکل ہے کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا،کہ خمیر اٹھنے کے مقامات تو اور بھی ہیں۔ لیکن اگر کوئی چاہے تو اس پنجابی محاورے سے استفادہ کر سکتا ہے کہ ''بھوں چوں کھوتی بوڑھ تھلے‘‘... یعنی گدھے صاحب کی اہلیہ محترمہ زمانے بھر کی سیر (یعنی آوارہ گردی) کے بعد واپس وہیں قدم رنجہ فرما چکی ہیں جہاں سے روانہ ہوئی تھیں۔
اس اچھی خبر سے پہلے ایک اچھی (یا بُری) خبر یہ آئی تھی کہ ایم کیو ایم کے جبری ریٹائرڈ کارکن صولت مرزا کی پھانسی موخر ہو گئی اور اسے اس دنیائے فانی میں مزید نوے دن گزارنے کا موقع مل گیا۔ ان حضرت کو مچھ جیل میں پھانسی دی جانی تھی، لیکن چند گھنٹے پیشتر ان کے ''نزعی بیان‘‘ کی ایک ویڈیو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آ گئی۔ اس میں اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے، جناب الطاف حسین اور ان کے رفقاء پر براہ راست قتل و غارت کے الزامات لگائے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ ان کی نگرانی اور اشارے پر ہوتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایم کیو ایم میں جو سر اٹھاتا ہے،مقبول ہونے لگتا ہے، اس کاسر کچل دیا جاتا ہے۔موصوف اس نتیجے پر بھی پہنچ چکے تھے کہ ان کی جماعت میں کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا جاتا ہے۔ اس اعترافی بیان نے تہلکہ مچا دیا، ایم کیو ایم کے رہنما بھی سناٹے میں آئے، لیکن پھر انہوں نے اس سوال کی آڑ میں طلاقتِ لسانی کا مظاہرہ شروع کر دیا کہ قتل کے ایک مجرم کی وڈیو کس نے اور کہاں بنوائی؟ اسے ایم کیو ایم کے امیج کو نقصان پہنچانے کی سازش قرار دے ڈالا ۔ الطاف بھائی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایسے الفاظ استعمال کر گزرے جن کا مطلب رینجرز کے ایک افسر نے ''قتل کی دھمکی‘‘ کی صورت میں نکالا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا۔
صولت مرزا کے بیان میں جو تفصیلات دی گئی ہیں، ان کی باقاعدہ تحقیقات کے لئے، ان کا زندہ رہنا ضروری سمجھا گیا۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صولت کو کسی جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرکے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 164کے تحت بیان دینے کا موقع فراہم کیا جائے، تاکہ اسے قانونی دستاویز کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ ایم کیو ایم کی قانونی جوڑی تو یہ کوڑی (دور یا نزدیک سے) لائی کہ سزایافتہ مجرم کا 164کا بیان ریکارڈ ہی نہیں کرایا جا سکتا۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی، لیکن جب تحریک انصاف کے ایم این اے شفقت محمود نے ایک ٹی وی مباحثے میں یہ نکتہ اٹھایا کہ قتل کی سزا پانے والے صولت مرزا کو پیرول پر کیسے رہا کیا گیا تھا ،کیا دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال ڈھونڈی جا سکتی ہے؟تو ایم کیو ایم کے موقع پر موجود رہنما اس کا جواب نہ دے سکے۔
صولت مرزا کو کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد کوقتل کرنے کے الزام میں 1999ء میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ قاتل کے بقول ان کا جرم یہ تھا کہ وہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض دلانے کے لئے کوشاں تھے، ایسا ہو جاتا تو پاکستانی معیشت کو سہارا مل جاتا۔ یہ (قاتل کے) رہنمائوں کو قبول نہیں تھا، اس لئے ان کو مار ڈالنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ 2004ء تک یہ مقدمہ اپیل کے مراحل سے گزرنے کے بعد حتمی طور پر طے ہو گیا، لیکن صولت مرزا کو نہ صرف یہ کہ پھانسی نہیں دی جا سکی، بلکہ اسے پیرول پر رہا بھی کرا لیا گیا۔ اس رہائی کی تفصیل بھی بہت سے رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہوگی۔
اس رائے کو پذیرائی نہیں مل رہی کہ کراچی میں جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ کسی ایک جماعت کے خلاف سازش ہے یا اسے دیوار سے لگانا مقصود ہے۔ رینجرز کا اصرار ہے کہ وہ مجرموں کا پیچھا کر رہے ہیں، جہاں ان کا سراغ ملے گا، وہاں کارروائی ہوگی۔ کسی خوف یا دبائو کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ کسی مجرم(یا ملزم) کو پناہ دے یا اس کی ڈھال بنے۔ جرم کو سیاست کے لئے اور سیاست کو جرم کے لئے استعمال کرنے کا زمانہ گزر گیا۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے رہنما بیک آواز کہہ رہے ہیں کہ کراچی آپریشن تمام سیاسی جماعتوں کے مشورے سے شروع کیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم نہ صرف برابر کی شریک تھی، بلکہ شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہی تھی۔یہ اور بات کہ اس کی نظر طالبان اور لیاری گینگ پر ہو۔ اندازہ یہ لگایا گیا ہو کہ ان سے نبٹتے نبٹتے سانس پھول جائے گی، آپریشن کو آرام کی ضرورت محسوس ہوگی اور گلیوں میں مرزا یار پھریں گے ؎
مَیں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
یہ راز کی بات بھی آپ تک پہنچ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ عدالتی کمشن اور کراچی آپریشن کو ایک ہی صفحے پر رکھ کر دیکھا جانا چاہیے۔ کمشن کے قیام نے اسلام آبادکا محاذ ٹھنڈا کر دیا ہے یا یہ کہیے کہ اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے کمشن بنوا دیا گیا ہے۔ یہاں ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نیام میں ڈالنے والے اب کراچی پر ساری توجہ صرف کر سکیں گے... آپریشن کے اہداف حاصل کرنے تک اسے جاری رکھنا لازم ہے ۔کراچی کی جو اہمیت صولت مرزا جیسا ''ٹارگٹ کلر‘‘ جانتا ہے اور اپنی ویڈیو میں بخوبی بیان کرسکتا ہے کہ معاشی دارالحکومت کو تہہ و بالا کئے بغیر پاکستانی معیشت کو تہہ و بالا نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہمارے بالغ(نظر) رہنمائوں سے کیسے اوجھل رہ سکتی ہے؟؟
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)