تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     22-03-2015

کرکٹ تھراپی

غالب نے ورلڈ کپ کا کوارٹر فائنل نہیں دیکھا تھامگر میرزا نے کہاتھاکہ ؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
میں پاکستانی ٹیم کے میگا ایونٹ سے باہر ہونے پر یہ شعر کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان مسلسل چار بار ورلڈ کپ سے ایسے ہی نکلا ہے ۔اس دوران قومی ٹیم کا ہر کپتان بھی بے آبرو ہو کر ہی نکلا ہے ۔96ء کے ورلڈ کپ کو میں اس لئے اس صف میں شامل نہیں کر رہا کہ بھلے ہی اس کوارٹر فائنل کے بارے میں بہت سے ابہام پیدا ہوئے ہوں ،لیکن وہ میچ پاکستان نے پنجہ آزمائی کے بعد ہارا تھا ۔کرکٹ شائقین میچ ہارنے کے بعد کپتان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں ۔مصباح الحق اس معاملے میں کافی ' ان لکی‘ ثابت ہوئے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان ہونے کے باوجود ہمیشہ تنقید کی زد میں رہے۔ میں کوئی ریٹائرڈ کرکٹر یا کرکٹ کا ماہر تونہیں البتہ مجھے یہ اندازہ تھا کہ قومی ٹیم کا ردھم معرکہ آرائی والا نہیں ہے ۔میں یہاں سینئر کالم نگار اوراپنے نہایت قابل ِ احترام حسن نثار صاحب کی ایک ضرب المثل مستعار لینا چاہوں گا کہ فٹنس مسائل سے دوچار نئے اور ناتجربہ کار کھلاڑیوں سے ورلڈ کپ کی تو قع رکھنا ، الماس بوبی سے اولاد کی توقع رکھنے کے مترادف ہے۔
ہماری پوری قوم ڈینگی کی نسبت کرکٹ بخار کی زد میں جلد ی آجا تی ہے ۔ہر ورلڈ کپ میں رسوائی کے بعد شائقین ِ کرکٹ یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتے تھے کہ اگلا ورلڈ کپ ہمارا ہوگا لیکن نجم سیٹھی صاحب نے یہ آپشن بھی ختم کردیا ہے ۔سیٹھی صاحب نے ایک تقریب میں شرکت کے بعد میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے بیان دیا کہ نئی ٹیم تیار کرنے کے لئے آٹھ سال درکار ہیں ،اگلے دو ورلڈ کپ اسی طرح گزریں گے۔اب پتا نہیں انہوں نے ٹیم تیار کرنے کا کیمیائی فارمولہ بتایا تھا یا اگلے آٹھ سال تک پی سی بی سے وابستہ رہنے کی بشارت سنائی تھی ۔دل بڑا کر کے سوچا جائے تو نجم سیٹھی صاحب کی بات میں وزن ہے کیونکہ نئی ٹیم کو تیار کرنے کے لئے بہت سے کٹھن مراحل سے گزارناپڑے گا ۔ورلڈ کپ میں بھارت کے ہاتھوں شکست کا کلنک دھونے کے لئے ضروری ہے کہ قومی ٹیم کو فوجی ٹریننگ دی جائے۔ جیسے برطانوی شہزادوں کو پرم پرا کا پالن کرتے ہوئے فوج میں شمولیت اختیار کر کے کسی مہم میں حصہ لینا پڑتا ہے۔ اسی طرح قومی ٹیم کے کیڈٹس کو بھی ملک میں جاری آپریشنز میں شامل کیا جائے تا کہ ان کے اعصاب مضبوط ہوں اور ان کے ذہن سے خوف کا مادہ نکل سکے ۔
قومی کرکٹ ٹیم میں ایک بڑی یونیک بات یہ ہے کہ ان کی طاقت باؤلنگ ہے ،ان کی کمزوری بیٹنگ ہے اور یہ ہارتے اپنی بری فیلڈنگ کی وجہ سے ہیں ۔قومی ٹیم میں اچھی فیلڈنگ کا فقدان ، بجلی کے بحران جتنا سنگین اور پیچیدہ مسئلہ ہے ۔قومی ٹیم کا یہ مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ دنیائے فیلڈنگ کے دیوتا ''جونٹی روہڈز‘‘ بھی اس گتھی سلجھانے میں ناکام رہے اور ہاتھ جوڑ کر چلتے بنے ۔بری فیلڈنگ قومی ٹیم کا جسمانی نہیں نفسیاتی مسئلہ ہے ۔اصل میں ہمارے کھلاڑی بڑے نفیس ہیں، انہیں یہ بات گوارانہیں کہ ان کی وردی میں کوئی سلوٹ پڑے یا کوئی دھبہ لگے‘ اس لئے وہ دوٹکے کی گیند کے پیچھے اپنی وردی داغدار نہیں کرتے۔ قارئین! یہ ہے وردی کی عزت کی معراج۔ نئی ٹیم کی تیاری کا اہم ترین مرحلہ، کھلاڑیوں کو فیلڈنگ کے آداب سکھانا ہے۔ جم میں ہارڈ ایکسرسائزز کر کر کے کھلاڑیوں کے جسم سخت ہو چکے ہوتے ہیں جس سے لچک ختم ہو جاتی ہوتی ہے لہٰذا کھلاڑیوں کے بدن کو سڈول اور لچکیلا بنانے کے لئے خواجہ سراؤں کے کسی گرو کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔گرو ان کھلاڑیوں کو نرت بھی کرائے گا اور ادب بھی سکھائے گا ۔گرو کی تربیت کا سب سے بڑا اخلاقی فائدہ یہ ہوگا ، کہ کھلاڑی الائچی پھیرنے (ہیجڑہ برادری کاایک رواج جس میں الائچی بھجوانے کا مطلب دعوت نامہ دینا ہے ) سے گریز کریں گے اور مستقبل میں میچ اور سپاٹ فکسنگ جیسے سکینڈلز سامنے نہیں آئیں گے ۔گرو عاشی بٹ اور الماس بوبی ، یہ دونوں گرو اس عہدے کے لئے کوالیفائی کرتے ہیں ۔ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر دونوں بیک وقت بھی خدمات انجام دیں ،تو ان میں نجم سیٹھی اور ذکاء اشرف جیسا تنازع نہیں کھڑا ہوگا ۔
ٹیم کے میگا ایونٹ سے باہر ہونے سے قبل ،قوم کو یہ خوش فہمی تھی کہ 92ء میں بھی وزیر ِ اعظم میاں نوازشریف تھے اور 2015ء میں بھی لہٰذا ورلڈ کپ ہم جیتیں گے ۔92ء میں ہم اس لئے جیتے تھے کہ میاں نوازشریف وزیر ِ اعظم بھی تھے اور کرکٹ بھی کھیلتے تھے لیکن جب سے عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ میاں صاحب امپائرز کو ساتھ ملا کر کھیلتے ہیں ، تب سے شاید میاں صاحب نے کرکٹ سے کنارا کرلیا ہے جو ورلڈ کپ میں ہماری شکست کا باعث بنا ۔کرکٹ کے عظیم ترین کھلاڑی عمران خان بھی کرکٹ کی بہتری کیلئے وقت نہیں نکالتے حالانکہ سبھی کاکہنا ہے کہ کپتان قومی کرکٹ کی ہر بیماری کا علاج ہیں۔عمران خان اب صرف کرکٹ کو ٹھیک نہیںکرنا چاہتے‘ وہ ہول سیل کے اصولوں کے مطابق نیا پاکستان بناناچاہتے ہیںجس میں کرکٹ بھی شامل ہوگی۔ آسٹریلیا سے کوارٹر فائنل کے اس میچ کے ساتھ کپتان مصباح الحق اور شاہدآفریدی کے ون ڈے کیریئر کا اختتام بھی ہوگیا۔ مصباح ٹیسٹ جبکہ آل رائونڈر بوم بوم ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلتے رہیں گے۔
پاکستانی ٹیم اگرچہ ہار گئی ہے لیکن وہاب ریاض کا کھیل کرکٹ آرکائیو کے ساتھ ساتھ کرکٹ لورز کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔آسٹریلین ٹیم کے کپتان مائیکل کلارک نے کہاکہ وہاب ریاض نے جو سپیل کیامیں نے کسی فاسٹ بائولر کی جانب سے طویل عرصہ بعد اس قسم کا فاسٹ بائولنگ سپیل دیکھا ہے۔ ہریانہ سے تعلق رکھنے والے بھارت کے عظیم فاسٹ بائولر کپیل دیو جو راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر کے ساتھ میچ کی کمنٹری کر رہے تھے‘ نے وہاب ریاض کی بائولنگ اور سپرٹ دیکھتے ہوئے پوچھا کہ اس کا تعلق کس شہر سے ہے؟
شعیب نے بتایاکہ یہ آپ کا ہمسایہ ہے اور پاکستان میں رہتا ہے۔وہاب ریاض پکے لاہوری ہیں۔ ان کے چچا اور والد لاہور میںہونے والے سماجی اورموسمی تہواروں کو بھرپور انداز میں مناتے رہے ہیں۔وہاب ریاض کا گھر لاہور نیوکیمپس کی نہر پر واقع ہے جہاں ہر سال بسنت میلہ سجایاجاتارہاہے۔ ماضی میں یوں تو پورے لاہور میں بسنت منائی جاتی تھی لیکن دومقامات اس کے لئے مشہور تھے ۔ان میں میاں یوسف صلاح الدین کے ہاں ایگزیکٹو بسنت جبکہ وہاب ریاض کے ہاں عوامی بسنت میلہ ہوا کرتاتھا۔اگرچہ ہم کرکٹ ورلڈ سے باہر ہوگئے ہیں لیکن وہاب ریاض نے کرکٹ کامیلہ بھی لوٹ لیاہے۔
نذیر ناجی صاحب نے قوم کی کرکٹ تھراپی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''اس کیچ کو بھول جائیے جو راحت علی نے چھوڑا ۔وہ 8اوورز یاد کیجئے جو وہاب ریاض نے کرائے‘‘۔عمران خان اور سرفراز نواز قومی کرکٹ کا اثاثہ ہیں دونوں نے پاکستانی کرکٹ کے انتظامی ڈھانچے پر تنقید کی ہے۔سرفراز نواز نے تو ''دنیانیوز‘‘ کے کرکٹ سپیشل پروگرام ''یہ ہے کرکٹ دیوانگی ‘‘میں کئی روز تک پھٹے چکے رکھے۔ سرفراز نواز قومی کرکٹ کواس حال تک پہنچانے میں نجم سیٹھی صاحب کی ''کنٹری بیوشن‘‘ کا تذکرہ روزانہ کرتے رہے۔ انہیں اعتراض ہے کہ سیٹھی صاحب کا کرکٹ سے کیاتعلق ہے؟ سرفراز نواز صاحب کو بتایاجاناچاہیے نجم سیٹھی صاحب کا کرکٹ سے وہی تعلق ہے جو کشمیر کمیٹی کا مولانا فضل الرحمان سے رہا ہے اور گلگت بلتستان کا برجیس طاہر سے پید ا کردیاگیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved