جو شخص کرپشن کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں سمجھتا وہ یا تو پرلے درجے کا احمق ہے یا خود کرپٹ ہے۔ اس کے لیے بہترین نام اُمّ الخبائث ہے یعنی ساری خباثتوں کی ماں۔ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ اس کی کئی قسمیں ہیں۔ دونوں برادرانِ اسلام اپنی سیاسی مشہوری کے لیے اس غریب قوم کا جو کروڑوں روپیہ اتنی بیدردی سے اُڑا رہے ہیں یہ بھی کرپشن کی ایک قسم ہے۔ حال ہی میں صنعت کار اور تاجر طبقے کو جو پانچ سو ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے اسے کرپشن کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے‘ اور یہ وہ طبقہ ہے‘ ٹیکس دیتے وقت جنہیں باقاعدہ موت پڑتی ہے اور جن کے اثاثے اور جائیدادیں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔ اب آپ خود حساب لگا کر دیکھ لیں کہ ان پانچ سو ارب روپوں سے کتنے کالج‘ سکول اور ہسپتال تعمیر کیے جا سکتے ہیں جبکہ صرف لائن لاسز کا سالانہ نقصان ایک ہزار ارب روپے ہے۔ حکومت اگر اس طرف توجہ دے سکے تو اس سے کم از کم پانچ سو ارب روپے کے نقصان کا ازالہ تو ہو سکتا ہے لیکن بجلی اور گیس چوروں میں بھی یہی طبقہ سب سے آگے ہوتا ہے اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں کیونکہ پنجابی کے ایک محاورے کے مطابق بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔ قصہ مختصر ناجائز مراعات دینا اور لینا دونوں کرپشن کی ذیل میں آتی ہیں۔
پھر‘ بدحکومتی جو کرپشن کی بدترین قسم ہے‘ ہر طرف عروج پر نظر آتی ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں نے بیوروکریسی میں بھی اپنے اپنے گروپ بنا رکھے ہیں جنہیں اپنے ڈھب پر لانے اور رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ موجودہ وفاقی اور ہماری صوبائی حکومت کا یہ خاص سٹائل ہے کہ ہمیشہ جی حضوریوں ہی کی دال ان کے ہاں لگتی ہے اور جو بھی افسر قانون اور آئین کے حوالے سے ان کے غلط احکامات ماننے سے سرتابی کرے‘ اُسے نہ صرف کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے بلکہ ہر طرح سے ذلیل و رسوا بھی کیا جاتا ہے۔ محمد علی نیکوکارہ اور طارق کھوسہ سمیت اس کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس طرزِ عمل سے ماتحت افسروں کو بھی یہی پیغام ملا ہے کہ ہاں میں ہاں ملاتے رہو گے تو ترقیاں بھی ملیں گی اور دیگر سہولیات بھی‘ ورنہ عبرت ناک انجام کے لیے تیار رہو‘ حالانکہ افسران حکومت کا کوئی غیرقانونی حکم
ماننے کے پابند ہی نہیں ہیں لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ جن پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات ہوں‘ انہیں ترقی دینے میں کوئی دیر نہیں لگتی اور خوشامد نہ کرنے والے باضمیر افسر ہمیشہ محروم ہی رہتے ہیں۔ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ یہ طرزِ حکمرانی بجائے خود ایک طرح کی دہشت گردی ہے۔ لہٰذا اس ناسور کا مقابلہ کرنے والوں کے سامنے یہ اور اس طرح کے کئی چیلنج موجود ہیں جن سے بخوبی عہدہ برآ ہوا جا سکتا ہے۔ اور امید کی جاتی ہے کہ یہ سب کچھ بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہوگا‘ اور یہ مسائل حل کرنا اس
لیے بھی ضروری اور آسان ہے کہ عوام سول حکمرانوں سے جس قدر بیزار ہیں‘ افواج پاکستان سے اسی قدر محبت رکھتے ہیں ورنہ تو دہشت گردی کا خاتمہ بھی سول حکومت اور اس کے اداروں کا کام تھا اور فوج کو مکمل دفاع کے علاوہ کسی اور مخمصے میں ڈالنا ویسے بھی درست نہیں۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ جہاں سول حکمرانوں کی مقبولیت روز بروز کم ہو رہی ہے اور اس کی رٹ کہیں نظر ہی نہیں آتی اور وزیراعظم بظاہر غصے میں ہی نظر آتے ہیں‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہی خارجہ مسائل میں بھی سرخرو ہو رہے ہیں جو ایک انتہائی مشکل کام تھا اور سول حکومت نے اس کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے۔ چنانچہ چین ہو یا امریکہ‘ برطانیہ ہو یا سعودی عرب‘ ہر طرف صاحبِ موصوف ہی آ جا رہے ہیں اور وہاں ان کا استقبال بھی بطورِ خاص ہی کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ موصوف کی بھاگ دوڑ اور کوششوں سے افغانستان کے ساتھ برسوں کے بگڑے ہوئے حالات کیسے درست اور نارمل ہوتے جا رہے ہیں اور وہاں بھارتی عمل دخل بھی کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے‘ بلکہ بھارت کے ساتھ بھی برابری اور ایک باعزت فاصلے سے تعلقات کو استوار کیا جا رہا ہے۔
اور‘ یہ سب کچھ اس تاریخی کارنامے کے علاوہ ہے جو آپریشن کی صورت میں زیرِ کار ہے اور قدم قدم پر کامیابیاں ماتھا چوم رہی ہیں۔ چونکہ کراچی میں بطور خاص جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جا رہی ہے اور دوسرے علاقوں‘ بالخصوص پنجاب میں بھی لامحالہ یہ مشق روا رکھی جائے گی اور جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ ساتھ جرائم کی جڑ اور سب سے بڑی سہولت کار‘ کرپشن کا خاتمہ اور ناجائز دولت کے وہ انبار بھی پیش نظر رکھے جائیں گے جن کے اصل مالک اس ملک کے محروم عوام ہیں اور جو اس لوٹ مار سے سب سے زیادہ متاثر اور زخم خوردہ ہیں۔ اس کے لیے اس ادارے کو جتنے اختیارات حاصل ہیں اور جنہیں وہ استعمال بھی کر رہا ہے‘ یہ جھاڑو پھیرنے کے لیے وہی کافی ہیں اور دہشت گردی کا اگر خاتمہ مقصود ہے تو اس کے بنیادی اسباب کا قلع قمع کرنا ہوگا ورنہ یہ ساری مشق ادھوری اور بے نتیجہ ہی رہے گی۔
آج کا مقطع
رسیلے غضب تھے، ظفرؔ، اس کے ہونٹ
وہ شہتوت منہ میں گُھلا دیر تک