تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     23-03-2015

کینیڈا کی یادیں

1978ء میں وزارت خارجہ نے مجھے دمشق سے اوٹاوہ پوسٹ کیا۔ میرے لئے ہر لحاظ سے یہ بہت بڑی تبدیلی تھی۔ مشرق سے مغرب کا سفر صرف جغرافیائی ہی نہیں دونوںکا سوچنے کا انداز اور اقدار بھی خاص مختلف ہیں۔ مغرب نے تعلیم‘ سائنس‘ ایجادات اور صنعتی انقلاب سے بے حد ترقی کی اور پھر ایشیا اور افریقہ کے بہت سے حصوں پر حکومت کرنے لگے۔ دمشق‘ جہاں میں نے تین سال گزارے‘ سوویت بلاک میں تھا۔ مسئلہ فلسطین کی وجہ سے وہاں مغرب مخالف جذبات اپنی اوج پر تھے لیکن شامی اور لبنانی محنتی اور ذہین لوگ ہیں۔ شمالی اور لاطینی امریکہ کی طرف یہاں سے ہجرت کافی عرصہ پہلے شروع ہوئی تھی۔ کینیڈا پوسٹنگ کی ایک خوشی یہ بھی تھی کہ وہاں چند پاکستانی دوست پہلے سے موجود تھے اور یہ معلوم تھا کہ کینیڈا میں رہ کر بھی عربی بولی جا سکتی ہے۔
کینیڈا کو ممتاز کرنے والی کئی صفات ہیں۔ رقبہ میں یہ ملک امریکہ سے بھی بڑا ہے‘ لیکن آبادی خاصی کم ہے‘ اس لئے کہ شمالی علاقے سال کا بیشتر حصہ برف اوڑھے رکھتے ہیں۔ سیاست اور معیشت دونوں پر امریکہ کے گہرے سائے ہیں۔ امریکہ نے اٹھارویں صدی میں برطانیہ سے بغاوت کرکے آزادی لے لی جبکہ کینیڈا آج بھی ملکہ برطانیہ کی سربراہی قبول کرتا ہے۔ وسیع و عریض زمین اور تھوڑے سے لوگ۔ صاف ستھرے شہر قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسبانی کی وجہ سے کینیڈا بجا طور پر ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں خاصا اونچا ہے۔ گندم برآمد کرنے والے ممالک میں اہم ہے اور تیل کے ذخائر بھی تھے‘ جو اب قدرے کم ہوگئے ہیں۔
دمشق سے براستہ لندن کینیڈا کا سفر کیا۔ اگست کا مہینہ تھا۔ اوٹاوہ میں ہر طرف ہریاول ہی ہریاول تھی۔ پورے ملک میں پانی وافر ہے۔ دریائے اوٹاوہ دارالحکومت اور صوبہ کیوبک کے درمیان حدفاصل ہے۔ شہر کی ریڈوکینال کی لاہور والی نہر کی حیثیت ہے۔ اس کے دونوں اطراف بے شمار درخت اور بیٹھنے کی جگہ ہے جبکہ لاہور والی نہر کے گرد اب ٹریفک کی وجہ سے بیٹھنا یا پکنک منانا خاصا مشکل ہوگیا ہے۔ دریائے اوٹاوہ کا پل کراس کرتے ہی ہل (Hull) کا شہر ہے۔ یہاں فرانسیسی نژاد لوگ زیادہ ہیں۔ یہاں کا وسیع و عریض نیشنل پارک میلوں تک پھیلا ہوا۔ موسم خزاں میں پتے سرخ اور سنہری رنگ پہن لیتے تھے اور سارا پارک اللہ کی شان کا مظہر بن جاتا تھا۔
کھلی کھلی سڑکیں اور لمبی لمبی کاریں‘ یہ اس زمانے کے کینیڈا کی خاصیت تھی۔ ابھی وہاں جاپانی گاڑیاں نہیں آئی تھیں۔ ہر جگہ قطار بندی اور ڈسپلن۔ یہ وہ خصائل تھے جو مجھے متاثر کیے بغیر نہ رہ سکے۔ پہلا مرحلہ کارخریدنے کا تھا‘ اس کے بغیر انسان واقعی بے کار ہوتا ہے۔ پٹرول پمپ کے مالک ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں آپ کو اچھی نئی کار مناسب قیمت پر لے دوںگا۔ بینک سے قرضہ لیا اور بہت سے شو روم گھومے۔ ان دنوں ہمارے ہائی کمشن کے ایک ڈرائیور رحمن مرزا تھے۔ جہلم کے رہنے والے‘ بہت ہی اچھے انسان تھے۔ مجھے کہنے لگے: آپ نئے ہیںیہاں نہ ہی بارگینگ ہوتی ہے اور نہ کوئی خاص رعایت‘ بس جو کار آپ کو اچھی لگے وہ آپ کہیں سے بھی خرید لیں۔ چنانچہ میں نے شیورلیٹ Malibu خریدلی جو میری دمشق والی Fiatکے مقابلے میں بہت بڑی تھی۔ اس زمانے میں ٹروڈو کینیڈا کے وزیراعظم تھے۔ موصوف نے بڑی شہرت پائی اور گیارہ سال تک وزیراعظم رہے۔ لیکن 1978ء میں ان کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ اگلے ہی سال ان کی لبرل پارٹی کو انتخابات میں شکست ہوئی اور جوزف کلارک حکومت کے سربراہ بنے۔ ٹروڈو کی اپنی بیوی مارگریٹ سے علیحدگی ہو چکی تھی‘ لیکن مغربی معاشرے میں طلاق کوئی عیب نہیں۔ بچے ٹروڈو کے پاس تھے۔ میڈیا ان کی اس بات کی بہت تعریف کرتا تھا کہ سیاست اور حکومت بھی کرتے ہیں اور بچوں کا بے حد خیال بھی رکھتے ہیں۔
ٹورنٹو اور مانٹریال دونوں اوٹاوہ سے بہت بڑے ہیں۔ مانٹریال نزدیک ترین انٹرنیشنل ایئرپورٹ تھا۔ ٹورنٹو میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد تھی اور ابھی وہاں قونصلیٹ نہیں کھلا تھا‘ لہٰذا میں ہر ماہ ٹورنٹو پاسپورٹ ایشو کرنے اور ویزہ دینے جاتا تھا۔ اوٹاوہ سے ٹورنٹو ہائی وے 401 جاتی ہے۔ راستہ بہت ہی خوبصورت ہے۔
مغربی معاشرے میں فرد کو بہت زیادہ آزادی ہے۔ کوئی دوسرے کے کاموں میں دخل اندازی نہیںکرتا اور نہ ہی مفت مشورے دیتا ہے۔ بچے تقریباً اٹھارہ سال کی عمر میں والدین سے علیحدہ ہو کراپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ شادی کے بغیر گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنا کوئی معیوب نہیں۔ اسی طرح کوئی بھی کام کرنا برا نہیںسمجھا جاتا۔ اوٹاوہ میں ہمارے ہائی کمشنر کے گھر کے اردگرد کافی جگہ تھی۔ وہاں باقاعدہ مالی رکھنا بہت مہنگا تھا۔ گھاس کاٹنے کا کام نوجوان لڑکے لڑکیاں کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک لڑکی نے گارڈن میں کام کیا پھر ہائی کمشن اپنی اجرت لینے آئی۔ وہ لڑکی جرنیل کی بیٹی تھی اور یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔ کہنے لگی کہ میں گرمیوں میںکام کرکے اپنی پاکٹ منی میں اضافہ کرلیتی ہوں۔
برف کا ذکر نہ ہو تو کینیڈا کی تصویر نامکمل رہتی ہے۔ اوٹاوہ اور مانٹریال میں بہت برفباری ہوتی ہے۔ پورا شہر سفید چادر اوڑھ لیتا ہے۔ البتہ سڑکوں کی صفائی تیزی سے ہوتی ہے اور ٹریفک رواں دواں رہتی ہے۔ شروع میں موسم سرما اور برف کے ڈھیر بہت بھلے لگتے ہیں‘ لیکن آہستہ آہستہ طبیعت سیر ہونے لگتی ہے؛ البتہ کینیڈا کے لوگ برف سے بھی خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ریڈوکینال جم جاتی ہے اور لوگ اس پر خوب سکیٹنگ کرتے ہیں۔ کینیڈا میں میرا قیام دو سال سے زیادہ رہا‘ یہ سارا عرصہ ہائی کمشنر کی پوسٹ خالی رہی ۔ رفعت مہدی قائم مقام ہائی کمشنر تھے۔ سید انور محمود پریس اتاشی تھے اور میں سیکنڈ سیکرٹری۔ ہم تینوں میں دوستی اور باہمی احترام تھا۔ سفارت خانہ کے پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ تعلقات مثالی تھے۔ رفعت صاحب کی فیملی 1947ء میں لکھنؤ سے لاہور آئی۔ ان میں لکھنؤ کی خوش اخلاقی اور لاہور والوں کا بڑا دل تھا۔ پاکستانیوں میں بے حد پاپولر تھے۔ کینیڈین حکومت کے لوگوں سے بھی قریبی رابطہ رکھتے تھے۔
مجھے گوتھک طرز تعمیر کی اوٹاوہ کی پارلیمنٹ بلڈنگ کو دیکھ کر اکثر اپنا گورنمنٹ کالج لاہور یاد آتا تھا اور نیاگرا فالز(Niagra Falls) کی شاندار اور مسحورکن سیر کا ذکر تو میں بھول ہی گیا۔ لہٰذا ٹورنٹو کے بارے ایک اور کالم پھر کبھی سہی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved