شاعر اختر شیرانی کے بارے میں نقاد نے کہا تھا : اس طرح وہ وصل کی آرزو کرتا ہے ، جس طرح بچّہ ٹافی مانگتاہے ۔ اسی قماش کے ہمارے لیڈر ہیں ۔ سیاست کم ، شاعری زیادہ ۔
''جب اندازہ ہوا کہ میرا واسطہ ایک مضبوط حریف سے ہے تو چیلنج سے ایک اور طرح نمٹنے کا ارادہ کیا ‘‘ چوہدری صاحب نے مجھے بتایا ، جو نون لیگ کے امیدوار تھے اور کامیاب رہے ۔ ایک ذاتی دوست سے یہ ذاتی گفتگو تھی۔ نام اور حلقہ بتایا نہیں جا سکتا۔''تحریکِ انصاف سے ٹکٹ کے ایک اور آرزومند کو میں نے تلاش کیا اور اسے بتایا کہ آسانی سے وہ مراد پا سکتا ہے ، اگر وہ پارٹی کے فلاں لیڈر سے معاملات طے کر لے ۔ وہ کامیاب رہا۔ دوسرا آزاد امیدوار ہوگیا اور پارٹی والے سے دو گنا ووٹ لیے ۔ کپتان کی تصاویر اس نے جلا دیں اور پارٹی کو خیر باد کہہ دیا‘‘چوہدری صاحب نے بتایا کہ کم از کم پندرہ سے بیس سیٹوں پر نون لیگ نے یہ حربہ استعمال کیا۔
عدالتی کمیشن اس معاملے میں کیا کرے گا ؟ ظاہر ہے کہ کچھ بھی نہیں ۔ تحریکِ انصاف نے امیدواروں کی مقبولیت جانچنے کے لیے کوئی نظام وضع ہی نہ کیا تھا۔ عجیب وغریب ساایک پارلیمانی بورڈ تھا ، جو کئی درجن افراد پر مشتمل تھا ،امیدواروں ہی پر مشتمل ۔جب کوئی ایک غلط امیدوار کی حمایت کرتا تو دوسرے آنکھیں بند کر لیتے ۔ خود انہیں بھی تو یہی کرنا تھا۔ ایک روز نا چیز وہاں جا پہنچا۔ اس نے کہا : یہ ایک ناقص طریقِ کار ہے اور تباہی لائے گا۔
کچھ اور خوفناک غلطیاں بھی ہوئیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ وہ ایک طوفان کی قیادت کر رہے ہیں ، عمران خان نے آٹھ دس ماہ کا قیمتی وقت پارٹی الیکشن میں ضائع کر دیا۔ الیکشن کا انداز احمقانہ تھا۔ کونسلر اور پھر ان کے ذریعے عہدیداروں کا انتخاب۔ دھڑے بن چکے تھے ۔ ایک دوسرے سے صف آرا اورمتوازی طور پر جوڑ توڑ بھی ۔ جیسا کہ وجیہ الدین رپورٹ میں قرار دیا گیا ہے ، بڑے پیمانے پر خریداری ہوئی ، ''ایک فراڈ الیکشن ‘‘۔ جہانگیر ترین سمیت بعض لوگ کمیشن کی رپورٹ رکوانے پر تلے رہے ۔ اسی لیے انہیں نوٹس جاری کرنے کی سفارش کی گئی ہے ،کیوں نہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل صاحب کی رکنیت ہی ختم کر دی جائے ۔ کیا عمران خان اس شخص کے خلاف اقدام کریں گے ، جس کا جہاز ہر وقت انہیں میسر رہتا ہے ۔دھرنے کے ہنگام اور اس کے بعد پارٹی پر جس نے کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں۔
کپتان کی شدید خواہش تھی کہ ہمایوں اختر اور ان کے بھائی ہارون خان اس سے آملیں ۔ دو بار وہ ان کے گھر گئے ۔ہمایوں غیر معمولی تحرّک کے آدمی ہیں ۔ وزیرِ تجارت بنے تو پانچ سال میں برآمدات 9بلین ڈالر سے 19بلین ہو گئیں ۔ ظاہرہے، دوسرے عوامل بھی تھے مگر ایک لائق وزیر کے بغیر یہ ممکن نہ ہوتا۔ انگریزی محاورے کے مطابق قومی سیاست اور معیشت کا تجزیہ کرتے ہوئے ہارون خان کی گفتگو سماعت کرنا ایک ضیافت سے کم نہیں ۔ حیران کن یادداشت ، ابہام سے پاک وسیع تناظر ، ضروری اور موزوں اعدادو شمار ۔ ہارون اختر کی خوبی یہ بھی ہے کہ زائد از ضرورت نہیں بولتے اور کم بھی نہیں ۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے ''خیر الکلام ما قلّا و دلّا‘‘ بہترین کلام وہ ہے ، جو مختصر اور مدلّل ہو ۔
پارٹی میں وہ کیوں شامل نہ ہو سکے؟ جہانگیر ترین یہ پسند نہیں کرتے ۔ وہ ان سے خوف زدہ ہیں ، جس طرح کہ ہارون خواجہ سے تھے ۔ اگر ہارون خواجہ ،ہمایوں اور ہارون اختر پارٹی کا حصہ ہوتے تو وسطی پنجاب میں نون لیگ کے لیے بلدیاتی الیکشن ڈرائونا خواب بن جاتا۔
سمندر پار پاکستانیوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ ستّر فیصد سے زیادہ وہ تحریکِ انصاف کے حامی تھے ۔ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی تھی ۔فقط عمل درآمد کرانا تھا۔ پانچ لاکھ ووٹ بھی مل جاتے تو کم از کم تیس نشستوں کے نتائج مختلف ہوتے ۔ کم از کم ڈاک سے ووٹ ڈلوانے کا مطالبہ منوا لیا جاتا۔
2012ء میں عسکری قیادت کو پیش کیے جانے والے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے تجزیے یہ تھے کہ نوّے سیٹیں کپتان جیت لے گا۔ چند ماہ بعد 200ممتاز کاروباری اداروں کا اعتماد رکھنے والے ہارون خواجہ نے بھی ایک سروے کیا ۔ حیرت انگیز طور پر اس کا نتیجہ بھی یہی تھا ۔ میری ذاتی کوشش سے وہ اور اس کے سینکڑوں اہم ساتھی تحریکِ انصاف سے وابستہ ہوئے تھے ؛چنانچہ میرے ساتھ ہمہ وقت وہ رابطے میں رہتے ۔ جوش و جذبے سے بھری آواز میں انہوں نے مجھے بتایا ''اگر عمران خان اور کچھ بھی نہ کریں تب بھی 90سیٹیں یقینی ہیں ‘‘۔ تجویز ان کی یہ تھی کہ لاہور میں پارٹی کاسیکرٹریٹ قائم کیا جائے ۔ ملک بھر سے اعداد و شمار جمع کر کے سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے تو تیس چالیس مزید سیٹیں حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ تب ان کے ساتھ سرد مہری کا مظاہرہ کیا جانے لگا ۔ رفتہ رفتہ وہ پیچھے ہٹتے گئے ۔ ہارون خواجہ کو پارٹی سے باہر دھکیلنے کا کارنامہ جہانگیر ترین اور ان کے سا تھیوں نے انجام دیا ۔ ایک انتہائی مخلص اور انتہائی لائق آدمی ، جسے 28سال کی عمر میں وزیرِ اعظم نواز شریف نے فیڈرل بیوروکریسی کی نگرانی کا فرض سونپا تھا ۔ سازشیوں نے ملحوظ رکھا کہ اپنی عزت ِ نفس کے باب میں وہ حسّاس ہے ۔ ایک کے بعد دوسری ضرب لگائی ؛حتیٰ کہ مایوس ہو کر وہ خاموش ہو گیا۔
الیکشن 2013ء میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی اور ظاہر ہے کہ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت مگر عدالت میں ثابت کرنا سہل نہ ہوگا ۔ اسی شب ٹیلی ویژن پر ناچیز نے کہا تھا : کراچی میں سرے سے الیکشن ہوا ہی نہیں ۔ فوج اور رینجرز کو دخل دینے سے روک دیا گیا تھا۔یہ کارنامہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے اتفاقِ رائے سے بننے والے الیکشن کمیشن نے انجام دیا تھا۔ ایک مشہور پولیس افسر ایم کیو ایم کی حمایت میںایسا پُرجوش تھا کہ سندھ رینجرز کے سربراہ جنرل رضوان کو اسے گرفتاری کی دھمکی دینا پڑی ۔ نبیل گبول نے خیر سے ایک لاکھ 90ہزار ووٹ حاصل کیے ۔ کراچی میں وہ قائداعظم سے زیادہ مقبول ثابت ہوئے۔ کئی پولنگ سٹیشنوں کا عملہ بارہ بجے تک پہنچ نہ سکا ۔ معروف اینکر پرسن جاسمین نے ایک پولنگ سٹیشن کے عقب میں ووٹ کی پرچیوں پر برق رفتاری سے مہریں لگانے والوں کو جا لیا او رٹی وی پر ان کی رونمائی کی ۔ انہیں قتل کی دھمکی ملی اور کئی ماہ وہ بیرونِ ملک مقیم رہیں ۔ جماعتِ اسلامی نے پولنگ کے دوران ہی بائیکاٹ کر دیا۔ اگلے ہی روز الیکشن کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد اعلان کر رہے تھے : ہم اعتراف کرتے ہیں کہ کراچی میں ہم آزادانہ انتخاب نہیں کرا سکے ۔ ڈاکٹر عارف علوی اور ان کے ساتھی ڈٹ گئے ۔ صرف 13پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ سے وہ جیت گئے ۔
دو ممتاز سیاسی لیڈروں نے فریاد کی ہے ۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ قادر مگسی نے کہا کہ کراچی کے الیکشن بندوق کی نالی سے جیتے گئے ۔ سراج الحق کا مطالبہ یہ ہے کہ دو ماہ میں نئے الیکشن ہونے چاہئیں ۔
جدوجہد کرنا پڑتی ہے ، خون پسینہ ایک کرنا ہوتاہے۔زخم کھانے والوں کو عدالتی کمیشن کے سامنے اب شواہد اور تجاویز پیش کرنی چاہئیں۔ ایک قومی تحریک برپا کرنی چاہیے ۔ جنرل پرویز مشرف نے سچ کہا کہ صرف فوج ہی منصفانہ انتخاب کی ضمانت دے سکتی ہے ۔ اگر یہ نہیں تو الیکشن کمیشن کی تشکیل کو پارلیمان کی تمام پارٹیوں کے اتفاقِ رائے سے مشروط کر دیاجائے ۔
ہمارے سیاسی لیڈرمگر باتوں کے دھنی ہیں ، عمل کے نہیں ۔ ریاضت سے انہیں کوئی رغبت نہیں ۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا ہنر البتہ خوب جانتے ہیں ۔ شاعر اختر شیرانی کے بارے میں نقاد نے کہا تھا : اس طرح وہ وصل کی آرزو کرتا ہے ، جس طرح بچّہ ٹافی مانگتاہے ۔ اسی قماش کے ہمارے لیڈر ہیں ۔ سیاست کم ، شاعری زیادہ ۔