ہم نے (بعض ہم خیال قسم کے یعنی خاصے دِل جلے ٹائپ کے!) بزرگوں سے سنا ہے کہ شادی کے بعد مرد کی عقل کام کرنے سے انکار کردیتی ہے‘ اور پھر باقی زندگی اِسی ذہنی حالت کے ساتھ گزرتی ہے۔ بعض تو یہ بھی کہتے ہیں کہ فی زمانہ جب عقل کام کرنے سے انکار کربیٹھتی ہے یعنی اسٹرائیک پر یا گھاس چرنے چلی جاتی ہے تب اِنسان شادی کرنے کے بارے میں سوچتا ہے!
مگر بھارتی ریاست اُتر پردیش میں کچھ عجیب ہوا ہے۔ اب تک تو ہم یہ سوچتے آئے تھے کہ جب عقل کام کرنے سے انکار کرے تب اِنسان شادی کرکے اپنی بچی کھچی زندگی پر ''خود خوش‘‘ حملہ کرتا ہے مگر یہ تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ عقل سے کام لینا بھی شادی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ خاص طور پر اُس وقت جب دلہن ذہن استعمال کرنے پر تُل جائے۔
اسکول کے زمانے میں ہمیں سب سے زیادہ چِڑ ریاضی یعنی حساب کتاب سے تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ ریاضی اور انگریزی دو ایسے مضامین ہیں جو مسلم طلباء کو آزمائش سے دوچار کرنے کے لیے تیار کئے گئے ہیں! مگر اب پتا چلا کہ ریاضی کی مار محض مسلمانوں تک محدود نہیں۔ ہندو بھی اِس کے نشانے پر ہیں۔ یقیناً دیگر مذاہب کے لوگ بھی ریاضی اور انگریزی کے ہاتھوں ''مفت ہوئے بدنام‘‘ والی کیفیت سے دوچار ہوتے ہوں گے! اِس کا مطلب یہ ہوا کہ انگریزی اور ریاضی کا سلوک سب کے ساتھ یکساں ہے۔ گویا ؎
ناوک نے تیرے صَید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مُرغِ قبلہ نُما آشیانے میں
ہوا یہ کہ شادی کا منڈپ سجا تھا۔ ایسے میں (دولہا رام سرن کی بدقسمتی سے) دلہن لَولی کی عقل activate ہوگئی! شیطان نے دِل میں ایسا وسولہ ڈالا کہ اُسے مقدس اگنی کے گرد سات پھیرے لینے سے قبل اچانک حساب کتاب کی سُوجھی۔ لَولی نے سرن سے پوچھ لیا کہ 15 اور 6 کتنے ہوتے ہیں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ایسے نازک مرحلے پر بے چارے لڑکوں کی عقل خدا جانے کہاں گھاس چرنے چلی جاتی ہے اور حواس تو پہلے ہی رخصت ہوچکے ہوتے ہیں۔ رام سرن کو گمان بھی نہ تھا کہ پھیروں سے ذرا پہلے حساب کتاب کے پھیر میں پڑنا ہوگا۔ وہ بے چارا گڑبڑا گیا اور گھبراہٹ میں 15 اور 6 کا حاصل جمع 17 بتا گیا۔ بس، یہ 17 ہی رام سرن کے لیے خطرہ بن گیا! لَولی بِِدک گئی اور اُس نے یہ کہتے ہوئے شادی سے انکار کردیا کہ رام سرن اَن پڑھ ہے!
ہمیں تو لَولی کے دماغ میں کوئی خلل معلوم ہوتا ہے۔ ارے بھائی، کسی لڑکی کے لیے اِس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ اُس کے جیون ساتھی کو حساب کتاب نہ آتا ہو؟ شادی کے بعد لَولی جس طور چاہتی زندگی بسر کرتی، رام سرن کو کیا پتا چلنا تھا کہ اُس کی کمائی کہاں ٹِھکانے لگائی جارہی ہے۔ اور ویسے بھی شادی کے بعد بے چارے مردوں کو جوڑنا آتا کہاں ہے؟ ہر چیز اُن کی زندگی سے مِنہا ہوتی چلی جاتی ہے۔ آمدنی کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوتا ہے۔ پیسہ اِدھر سے آتا ہے اور اُدھر سے چلا جاتا ہے۔
لَولی شاید بھول گئی تھی کہ ؎
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا
آج کے دور میں ایک تو رشتہ ملتا بہت مشکل سے ہے‘ اور پھر رشتہ ملنے پر حساب کتاب کی فکر؟ یہ تو سراسر ناشکرا پن ہوا! لَولی کو اگر حساب کی ایسی ہی فکر تھی تو میتھمیٹکس کے کسی ٹیچر پر ڈورے ڈال لیے ہوتے۔ بھگوان کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا کہ ایسا بھولا بھولا بندہ ہاتھ آرہا ہے جو شادی کے بعد حساب کتاب میں کیڑے نہیں نکالے گا۔ لَولی نے اِس بات پر بھی ہنگامہ کھڑا کردیا کہ لڑکے کے ان پڑھ ہونے کی بات چھپائی گئی۔ معاملہ ایسا بگڑا کہ پولیس کو بلانا پڑگیا۔ پولیس افسران نے فریقین کو بٹھاکر مصالحت کی بہت کوشش کی مگر وہ بھی حساب کتاب جمانے میں ناکام رہی۔ لڑکی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ لڑکے کو بارات سمیت خالی ہاتھ لَوٹنا پڑا۔
لَولی کہتی ہے کہ اُس نے حساب کا سوال اِس لیے پوچھا کہ یہ اُس کی زندگی کا سوال تھا‘ یعنی وہ کسی ان پڑھ سے شادی نہیں کرسکتی تھی۔ زندگی کے سوال پر ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ عین شادی کے وقت کیوں یاد آیا؟ تب تک کیا یادداشت کہیں گئی ہوئی تھی؟
ہم بچپن ہی سے فلموں کے شوقین رہے ہیں۔ بزرگ سمجھاتے تھے کہ زیادہ فلمیں نہ دیکھا کرو ورنہ پوری زندگی ڈراما بن جائے گی۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ ٹھیک ہی کہا کرتے تھے۔ ہم تو خیر ''کماحقہ‘‘ نہ بگڑ سکے مگر بھارت میں فلمیں دیکھنے کے شوق نے عام آدمی کو کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ فلموں کی کہانی میں پائی جانے والی ڈرامائیت اب عوام کی زندگی میں در آئی ہے۔ فلمی کہانی میں طرح طرح کے ٹوئِسٹ ہوتے ہیں۔ فلموں کا واضح اثر قبول کرتے ہوئے بھارت کی جنتا نے بھی اپنی جیون کتھا میں ٹوئِسٹ متعارف کراتے رہنے کی ٹھان لی ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں اِس معاملے میں زیادہ جذباتی ہیں۔ ایسے کئی کیس ہوچکے ہیں کہ شادی کے شامیانے تلے، مہمانوں کے بیچ عین پھیرے لینے کے سَمے لڑکی کو یاد آیا کہ اُس کی ہونے والی سُسرال میں باتھ روم تو ہے ہی نہیں یعنی فطرت کی پُکار پر گھر سے باہر جانا پڑے گا! بس، اِتنا کافی تھا کہانی میں ٹوئِسٹ پیدا کرنے کے لیے۔ پھیرے لینے سے قبل دلہن نے شرط رکھ دی کہ ایک ہفتے کے اندر باتھ روم بنوانا ہوگا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ لگن منڈپ کے خوشبو دار ماحول میں ایسا بدبو دار مطالبہ چہ معنی دارد؟ یہ تو سسرالیوں کو قبل از وقت سنکٹ میں ڈالنے والی بات ہوئی! جو لڑکی پھیرے لیتے وقت سسرالیوں کو ذلیل اور پریشان کرے وہ کیا اُسے شادی کے بعد چین سے رہنے دیں گے؟
گزشتہ دنوں پونا (مہاراشٹر) سے بارات اُتر پردیش کے شہر غازی آباد پہنچی۔ شادی کی رسمیں بخوبی ادا کی جاتی رہیں۔ جب دولہے کے گلے میں ہار ڈالنے کا وقت آیا تو دولہا کے دوستوں کو مذاق سُوجھا۔ اُنہوں نے دولہا سے کہا کہ عین وقت پر پیچھے ہٹ کر سَر اُٹھالے تاکہ لڑکی ہار پہنانے میں ناکام رہے۔ یہ ناٹک تین چار مرتبہ ہوا تو لڑکی کو ذِلّت محسوس ہوئی اور اُس نے شادی سے انکار کردیا۔ پھر وہ کسی کے منائے نہ مَنی۔ معاملہ تھانے پہنچا مگر وہاں بھی بات نہ بنی۔ لڑکے والوں کو خالی ہاتھ لَوٹنا پڑا۔ ساتھ ہی اُنہیں لڑکی والوں کو شادی انتظامات کے پانچ لاکھ روپے بھی ادا کرنا پڑے۔
کانپور کے نزدیک ایک گاؤں میں لڑکی نے ور مالا پہنانے اور پھیرے لینے سے کچھ ہی دیر پہلے شادی سے انکار کردیا کیونکہ کسی نے اُسے بتایا کہ چائے پیتے وقت رکابی تھامتے ہوئے دولہا کا ہاتھ کانپ رہا تھا! یہ لڑکی بھی اپنے فیصلے پر قائم رہی اور بارات مایوس لَوٹ گئی۔
لڑکا پڑھا لکھا ہے یا نہیں اور ہونے والے سسرال میں باتھ روم ہے یا نہیں اور دولہا کے ہاتھ پیر کانپتے ہیں یا نہیں یہ ساری باتیں تو شادی سے بہت پہلے معلوم ہو جاتی ہیں یا آسانی سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔ یہ سب کچھ شادی کے وقت ہی کیوں یاد آتا ہے؟ عین شادی کے وقت ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے؟ فلمیں دیکھ دیکھ کر ہر معاملے کو ڈرائی موڑ تک پہنچانا اب بھارت میں جنتا کی سائیکی کا حصہ بنتا جارہا ہے۔
ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں لڑکیاں ابھی اِتنی ''ٹوئِسٹ پسند‘‘ نہیں ہوئیں کہ شادی کی تقریب میں کوئی فلمی ٹائپ کا ہنگامہ کھڑا کریں! اگر بھارتی دلہنوں کی بیماری ہمارے ہاں بھی در آئی تو قدم قدم پر تماشے ہوا کریں گے۔ کراچی میں لاکھوں لڑکے گٹکا کھانے کے ایسے شوقین ہیں کہ آکسیجن کے بغیر تو جی سکتے ہیں مگر گٹکے کے بغیر جینے کا تصور نہیں کرسکتے۔ اگر کہیں لڑکیوں نے شادی کے لیے گٹکا چھوڑنے پر زور دینا شروع کردیا تو؟ بہت سے نوجوان تاریک راہوں میں مارے جائیں گے!
میڈیا اور بالخصوص اخبارات سے وابستہ افراد راتیں دفتر میں کالی کرتے ہیں۔ صَد شکر کہ اب تک لڑکیوں نے اِس پہلو پر دھیان دینا شروع نہیں کیا ورنہ اخبارات میں اور بالخصوص نائٹ ڈیسک پر کام کرنے والے بے چارے کنوارے ہی رہ جائیں گے!