تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     25-03-2015

کمشن کے قیام کے بعد!

کمشن بن گیا۔ اچھا ہوا لیکن کیا عمران خان کی متحرک بلکہ درست تر الفاظ میں احتجاج پسند طبیعت کو آدابِ سیاست کا پابند بنایا جا سکے گا؟انسان اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہے۔ اقبال نے کہہ رکھا ہے:
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
انہی کا فرمانا ہے کہ کچھ جنون تو حشر میں بھی چپکے بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہوتے:اپنا گریبان چاک یا دامنِ یزداں چاک۔ دھرنا شروع ہوا تو عمران خان نے استدلال پیش کیا: فارغ بیٹھا بور ہو رہا تھا ۔پھر اس بوریت کے ازالے کے لیے اس قوم کے کئی ماہ بلکہ اثرات کے اعتبار سے کئی سال برباد کر ڈالے۔ معلوم نہیں اِس کے بعد ان کی بوریت کس حد تک کم ہوئی لیکن بات وہیں پہنچی جہاں اس ہنگامہ آرائی کے بغیر بھی پہنچ سکتی تھی۔ عمران خان کے اپنے الفاظ میں: ''کچھ لو اور کچھ دو پر معاملہ طے ہو گیا‘‘۔ عامۃ الناس کے مزاج اور قوم کی نفسیات پراس کے جو مضر اثرات مرتب ہوئے، اس پر یہاں بات نہیں ہو تی کہ سماج ہماری دلچسپی کا موضوع ہے نہ تحقیق کا۔ سماج تو وہ نہیں رہا مگر سیاست کے خدو خال البتہ و ہی رہے ؎
میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو!
عمران خان کے بارے میں معروف یہ ہے کہ وہ سیاست نہیں جانتے۔ ہر بات صحت اور غلطی، دونوں احتمالات اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ اگر علمِ سیاست یا آدابِ سیاست کا معاملہ ہے تو وہ سیاست نہیں جانتے۔ اگر عصری سیاسی تقاضوں کا قصہ ہے تو اب وہ ان سے خوب واقف ہو گئے ہیں۔ آدابِ سیاست کیا ہیں؟بات ہمیشہ مذاکرات سے شروع ہوتی اور اسے یہیں تک پہنچانا ہوتا ہے۔ احتجاج آخری حربہ ہے۔ آدمی سیاست کے آداب سے واقف ہو تواحتجاج سے ممکن حد تک گریز کرتا ہے۔پھر صبر سیاست کا پہلا سبق ہے۔ لوگ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گردشِ لیل ونہار کے نتیجے میں نمودار ہوتا ہے اور آپ آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔تاریخ میںاس کی ان گنت مثالیں ہیں۔ کالم کی تنگ دامنی حائل ہے ورنہ تفصیلات عرض کرتا۔ سیاست میں صبر ایک حکمتِ عملی کا عنوان ہے۔اس مفہوم میں تو عمران خان کو سیاست نہیں آتی۔
عصری سیاست کیاہے؟ ہماری سیاست موقع پرستی اور بے اصولی سے عبارت ہے۔ اس کا ایک مظہر قول و فعل کا تضاد ہے۔ یہ تضاد اتنا کھلا اور واضح ہے کہ عام آدمی بھی اس کا شعور رکھتا ہے۔ اہلِ سیاست دوسروں کی کرپشن کو موضوع بناتے ہیں لیکن اپنی صفوں میں موجود بدعنوان عنا صر سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ یہی نہیںبلکہ کوئی ''کرپٹ‘‘ ان کی صفوں میں شامل ہو جائے تو قدیم یورپ کے اہلِ کلیسا کی طرح، ان کو پاکیزگی کا پروانہ عطا کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں میں اہلِ سرمایہ کی اہمیت مسلمہ ہے۔ صاحبانِ ثروت کو پارٹی راہنماؤں کا قرب حاصل ہوتا ہے اور وہی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جہاں تک اس سیاست کا تعلق ہے تو عمران خان اس سے ضرور واقف ہوگئے ہیں۔ یوں یہ کہنا شاید درست نہ ہو کہ وہ سیاست نہیں جانتے۔
عمران خان کا امتیاز ان کی اخلاقی برتری تھی۔ سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے یہی ان کا زادِ راہ تھا۔ انہو ں نے گزشتہ چند ماہ میں اس اثاثے کو بے دردی سے لٹایا ۔ ان کا اخلاقی وجود اس عرصے میں جس طرح تحلیل ہوا ، وہ ایک قومی المیہ ہے۔ صحافت، سیاست، مذہب، ہر شعبہ سے انہوں نے جس طرح معاونین کاانتخاب کیا ہے ،اُس کا پیمانہ، اخلاقیات نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس سیاست کے نتیجے میں دنیاوی اقتدار کے دروازے ان پر کھل جائیں، لیکن شاید سیاست میں کوئی اخلاقی بہتری نہ آ سکے۔
یہ سوال بھی اٹھنا چاہیے کہ عمران خان یا تحریکِ انصاف نے اس ہنگامہ آرائی سے کیا حاصل کیا۔ یہ تو واضح ہے کہ جو کچھ ملا ، وہ اس مہم جوئی کے بغیر بھی مل سکتا تھا بلکہ مل چکا تھا ؛ تاہم اس کے ضمن میں ان کی اخلاقی ساکھ کے باب میں جو سوالات اٹھے ہیں، یہ نہ اٹھتے اگر ہیجان برپا نہ کیا جاتا۔وہ بات اب قبولیتِ عامہ حاصل کر چکی جو سب سے پہلے جاوید ہاشمی صاحب نے کہی۔ حکومت کے رویے میں ایک واضح تبدیلی اس کا ثبوت ہے۔ نواز شریف صاحب اپنے تئیں جس جمہوری کلچر کے فروغ کے لیے بے چین تھے اور جس میں اختیار کا مرکز پارلیمان یا عوامی نمائندوں کی طرف منتقل ہونا ہے،وہ اس دھرنے میں ہوا ہو گیا ۔ اب وہ اقتدار کے اصل منبع کے ساتھ اتفاق رائے ہی کو ایک قابلِ عمل سیاسی حکمتِ عملی سمجھنے لگے ہیں۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ جنرل اسلم بیگ کی موجودگی ہی میں اس رائے تک پہنچ گئی تھیں ۔ نواز شریف صاحب کو اس نتیجہ فکر تک پہنچانے میں عمران خان نے معاونت کی۔ اگر اسے عمران خان اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے۔یہ عمران کی افتادِ طبع کا ماہرانہ استعمال تھا۔ یہ افتاد لیکن باقی ہے۔میرا احساس ہے کہ آنے والے دنوں میںبھی یہ کسی نہ کسی ہنگامہ آرائی کو جنم دے گی۔کمشن بن جانے کے باوجود، یہ مشکل ہے کہ عمران صبر کے ساتھ کمشن کے نتائج کا انتظار کریں۔ یا یہ کہ کمشن کے نتائج ان کے موقف سے متصادم ہوئے تو وہ اسے قبول کر لیں۔ یہ افتاد طبع ، جسے قرآن مجید '' شاکلہ ‘‘ (بنی اسرائیل :84)کہتا ہے، تبدیل نہیں ہوتی۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ کمشن کی تشکیل آنے والے دنوں میں کسی استحکام کا باعث بنے گی۔
مثالی صورت تو یہ ہے کہ عمران خان کی ہیجان پسندی کو ایک مثبت سمت مل جائے۔ ان کا تحرک نتیجہ خیز ہو۔ میرے خیال میں اگر ان کی حرکت کا رخ دو امور کی طرف ہو تو وہ سماج میں مثبت اضافہ کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خیبر پختون خوا کی تعمیر کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیں۔ یہ واحد صوبہ ہے جس میں صوبائی حکومت کو کسی سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔ یہاں کوئی جلوس برآمدہوتانہ کوئی احتجاج ہوتا ہے۔ بطور جماعت ،ن لیگ کی کارکردگی اتنی مایوس کن ہے کہ لوگ بھاگنے کے لیے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی کسی احتجاج میں اپنی توانائیاںضائع نہیں کرنا چاہتے۔ یوں صوبائی حکومت کے پاس کام کرنے کے لیے ایک مثالی ماحول ہے۔ عمران خان اگر اپنی سرگرمیاں اس کے لیے خاص کرسکیں تو ان کا جنون ایک مثبت قوت میں بدل جائے گا۔
دوسرا کام پارلیمان میں ایک مثبت اپوزیشن کا کردار ہے۔ پیپلز پارٹی کی تمام تر سیاست کا تعلق سندھ حکومت اور موجودہ سیاسی اثاثے کی بقا سے ہے۔ وہ مفاہمت کی سیاست کر رہی ہے۔ یوںتحریک انصاف اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پارلیمان میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔اس سے پارلیمان کا کردار بہتر ہوسکتاہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی طرف عوام ایک متبادل قیادت کے طور پر دیکھیں گے۔ اگر حکومت ناکام ہوتی ہے تو جمہوریت پر اعتماد قائم رکھتے ہوئے عوام ایک موجود متبادل کی طرف رخ کریں گے۔
انسان افتاد طبع کا اسیر ہے۔ اس میں تبدیلی کا امکان نہیں ہوتا؛تاہم اسے ایک مثبت رخ دیا جا سکتا ہے۔ اگر عمران خان یہ کام کر گزریں تو ان کے '' شاکلہ ‘‘ سے وابستہ خدشات کم ہو سکتے ہیں
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved