تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-03-2015

مور کا جنگل میں تنہا رقص

میاں نواز شریف کے بقول لوگ کہتے ہیں کہ ''سیاستدانوں نے کچھ نہیں کیا ۔ سیاسی دور میں کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بتائیں ڈکٹیٹرز نے اس ملک کو کیا دیا؟‘‘ اگر ڈکٹیٹر نہ آتے تو شاید وہ آج بھی وہی اتفاق فونڈری چلا رہے ہوتے جو جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگا کر انہیں واپس کر دی تھی۔ ڈکٹیٹر نہ ہوتے تونواز شریف کہاں سے وہ قابل وزیر لاتے جو کبھی جنرل مشرف کے قریبی ساتھی تھے۔
حکمرانوں کی اپنی یادداشت کمزور ہے یا پھر شاید وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ اس ملک کے لوگوں کو بیوقوف بنانا آسان کام ہے‘ لہٰذا بنائے جائو۔ ڈکٹیٹروں نے بہت غلط کام کیے ہیں۔ جنرل مشرف خود کہتے ہیں کہ طالبان انہوں نے پیدا کیے جو اس ملک کو تباہ کررہے ہیں۔ کراچی کا سارا مسئلہ جنرل مشرف نے پیدا کیا۔ اس کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں ۔ سپریم کورٹ میں وہ سب تفصیلات دی گئی ہیں کہ کیسے جیلوں میں قتل، بھتہ، ٹارگٹ کلنک اور دیگر سنگین جرائم میں سزا یافتہ مجرموں کو جنرل مشرف دور میں پیرول پر رہا کیا گیا اور آج تک ان کا پتہ نہیں چلا‘ زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ شرجیل میمن کو ایک دن سندھ اسمبلی میں غصہ آیا تو وہ بھی ایم کیو ایم پر پل پڑے کہ جناب آپ نے کیسے وہ پینتیس مجرم جنرل مشرف کی سفارش پر رہا کرائے تھے اور آج کل وہ کہاں ہیں۔ آج جب انہی پینتیس مجرموں کو ڈھونڈنے کے لیے رینجرز چھاپے مارتی ہے تو آصف زرداری افسوس کرتے ہیں۔
میاں نواز شریف نے کبھی سوچا ہے کہ لوگ سیاستدانوں پر اعتماد کیوں نہیں کرتے۔ وہ کیوں سمجھتے ہیں کہ سیاستدانوں نے کچھ نہیں کیا ۔ پاکستانی تاریخ میں اگر کسی وزیراعظم نے مختصر وقت میں اس ملک کے لوگوں اور ریاست کے لیے کچھ کیا تو وہ بھٹو تھے۔ اگرچہ ان کی بعض غلطیاں ان کے کارناموں کو دھندلا کر دیتی ہیں‘ لیکن ان کے بعد کوئی وزیراعظم نہیں آیا جو اس ملک میں عام آدمی کی زندگی بدلنے پر نہ صرف یقین رکھتا ہو بلکہ اس نے دل و جان سے کوشش بھی کی ہو۔ بھٹو کے بعد جو بھی وزیراعظم آیا‘ اسے اپنے بینک اکائونٹ کی فکر زیادہ رہی‘ نہ ملک کی‘ نہ عوام کی۔
جو کچھ بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری نے کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ کوئی آج تک پوچھ سکا ہے کہ زرداری صاحب کے پاس ساٹھ ملین ڈالرز کہاں سے آئے تھے۔ انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا کہ ان کے پاس ساٹھ ملین ڈالرز نہیں تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ان سے وہ پیسے واپس نہیں لیے جا سکتے۔ یہ تو برسوں قبل کی بات ہے‘ اب یہ دولت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔
کیا سیاستدانوںنے کبھی سوچا کہ لوگ ان سے کیا توقعات رکھتے تھے یا انہیں یہ اندھی امیدیں کس نے دلوائی تھیں ۔ جو صحافی لندن میں میاں نواز شریف سے ان کی جلاوطنی کے دنوں میں ملتے تھے‘ غور کریں تو شاید حیرانی سے مر جائیں کہ اس نواز شریف کی باتوں، دعووں اور آج کے نواز شریف کی کمپرومائزنگ سپرٹ میں کتنا فرق ہے۔ تب وہ بات بات پر کہتے تھے کہ کارگل پر وہ انکوائری کمشن بنائیں گے مگر آج اس کمشن کا نام تک نہیں لیتے کیونکہ جانتے ہیں کہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
میاں نواز شریف کو علم ہے کہ سیاستدانوں نے ملک کے مفادات پر ذاتی کاروبار کو ترجیح دی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر این ایچ اے چیئرمین قطر میں جا کر سیف الرحمن کے ساتھ موٹر وے بنانے کی دستاویزات پر دستخط کبھی نہ کرتا ۔ ابھی بھی بہت ساری کہانیاں ہیں جو اندر کھاتے چل رہی ہیں ۔ جب ہر منصوبہ صرف اس لیے شروع کیا جاتا ہے کہ اس میں سے کوئی بڑی رقم بیرون ملک بینک میں جائے گی تو پھر سیاستدان کیوں گلہ کرتے ہیں کہ لوگ عزت نہیں کرتے۔ کراچی کو ہی دیکھ لیں۔ 2012ء میں ہی موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان جو اس وقت رینجرز کے ڈی جی تھے‘ نے باقاعدہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا تھا کہ کیسے کراچی میں ہر سیاسی پارٹی نے دہشت گرد پال لیے تھے جو ان کے کہنے پر قتل و غارت‘ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ سب کچھ کر رہے تھے۔ اس اجلاس میں رضا ربانی، مشاہد حسین، فرحت اللہ بابر اور افراسیاب خٹک سے لے کر فروغ نسیم تک سب موجود تھے۔ اس سنگین معاملے کو کیوں پارلیمنٹ میں نہیں اٹھایا گیا؟ کیونکہ سیاسی جماعتوں کو خبردار نہیں کیا گیا کہ وہ یہ خوفناک کھیل بند کریں؟ آج تین برس بعد سب چیخ رہے ہیں کہ رینجرز کراچی میں کیوں آپریشن کر رہی ہے اور کیوں کسی کی نہیں سن رہی۔
کراچی کی بعض جماعتوں نے ایک نیا کھیل شروع کیا۔ ایک سیاسی ونگ، ایک میڈیا ونگ اور ایک دہشت گرد ونگ۔ کسی ایک جماعت نے یہ کام شروع کیا تو سب نے اس ماڈل کو اپنا لیا اور کہا جاتا ہے کہ آج ہر پارٹی کے اپنے اپنے بدمعاش اور کلرز ہیں اور سب اس کو تحفظ دیتے ہیں۔
جو انکشافات صولت مرزا نے کیے ہیں‘ ہوسکتا ہے‘ وہ نئے نہ ہوں؛ تاہم ایک خبر اور ٹارگٹ کلر کے ٹی وی پر اعترافات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایک خبر ہوتی ہے اور ایک خبر کی تصدیق۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر صولت مرزا جھوٹا تھا تو پھر کیوں اسے ایم کیو ایم سترہ برس تحفظ دیتی رہی اور سزائے موت نہیں ہونے دی۔ پچھلے ماہ تک تو صولت مرزا کی پھانسی رکوانے کے لیے ہر جتن کیا گیا۔ آج وہی ایم کیو ایم پوچھتی ہے کہ صولت مرزا کو کیوں ویڈیو پیغام دینے کی اجازت ملی۔ اگر جیل میں صولت مرزا کو بقول اس کے گورنر سندھ کے حکم پر سب سہولتیں مل سکتی ہیں تو پھر وہ کسی دوسری جیل سے بیان کیوں نہیں ریکارڈ کراسکتا؟
ایم کیو ایم کبھی بھی یونیورسٹی اور کالج دور کی سیاست سے باہر نہ نکل سکی۔ یہ جماعت دہشت پھیلانے اور دیگر الزامات سے جان نہ چھڑا سکی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بارہ مئی 2007ء سے قبل ایم کیو ایم نے کوشش کی کہ وہ اپنا امیج بہتر کرے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں پہنچی۔ اس نے مشکل وقت میں آزادکشمیر اور دیگر شمالی علاقوں میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کیا اور لوگوں نے اس جماعت کو قبول کرنا شروع کر دیا تھا۔ تاہم بارہ مئی کو جنرل مشرف کو خوش کرنے کے چکر میں ایم کیو ایم پھر سیاسی تنہائی اور چند گروپس کے ہاتھوں یرغمال بن گئی۔
ایم کیو ایم کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ اس طرح کے امیج کے ساتھ اس کے لیے سیاست کرنا مشکل ہوگا۔ باقی چھوڑیں خود ایم کیو ایم کے سیاسی ونگ کے لیے اپنے پارٹی کے بہت سارے کاموں کا دفاع کرنا مشکل ہوگا اور اس کا مظاہرہ آج کل ہم ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں کہ ان سے دفاع نہیں کیاجارہا۔ ایم کیو ایم کو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ وہ وقت کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل نہیں کر سکی۔ اس کا خیال تھا کہ پاکستان میں سیاست کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے طاقت۔ ایک حد تک تو طاقت کام آتی رہی مگر آج وہی طاقت ایم کیو ایم کی اپنی دشمن بن گئی ہے۔ ایم کیو ایم کو سوچنا ہوگا کہ کیا سب غلط ہیں اور وہ اکیلے درست ہیں؟ اب ایم کیو ایم کو ایک نئی پارٹی کے طور پر سامنے آنا ہوگا جس میں تشدد، دھمکیاں، عسکری ونگز کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ ایم کیو ایم کا وجود کراچی کی سیاست کے لیے بہت ضروری ہے لیکن ایم کیو ایم کو یہ بھی احساس کرنا ہوگا کہ کراچی میں امن لائے بغیر اب وہ بھی سیاست نہیں کر سکیں گے۔ اب یہ ایم کیو ایم پر ہے کہ وہ دوبارہ 1992ء کی طرف لوٹنا چاہتی ہے‘ جب پہلی دفعہ فوجی آپریشن کیا گیا یا آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اسے چاہیے کہ آپریشن سے فائدہ اٹھا کر ان عناصر سے جان چھڑائے جنہوں نے ایم کیو ایم جیسی لبرل جماعت کو برسوں سے یرغمال بنا رکھا ہے ۔ایم کیو ایم کی اپنی بقا بھی اسی میں ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر کراچی کے لوگوں کو لیڈ کرے۔ بندوق اور دہشت کے نام پر اب شاید وہ سیاست نہیں کر سکے گی کیونکہ اب ریاست کے لیے جنرل مشرف اور جنرل کیانی کی پالیسیوں کو جاری رکھنا محال ہوگا‘ وہ طالبان کو پالنے کے حوالے سے ہوں یا ایم کیو ایم کے پینتیس مجرموں کو سزائیں ہونے کے باوجود جیل سے پیرول پر رہا کرنے سے متعلق!
پس تحریر: پچھلے ماہ میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کی اسلام آباد میں وزیراعظم ہائوس میں ہونے والی ملاقات گیلانی صاحب نے اپنے برخوردار کی رہائی کے لیے نہیں کی تھی ۔ گیلانی صاحب نے نواز شریف سے مدد مانگی لیکن کسی اور کام کے لیے ۔ ملاقات کے بعد وزیراعظم ہائوس کے ایک طاقت ور بیوروکریٹ نے ایف آئی اے کو جو فون کیا اورسابق وزیراعظم کے خلاف سات ارب روپے کے نئے سکینڈل میں ہونے والی انکوائری رپورٹ کو ضائع کرنے پر زور دیا ، وہ اپنی جگہ ایک نیا سکینڈل ہے ؟ اس سکینڈل کی رپورٹ وزیراعظم ہائوس کے اس اعلیٰ افسر نے اپنے دفتر میں تالا لگا کر رکھی ہوئی ہے اور اپنے تئیں مطمئن بیٹھے ہیں کہ جنگل میں مور ناچ رہا ہے اور کوئی نہیں دیکھ رہا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved