تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     23-03-2015

ناسور کی جراہی؟

اس نظام اور ریاست کی زوال پذیری جوں جوں بڑھ رہی ہے، حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے تصادم بھی شدت اختیار کررہے ہیں۔ معاشرے کی کوکھ میں، سماج کی گہرائی میں سلگتی ہوئی خاموشی روح اور احساس کو تڑپا رہی ہے۔ نیچے جتنا سناٹا ہے اتنا خلفشار بڑھ رہا ہے۔ میڈیا کے دیوتا یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کے باہمی تضادات میں محنت کش عوام کو ذہنی طور پر الجھا کر انہیں بالادست طبقے کی گروہ بندی کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ سنسنی خیز ''انکشافات‘‘ کی ایک یلغار ہے۔ الزامات اور جرائم کو بے نقاب کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ درمیانے طبقے کے ناظرین تو شاید متاثر ہوتے ہوں گے لیکن عوام شعور ی یا لاشعوری طور پر پہلے ہی بہت کچھ جانتے ہیں۔ اس خونی ناٹک کی سنسنی سے انہوں نے مسحور ہونا چھوڑ دیا ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ سیاسی انتشار کے شکار 33ممالک میں سے پاکستان ایسا ملک ہے جس کی سیاست میں عوام کی دلچسپی سب سے کم (صرف 12فیصد)ہے۔ عوام پیسے کی اس بدعنوان اور ضمیر فروش سیاست کی اصلیت جانتے ہیں، اپنے دشمنوں کو پہچانتے ہیں۔ میڈیا کی ''بریکنگ نیوز‘‘ ان کے لئے پہلے سے معلوم خبروں کا درجہ رکھتی ہیں۔ ظلم اور دہشت گردی جب معاشرے کا معمول ہو تو ''بریکنگ نیوز‘‘ بے معنی ہوجاتی ہیں۔
حکمران طبقے کی معاشی دہشت گردی نے سماج کو اتنا مجروح کر دیا ہے کہ چھوٹے موٹے ''المناک‘‘ واقعات سے کوئی صدمہ نہیں ہوتا۔ لوٹ مار کے ٹکرائو میں جنم لینے والی حکمرانوں کی آپسی لڑائیوں کو عوام کو نفسیاتی طور پر منتشر اور کنفیوز رکھنے کے لئے خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ جس ملک کی دو تہائی معیشت جرائم اور بدعنوانی کے کالے دھن پر مبنی ہو‘ وہاں سیاست بھی سیاہ ہوجاتی ہے۔کالے دھن سے فنانس ہونے والی سیاست میں کون سے اصول اور کیسا ضمیر؟ سچ کیا اور جھوٹ کیا؟ نظریات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ان حالات میں ریاست کا کردار بھی اس سیاست سے مختلف نہیں ہوسکتا۔سیاست ہو یا صحافت، ہر شعبے میں دخل اندازی کرنے پر ریاست مجبور ہے۔ روایتی ریاستی ادارے مفلوج ہو چکے ہیں اور مرتے ہوئے نظام زر کو چلانے کے لئے فیصلہ کن اداروں کو ہر معاملے میں ملوث ہونا پڑ رہا ہے۔ یہ حکومت کتنی ''جمہوری‘‘ اور ''سویلین‘‘ ہے، سب جانتے ہیں۔ 
جہاں سیاسی وفاداریاں بدلتی ہیں وہاں ریاست کے تخلیق کردہ گروہ بھی ہمیشہ قابل اعتبار نہیں رہتے۔ یہ وہ کٹھ پتلیاں ہیں جو بعض اوقات اپنی ڈوریاں ہلانے والے ہاتھوں پر بھی وار کر دیتی ہیں‘ جہاں سیاست میں مخلوط حکومتوں اور ''جمہوریت‘‘ کے لئے ''مصالحت‘‘ کے ذریعے لوٹ مار کی انارکی کو منظم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں ریاست بھی اپنے سیاسی اوزار تبدیل کرتی رہتی ہے۔ 
آج کراچی میں آپریشن کا دائرہ ذرا وسیع کیا جارہا ہے لیکن اس سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔جزوی طور پر خود مختار ہو کر حکم عدولی پر اتر آنے والے ایک گروہ کی سرکوبی سے مافیا سیاست کے دوسرے دھڑے کے لئے جگہ خالی ہوگی۔ تاریخی طور پر متروک یہ سرمایہ دارانہ نظام پاکستان میں جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں کرپشن، جرائم، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتا۔ بھتہ خوری، کرائے کے قتل، اغوا برائے تاوان، بلیک میلنگ اور دھونس، ڈاکہ زنی، منشیات اور دوسرے جرائم یہاں کی معیشت کے بنیادی جزو بن چکے ہیں جن کے بغیر مطلوبہ شرح منافع ہی حاصل نہیں ہوسکتی۔ جائز اور ناجائز کی لکیرمٹ چکی ہے۔یہاں کے عالم اور مبلغ 'صبر‘، نیکی اور 'اچھا‘ بننے کا سبق دیتے نہیں تھکتے۔ اس نظام کے دانشوروں کے نزدیک بھی سارا مسئلہ انفرادی اخلاقیات کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون کا فعال ہونا، ریاست کا شفاف ہونا اور انسان کا دیانتدار ہونا تبھی ممکن ہے جب بھوک اور محرومی کا ننگا ناچ نہ جاری ہو۔
ساری سیاست، ریاست، صحافت، ثقافت، مذہب اور نظریات سرمائے کی جکڑ میں ہیں۔سرمایہ داری سے آگے یہ مفکر اور دانش ورکچھ دیکھ سکتے ہیں نہ سوچ سکتے ہیں۔ اندھی دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں وفاداریوں کے ساتھ غداریاں بھی بکتی ہیں۔ منڈی کی اس سکڑتی ہوئی معیشت میں اتنی مندی ہے کہ بڑے بڑے باضمیر بھی کوڑیوں کے بھائو نیلام ہوجاتے ہیں۔ سیاست اس منڈی کا کاروبار ہے اور سیاسی حکمران اس بدعنوانی کا تحفظ کرنے کے نام پر خود اس میں غرق ہو گئے ہیں۔ 
کراچی میں پہلے کتنے آپریشن ہوئے ہیں؟ مسئلہ کیا حل ہونے کی بجائے اور گمبھیر نہیں ہوا؟ یہ نظام زر جتنا زوال پذیر ہوتا ہے، زر کی ہوس اتنی ہی بڑھتی ہے۔ غربت کے اس بحر میں امارت کے پرتعیش جزیرے ہیں جہاں بسنے والوں کی تجوریاں بیس کروڑ انسانوں کو گِدھوں کی طرح نوچ کر ہی بھری جاسکتی ہیں۔ یہ گدھ کہیں مذہب تو کہیں لبرل ازم اور سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ معیشت میں دم نہیں رہا، صنعت بند ہورہی ہے، بیروزگاری اور ناخواندگی بڑھ رہی ہے، ہزاروں لوگ ہر روز خط غربت سے نیچے گررہے ہیں اور عوام کی اکثریت موت کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہی ہے۔ ایسے میں ''جمہوریت‘‘ اور ''آئین‘‘ کے مباحثوں کے ساتھ ایک کے بعد دوسرے فوجی آپریشن سے دہشت گردی اور جرائم کے خاتمے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ 
جب تک بیماری ختم نہیں ہوتی درد نہیں جا سکتا اور علامات کا علاج کرنے سے بیماری ختم نہیں ہوسکتی۔ لیکن آج جو آپریشن یہ حکمران کر رہے ہیں‘ سوچ سمجھ کر کریں‘ کہیں اپنے پائوں پر کلہاڑی نہ چلا بیٹھیں۔ اپنے ہی اوزار اور آلات تباہ نہ کریں۔ اگر آپریشن کر رہے ہیں تو اس کا متبادل کیا اس قابل ہو گا کہ اس ملک کے محنت کش طبقے کے گڑھ کراچی پھر وحشت اور بربریت نہ پھیلے۔ حکمرانوں کے لئے صورتحال خاصی سنگین ہے۔ دانشمندی سے کام نہ لیا تو یہ آپریشن انہیں مہنگا پڑ سکتا ہے۔ مذہب، قوم، فرقے اور لسانیت کے زہر سے منتشر کیا گیا یہ محنت کش طبقہ اگر دھماکہ خیز واقعات کی گرج سے جاگ گیا، عوام کی سلگتی خاموشی کا سناٹا ٹوٹ گیا تو مزدور تحریک ایک بلند معیار پر ابھرے گی اور محنت اور سرمائے کی اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائے گی، جو ناانصافی پر مبنی حاکمیت کے لئے موت کا پیغام ہوگی۔ یہ نظام نہ خود مرتا ہے نہ نسل انسانی کو جینے دیتا ہے۔ محنت کش عوام کی تحریک ہی وہ انقلابی جراحی کر سکتی ہے جو اس ناسور کو کاٹ پھینکنے کے لئے درکار ہے جو اس سماج کو اندر ہی اندر چاٹ کر کھوکھلا کر رہا ہے اور گھائل کر کے چیرتا چلا جارہا ہے ۔ انسان اسی صورت میں سکھ کا سانس لے سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved