جب ایسی خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ صدر پاکستان نے فلاں آرڈیننس جاری کر دیا ہے‘ یا اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کر لیے ہیں‘ یا پھر بڑے عہدوں پر تعیناتیوں کی منظوری دیدی ہے تو اکثر خیال آتا ہے کہ آخر صدر مملکت خود بھی ایسی خبریں پڑھتے ہوں گے اورجب وہ پڑھتے ہوں گے تو وہ کیا محسوس کرتے ہوں گے۔ ان سے زیادہ کون اس حقیقت سے واقف ہو گا کہ جتنے احکامات ان کے دستخطوں سے جاری ہوتے ہیں وہ سارے کے سارے دراصل حکومت وقت کے احکامات ہوتے ہیں۔ ان کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں یہ ایک ایسی بات ہے جس کو بظاہر ہر کوئی ہضم کر کے بیٹھا ہوا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ صدر علامتی سربراہ مملکت ہوتا ہے۔ بندہ پوچھے کس لیے۔ اس کی آخر کیا ضرورت ہے؟
برطانیہ میں جہاں سے پارلیمانی جمہوری نظام پوری دنیا میں پھیلا ہے وہاں تو اس کی ضرورت یوں سمجھ میں آتی ہے کہ انہوں نے روایتی بادشاہت کو اس طریقے سے سنبھالا ہوا ہے۔ ہمارے پاس تو ایسی کوئی روایت نہیں جس کی ہمیں حفاظت کرنا ہے ۔ پھر یہ کہا جاتا ہے کہ جب ایک حکومت جاتی ہے اور دوسری اس کی جگہ لیتی ہے تو پارلیمانی نظام میں سربراہ مملکت کی ضرورت ہے جو اقتدار ایک حکومت سے لے کر دوسری کے حوالے کرتا ہے‘ یعنی حلف وغیرہ لینا ہوتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہروقت حلف برداری کے لیے موجود ہوتے ہیں لہٰذا صدر مملکت کی اس حوالے سے بھی کوئی اشد ضرورت ثابت نہیں ہوتی۔ ایک زمانہ تھاکہ جب صدر پاکستان کے پاس آئین کی شق58-2/Bکے تحت حکومت کو برطرف کرنے کے اختیارات ہوتے تھے۔ وہ شق بھی اب آئین کا حصہ نہیں رہی‘ لہٰذا اس حوالے سے بھی اب صدر بس حکومت کی کارکردگی کا تماشہ ہی دیکھ سکتا ہے۔ بھارت کی مثال دی جاتی ہے کہ وہاں بھی تو صدر کا عہدہ بس نمائشی سا ہی ہے تو اگر ہم نے سیاسی نظام کے ضمن میں بھارت ہی کے پیچھے چلنا ہے تو پھر ہم زیادہ سے زیادہ بھارت جیسی جمہوریت ہی بنیں گے جو کہ کوئی مثالی جمہوریت نہیں ہے ۔ جس طرح ہمارے ہاں سب چلتا ہے‘ ان کے ہاں بھی سب چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ غریب لوگ کسی ایک ملک میں رہتے ہیں تو وہ بھارت ہی ہے۔
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد سے مغربی دنیا نے اپنے خاص مقاصد کے تحت بھارت پر توجہ مرکوز رکھی ہے اور دنیا کو اب بھارت کی ایک چمک دکھائی دیتی ہے مگر حقیقت حال سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ یہ چمک جعلی ہے۔
اگر ہم پاکستان میں ماضی کی حکومتوں اور جن نظاموں کے تحت وہ چلتی رہیں ان کا جائزہ لیں تو جس دور میں بھی مضبوط مرکزی حکومت رہی ہے اس دور میں ہی پاکستانی عوام نسبتاً خوشحال رہے ہیں ۔ ایوب خان کے دور کو ہم آج تک یاد کرتے ہیں۔ پاکستان میں بے مثال اقتصادی ترقی ہوئی۔ اسی طرح ضیاء الحق کے دور میں بھی اقتصادی لحاظ سے ہم لوگ کافی بہتر تھے۔ پھر جنرل مشرف کے دور میں بھی حالات اقتصادی طور پر برے نہیں تھے۔
ان فوجی حکمرانوں کے ادوار میں جو مسائل پیدا ہوئے وہ تمام ہماری خارجہ حکمت عملی کے حوالے سے تھے۔ گویا اگر خارجہ حکمت عملی والے پہلو کے حوالے سے کوئی موثر انتظام کر لیا جائے تو اس کے ساتھ سخت قسم کی مرکزی حکومت‘ ہمارے ملک کو آج جو مسائل درپیش ہیں‘ ان کا حل کر سکتی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ فوجی حکومتیں ہمارے ہاں جب جب آئیں وہ خارجہ حکمت عملی کے ضمن میں مسائل کا سبب تو بنیں مگر ان کی اقتصادی کارکردگی نسبتاً کافی بہتر رہیں۔
اب ہم فوجی حکومت کے طالب تو ہو نہیں سکتے‘ تو پھر جو آپشن رہ جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں ایسا صدارتی نظام لایا جائے‘ جس میں صدر پاکستان کے نام سے جو حکم جاری ہو و ہ دراصل صدر ہی کا حکم ہو ۔
صدر کا عہدہ نمائشی نہ ہو بلکہ صدر پاکستان براہ راست انتخاب جیت کر آئے اور اپنی ٹیم کے ہمراہ حکمرانی کرے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی ارکان براہ راست انتخاب جیت کر آئیں۔ قانون
سازی کریں اور صدر کی پالیسیوں کا احتساب بھی کریں۔ ہمارے ہاں جو قومی اسمبلی کے ارکان اور سینئر وزیر بنتے ہیں تو اس کی وجہ سے ہم کو ایسے ایسے نااہل وزیر دیکھنا پڑتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ پارلیمانی جمہوری نظام کے ان تحفوں پر ہمارے ملک کے مایہ ناز ڈرامہ نگار خواجہ معین الدین مرحوم نے اپنے ایک سٹیج ڈرامے ''تعلیم بالغاں‘‘ کے ایک مکالمے میں بھر پور طنز کیا تھا وہ مکالمہ تھا: زیرتعلیم سے پہلے اگر ووٹ کا ''و‘‘ لگا دیا جائے تو وزیر تعلیم بن جاتا ہے۔ اسی طرح ماضی کے ایک معروف کالم نگار مجید لاہوری نے جو کہ مزاحیہ اشعار بھی کہتے تھے 'نمکدان‘ کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں یہ اشعار تحریر کئے تھے ؎
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سندھ میں سب پناہ گیر ہوئے
ہم نے بی اے کیا کلرک رہے
جو مڈل فیل تھے وزیر ہوئے
تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ پارلیمانی جمہوری نظام کے ذریعے ہم اپنی قوم کے ساتھ جو مذاق کر رہے ہیں‘ وہ بند کردیا جائے۔ امریکہ میں صدر منتخب ہو کر آتا ہے تووہ ماہرین کی ایک ٹیم اپنے ہمراہ لاتا ہے۔ ٹیم کی تعیناتی کے اختیارات صدر کے پاس نہیں ہوتے۔ ٹیم کے ناموں کی منظوری وہاں کانگریس کے دونوں ایوان دیتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے ہاں اگر صدارتی نظام میں قومی اسمبلی اور سینیٹ موجود ہوں گے تو وہ صدر کی ٹیم کے ارکان کا جائزہ لے کر ہی ان کی منظوری دیں گے اور یہ جو صوبائی خود مختاری کے نام پر ہم نے پورے ملک میں اقتدار کو بکھیر دیا ہے‘ یہ ہمارے جیسا ملک‘ جہاں سسٹم انتہائی کمزور ہے‘ ابھی affordنہیں کر سکتا۔ یہ عیاشیاں ترقی یافتہ ملک ہی کر سکتے ہیں۔ ہمارے لیے اشد ضروری ہے کہ ہم بلدیاتی نظام کو مضبوط کر کے عام لوگوں کے مسائل حل کریں اورمرکز کی سطح پر مضبوط صدارتی نظام لا کر پاکستان کو بیرون ملک اور اندرون ملک جو چیلنجز درپیش ہیں ان سے موثر طورپر نبرد آزما ہوں۔
اس وقت ہمارے پارلیمانی جمہوری نظام میں حکمرانی کی حد تک صوبائی حکومتوں کی طرح ایک ڈکٹیٹر شپ قائم ہو چکی ہے۔ یہ حکومتیں مرکز سے اختیارات تو کافی حد تک لے چکی ہیں لیکن ان کو نیچے منتقل کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں حقیقت یہ ہے کہ کبھی بھی ایسا نہیں کریں گی۔
اس مسئلے کا حل اسی طرح ہی نکلے گا کہ آئین میں مناسب تبدیلیاں کر کے ایسے صدارتی نظام کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں صدر براہ راست منتخب ہو۔ اسمبلیاں اور سینیٹ کے ارکان بھی براہ راست منتخب ہوں۔ یہ ارکان خود حکمرانی کرنے کے بجائے حکمرانی پر نظر رکھیں اور ساتھ ہی قانون سازی کا کام کریں جو کہ ان کا بنیادی کام ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ انگریزی میں ان تمام منتخب افراد کو Law Makersہی کہا جاتا ہے۔