جناب الطاف حسین اگر سمجھ سکتے ہیں تو کوئی انہیں سمجھائے کہ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی۔ آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کے انکشاف نے سکتہ طاری کر دیا۔ 12 مئی 2007ء کے فوراً بعد امریکی سفیر کے ساتھ فاروق ستار نے اٹھارہ منٹ تک بات کی تھی۔ پشتون لیڈر کا کہنا ہے کہ اگر یہ گفتگو منظرِ عام پر آ گئی تو متحدہ کو پچھتانا پڑے گا۔ پسپائی ہی میں اس کے تحفظ کا امکان پوشیدہ ہے۔
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
ایک صاحبِ نظر سے پوچھا، اچکزئی کو کس چیز نے انکشاف سے روک دیا۔ اس کا جواب یہ تھا: اکثر سیاستدانوں کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں۔ ایسے کسی گروہ کی دشمنی وہ مول نہیں لے سکتے، جو ان کا کچّا چٹھہ بیان کر دے۔ اچکزئی صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن اور گرد و نواح کے بعض علاقوں پر غلبہ برقرار رکھنے کے وہ آرزومند ہیں۔ کئی طرح کے جائز ناجائز کاروبار جہاں پھل پھول رہے ہیں۔ آنجناب کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریوں کی حیثیت سے رجسٹر کرا لیا جائے۔ اقتدار کے کاروبار میں حصہ بقدرِ جثہ ہوا کرتا ہے۔
ان علاقوں میں نادرا کا عملہ پرلے درجے کی بدعنوانیوں کا مرتکب ہے۔ دو سے بیس ہزار روپے میں کسی بھی غیر ملکی کو پاکستانی شہری بنا دیتا ہے۔ ایک افغان مہاجر کو کسی پاکستانی خاندان کے سربراہ کا بھائی بتایا جائے گا۔ پھر اس کے سب لواحقین اس family tree کا حصہ ہو جائیں گے۔
کوئی نہ کوئی اخبار نویس کہانی بیان کر دے گا؛ اگرچہ الزام ثابت ہو جانے پر بھی فاروق ستار غلطی کا اعتراف نہ کریں گے۔ دن دیہاڑے سفاک قاتلوں کی گرفتاری کے باوجود اگر تاویل پر تلے ہیں تو آئندہ کیوں مان کر دیں گے؟ کہتے وہ یہ ہیں کہ بدنامِ زمانہ قاتل نائن زیرو نہیں، اس کے نواح سے گرفتار ہوئے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے گرد ایک چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔
تجزیہ نگاروں کے اعتراضات قابلِ غور ہیں۔ اولاً کراچی سے دہشت گردی کے سدّباب میں کسی ایک گروہ کو ہدف نہ ہونا چاہیے۔ ثانیاً ایم کیو ایم کے لیے سیاسی عمل میں شرکت کی گنجائش باقی رہنی چاہیے۔ بالکل بجا لیکن پھر ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے۔ کیا پیپلز پارٹی کی امن کمیٹی کے ساتھ نرمی برتی گئی؛ حتیٰ کہ سندھ حکومت کے ساتھ بھی؟
اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں چیف آف آرمی سٹاف نے صاف صاف کہہ دیا کہ صوبائی حکومت نا اہل، کرپٹ اور ناکردہ کار (Impotent)ہے۔ لیاری کے ان گروپوں پر پہلے ہاتھ ڈالا گیا، جن میں سے بعض زرداری صاحب اور ان کے ساتھیوں کی سرپرستی میں بروئے کار تھے۔ کم از کم ایک ارب روپے ماہوار کا بھتہ وہ وصول کیا کرتے۔ مسلسل مہمات کا نتیجہ یہ ہے کہ گینگ وار کا خاتمہ ہو گیا۔ درجنوں مارے گئے۔ درجنوں گرفتار ہوئے اور سینکڑوں ملک سے فرار ہو گئے یا بلوچستان اور سندھ کے دور دراز علاقوں میں پنا ہ لی۔ عزیر بلوچ کا قصہ سامنے ہے، پیپلز پارٹی کی قیادت جسے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جہاں تک اے این پی
اور سنی تحریک کا تعلق ہے، جن میں سے موخرالذکر ایک زمانے میں بھتہ وصول کرنے والی سب سے بڑی پارٹی بن گئی تھی، ان کی عافیت کے دو اسباب ہیں۔ اوّلاً انہوں نے سرگرمیاں محدود کر دیں۔ ثانیاً کوئی فوج ایک وقت میں بہت سے محاذ نہیں کھولا کرتی۔ پھر یہ کہ کراچی سے قومی و صوبائی اسمبلی کی 80 فیصد نمائندگی رکھنے والی ایم کیو ایم شہر پر قبضے کی جنگ میں سب سے بڑی فریق تھی۔ میرا تاثر یہ ہے کہ اخبار نویسوں کا اندیشہ بیجا ہے، جن کے اذہان میں ترازو گڑے رہتے ہیں۔ جن کے اندازِ فکر کا تقاضا ہے کہ اندیشہ پالتے اور اس کا اظہار کرتے رہے ع
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو جائے
بے شک صحافت کا وظیفہ یہی ہے۔ اعتراض اسے کرنا چاہیے۔ سوال اسے اٹھانا چاہیے مگر اس انداز میں ہرگز نہیں کہ معاشرے میں مایوسی پھیل جائے اور معرکہ برپا کرنے والوں کی دل شکنی ہو۔ وزیرِ اعظم نواز شریف کے بارے میں، جنہوں نے اب ڈٹ کر آپریشن کی حمایت کر دی ہے، کوئی بدگمانی سے کام لے سکتا ہے۔ اس سے مگر یہ پوچھا جائے گا کہ ایم کیو ایم کے خلاف انہیں فریق کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کب انہوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈے کی مہم چلائی۔ کب اس کے کسی لیڈر کے خلاف ذاتی عناد کا مظاہرہ کیا۔ رہے سندھ رینجرز، آئی ایس آئی کے سربراہ یا برّی فوج کے سپہ سالار تو کیا، ان میں سے کوئی ایک ذمہ دار شخص بھی ایسا ہے، جو کسی بھی مرحلے میں دھڑے بازی کا مرتکب ہوا ہو۔ نواز شریف کے لیے ایک سنہری موقعہ تھا۔ پیپلز پارٹی سے مفاہمت ختم کر کے ایم کیو ایم کو وہ اپنا لیتے۔ پیپلز پارٹی کی صفوں میں ایسا خوفناک انتشار ہے کہ دو درجن سے زیادہ لیڈر اور ارکانِ اسمبلی آسانی سے دستیاب ہوتے۔ سندھ حکومت کے معتوب پیر پگاڑا ان کے سوا ہیں، جن کے کئی کارکن شہید کیے جا چکے۔ ستّر سے زیادہ کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنائے گئے۔ سینکڑوں کی زندگیاں اجیرن کر دی گئیں۔ نواز شریف کے لیے ہیرو بننے کا یہ سنہری موقعہ تھا مگر کیا انہوں نے ایسا کیا؟
متحدہ کے لیے سیاسی گنجائش کا انحصار خود اس کی قیادت پر ہے، جو کسی حکمتِ عملی سے محروم نظر آتی ہے۔ کبھی وہ رینجرز کو دھمکیاں دیتی ہے اور کبھی عسکری قیادت کی حمایت کا اعلان۔ کبھی میڈیا کی تائید حاصل کرنے کی سعی اور کبھی اسے جتلانے کی کوشش کہ وقت آنے پر اس سے نمٹ لیا جائے گا ''اگر وہ میرے سامنے آئے تو میں اس پر چڑھ دوڑوں گا‘‘ الطاف حسین نے ایک ٹی وی اینکر کے بارے میں ارشاد کیا۔ اس کے ''چارہ گر‘‘ شہر سے فرار ہو چکے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ سکھر، میرپور خاص، صادق آباد، رحیم یار خان، خانیوال، ملتان، لاہور اور بعض دوسرے شہروں میں پوشیدہ ہیں۔ دبئی میں روپوش ہیں یا جنوبی افریقہ اور ملائشیا میں۔ آپریشن اگر جاری رہا تو ان میں سے بعض اب کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ایم کیو ایم کے بعض لیڈروں نے امریکی اور برطانوی سفارت کاروں سے رابطے کیے ہیں۔ اب تک کا ریکارڈ یہی ہے کہ جب بھی مشکل آن پڑتی ہے، یہی حکمتِ عملی وہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ سفارت کار ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ انہی کی نہیں، این جی اوز چلانے والے بھک منگوں اور علاقائی پارٹیوں کی بھی۔ امریکہ اور یورپ میں کچھ ادارے ہیں، جن کے عقب میں اسرائیل کارفرما ہے۔ مثلاً حصص مارکیٹوں کا جادوگر جارج سورس۔ اسرائیل کا ہدف کیا ہے اور بھارت سے اس کا رشتہ و تعلق کیسا ہے؟ یورپی یونین اور امریکہ پاکستان کو ایک محتاج ملک دیکھنے کے آرزومند ہیں۔ وہ ملک جو اللہ کے نام پر بنایا گیا، جو ایٹمی طاقت بن چکا اور جسے وہ اقتصادی آزادی حاصل کرتے دیکھ نہیں سکتے۔ پاکستان میں وہ کنفیوژن پھیلانے والے گروہوں کو پالتے ہیں۔ بھکاری‘ خود فریب ہوتا ہے۔ اپنے ارغوانی پیالے میں وہ ناموجود جنتوں کے عکس دیکھتا ہے۔
افراد یا گروہ، انسان اپنی افتادِ طبع کے اسیر ہوتے ہیں۔ کم ہی خوش نصیب ہوتے ہیں، جو خود تنقیدی پر قادر ہوں۔ اپنے تعصبات اور ماضی سے چھٹکارا پا سکیں۔ ایم کیو ایم کے اندر بحث یہ ہے کہ اگر اپنے ''جانبازوں‘‘ سے وہ دستبردار ہو گئے تو ان کی بقا کا امکان کم ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں، معاملہ برعکس ہے۔ اب ان کے ساتھ وہ تیر نہیں سکتے، ڈوب جائیں گے ع
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
جناب الطاف حسین اگر سمجھ سکتے ہیں تو کوئی انہیں سمجھائے کہ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کیا کرتی۔ آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔