تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     26-03-2015

امریکہ پھر آ رہا ہے

میں نے امریکہ کو کئی بار پاکستان میں آتے اور جاتے ہوئے دیکھا ہے۔اب تو میں اس کے قدموں کی آہٹیں پہچاننے لگا ہوں۔ ابتداء میں یہ آہٹیںبڑی بلند ہوتی تھیں‘ بلکہ امریکہ خود انہیں نمایاں کرتا تھا۔ پہلی آمد ''تھینک یو! امریکہ‘‘ کے ساتھ ہوئی۔ خیرات میں دی جانے والی امریکی گندم ہمیں مفت دے کر احسان کیا جاتا تھا۔ دو ہاتھ مصافحہ کرتے نظر آتے اور ریلوے انجنوں سے لے کر ایئر پورٹس‘ نہروں اور راجباہوں کے پلوں پر ایک چھپا چھپایا بینر چسپاں ہوتا۔ ایک ہاتھ کی آستین پر امریکی پرچم اور دوسرے کی آستین پر‘ پاکستانی پرچم دکھائی دیتا اور نیچے لکھا ہوتا ''تھینک یو! امریکہ۔‘‘ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنے پاکستان کی‘ جس گندم کو کھانے کے عادی تھے‘ اس کی لذت ہی کچھ اور تھی۔ ہمارے لئے امریکی گندم بدذائقہ تھی اور جہاں جہاں بھی یہ دی گئی‘ شاید ہی کسی نے کھائی ہو۔ بیشتر لوگ اسے اونے پونے داموں بیچ دیتے اور اس گندم کا آخری ٹھکانہ ہمارے مویشیوں کی کھرلیاں ہوتیں۔ اب تو ہماری زمین کا ذائقہ رکھنے والی اصل گندم سے پکی روٹی کسی بڑے جاگیردار کے گھر میں دیکھنے کو مل جائے‘ تو مل جائے‘ ورنہ وطن کی مٹی میں اگی ہوئی گندم کے آٹے کی خوشبودار روٹی کا تو نئی نسل کو پتہ بھی نہیں ہو گا۔ امریکہ نے عام آدمی کو اپنی بدمزہ گندم دے کر‘ ہمارے حکمرانوںکو ڈالروں کی ایسی لت لگائی کہ وہ خود بھی ہمارے لئے امریکی گندم بن کر رہ گئے۔ بدمزہ‘ بدذائقہ اور بدلحاظ آدمی۔ ہمارے اقتدار کے ایوانوں میںانسان شاذونادر ہی آتا ہے۔ پہلی بار 1965ء کی جنگ کے بعد‘ امریکہ ہم سے رخصت ہوا۔ 1970ء میں یحییٰ خان پر مہربان ہوا۔ مگر اس مہربانی کے دور میں‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے نقشے میں رنگ امریکہ نے ہی بھرے تھے۔ باقی ماندہ پاکستان کی حکومت کے لئے‘ امریکہ نے ذوالفقار علی بھٹو کی منظوری دی۔ لیکن بھٹو صاحب نے جلد ہی آزادی و خودمختاری حاصل کرنے کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے۔ اردن کی لیبارٹری میں تیار کردہ ایک فوجی افسر‘ جو پاکستان آ کر جنرل بن گیا‘ اس پر امریکہ کو بہت بھروسہ تھا۔ اس کے دور میں امریکہ پھر مہربان ہوا‘ اور اب کے ہمیں دہشت گردوں‘ اسلحہ اور ڈالروں کی امداد ملی۔ یہ امداد ‘ امریکی گندم سے بھی زیادہ بدذائقہ بلکہ بدبو دار نکلی۔
اس نئی امریکی امدادنے‘ ہماری آزادی اور ہمارے خون‘ دونوں کو پینا شروع کیا‘ جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ضیاالحق کی قسمت میں بیوفائی ہی لکھی تھی۔ انہوں نے پہلی بیوفائی اپنے محسن بھٹو سے کی‘ جس نے تین سینئر جنرلوں کو‘ آرمی چیف بننے کے حق سے محروم کرتے ہوئے‘ ضیاالحق کو نیچے سے اٹھا کر چیف آف آرمی سٹاف بنایا‘ مگر ان کی اصل وفاداری امریکہ کے ساتھ تھی۔ جیسے ہی امریکہ کو ضرورت پڑی‘ جنرل ضیاالحق نے درپردہ اپوزیشن لیڈروں کو بھٹو کے خلاف منظم کر کے‘ انتخابات میں پھڈا ڈالنے کی خاطر میدان میں اتارا۔ ریاستی جبر کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ضیاالحق کے کنٹرولڈ اور خریدے ہوئے میڈیا نے‘ عوامی تائید و حمایت سے محروم چند سیاستدانوں کو احتجاج پر لگا کر ایسا نقشہ باندھا کہ اسے عظیم عوامی تحریک کا نام دے دیا گیا۔ ضیاالحق کی مہربانیوں سے فیض یاب میڈیا والے‘ آج بھی چائے کی پیالی میں اٹھنے والے تحریک کے اس طوفان کو حقیقی احتجاجی تحریک قرار دیتے ہیں ۔ میڈیا پر انہیں باقاعدہ منصوبے کے تحت مسلط کیا گیا تھا۔ آزادی پسند صحافیوں کو چن چن کر بیروزگار کیا گیا۔ وہ میڈیا والے آج تک ضیاالحق کے گن گاتے ہیں اور آج بھی اگر کوئی اس کے اصل کردار کا ذکرچھیڑ دے‘ تو وہ اپنے بلی جیسے پنجوں سے اس کا منہ نوچنے لگتے ہیں۔ بھٹو کی طرح ضیاالحق پر احسان کرنے والا بھی امریکہ تھا۔ جب ضیاالحق نے دیکھا کہ روس کو افغانستان میں پسپائی اختیار کرنا پڑے گی‘ تو انہوں امریکہ سے بھی بیوفائی کی ٹھان لی اور افغانستان میں اپنی من مانیوں کی تیاریاں کرنے لگے۔ امریکیوں نے اس بیوفائی کو بھانپ لیا اور اس مرتبہ بھٹو کی بجائے‘ جان دینے کی باری ضیاالحق کی تھی۔ ان کے بعد اختیارات جونیئر جنرلوں کے ہاتھ لگے۔ جنرل ضیا کے انجام سے‘ یہ سب سہمے ہوئے تھے۔ جمہوریت کا ڈرامہ رچانے کے لئے جو حکمران دستیاب ہوئے‘ وہ نوآموز اور ناتجربہ کار تھے۔ جنرلوں نے ان دونوں کو باری باری خوب استعمال کیا اور پھر خود اقتدار پر قابض ہو گئے۔ امریکیوں نے نئے جنرل کا عہد وفا‘ تین شرطوں پر قبول کیا۔ جن میں سے ایک یہ تھی کہ وہ میڈیا پر کوئی پابندی نہیں لگائے گا اور اسے مکمل آزادی فراہم کی جائے گی۔ امریکہ کو آزادیٔ اظہار سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ میڈیا کی آزادی اس نے اس لئے مانگی تھی کہ جنرل کے قدم جمنے نہ پائیں۔ جنرل مشرف کو وہ مکمل اتھارٹی کبھی نہ مل پائی‘ جو جنرل ضیاالحق نے 1977ء سے لے کر 1985ء تک استعمال کی۔ مشرف کے جانے کے بعد‘ زرداری پاکستان کے صدر بن گئے۔ وزیراعظم بھی انہی کی پارٹی کا تھا۔ امریکہ کے لئے دونوں ہی ناقابل اعتبار تھے۔ ان دونوں کو بھی عوامی تائید و حمایت حاصل کرنے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا اور ان کا جو شوق تھا‘ وہ ان دونوں نے اپنے حواریوں سمیت جی بھر کے پورا کیا۔ اسی شوق کی خاطر آج بھی اپنی روایتی حریف جماعت ‘ ن لیگی حکومت کی خدمت گزاری میں لگے ہیں۔
امریکہ ایک بار پھر اپنے وفادار فوجی حکمرانوں سے مایوس ہوا۔ جب اسے پتہ چلا کہ یہ جنرل ڈالر لے کر‘ امریکہ کے دشمن چھاپہ ماروں کو دیتے ہیں اور وہ امریکہ ہی کا اسلحہ استعمال کر کے‘ امریکی فوجیوں کو پھڑکاتے ہیں۔ امریکہ کی ریاستی پالیسیاں خواہ کچھ ہوں‘ لیکن بھٹو صاحب کے الفاظ میں ''امریکہ ایک ہاتھی ہے‘ جو کبھی معاف نہیں کرتا۔ کچھ بھی ہو جائے انتقام لے کر رہتا ہے۔‘‘ میرے ذہن میں بھی امریکہ کے سامراجی کردار کی بے شمار کہانیاں محفوظ ہیں۔ ایسی ایک بھی کہانی نہیں‘ جس میں امریکہ نے بیوفائی یا بغاوت کرنے والے ‘کسی نام کے اتحادی اور کام کے وظیفہ خوار کو معاف کیا ہو۔ تازہ واقعہ ہی یاد کر لیں۔ اسامہ بن لادن کی خاطر ‘اس نے ایک ملک پر فوج کشی کی اور دوسرے ملک کو جو اس کا اتحادی تھا‘ اس کا پورا دفاعی نظام روندتے ہوئے‘ اسامہ بن لادن کو مار کے‘ اٹھا لے گئے۔ ایسا آج تک تو ہوا نہیں۔ اب اگر ہو جائے تو میں کہہ نہیں سکتا کہ امریکہ نے پاکستان کو معاف کر دیا ہو گا۔
امریکہ ایک بار پھر‘ پاکستان میںو اپسی کی تیاریاں کر رہا ہے۔ ایک ایک لقمہ کر کے ہماری امداد شروع کی جا چکی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف اب تک جو کچھ کیا ہے‘ امریکہ اس سے ہرگزمطمئن نہیں۔ یہاں تک کہ حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے امریکہ کو جو شکایت تھی‘ وہ بھی ختم نہیں ہوئی اور سچ کہوں تو افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی کی رپورٹ بھی اچھی نہیں گئی۔ اس پس منظر میں‘ یہ خبر پڑھ کے میں سوچنے لگا ہوں کہ اب ہمارا کیا بنے گا؟ امریکہ کا حال تو یہ ہے کہ ہوئے تم دوست جس کے‘ دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟ خبر یہ ہے ''امریکہ اور پاکستان مشترکہ فوجی مشقیںشروع کرنے والے ہیں‘ جن کا اکتوبر 2015ء میں آغاز ہو جائے گا۔ امریکہ اور پاکستان میں 100 سے زیادہ مشترکہ کارروائیوں اور مشقوں کا منصوبہ صرف اکتوبر میں شروع ہونے والے مالیاتی سال کے دوران مکمل کیا جائے گا۔مشترکہ مشقیں مختلف فوجی مہارتوں پر مشتمل ہوں گی۔ ان میں ہوائی‘ زمینی اور سمندری آپریشنز کئے جائیں گے۔ امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کے مطابق دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان دیگرEngagementsکے علاوہ سپیشل آپریشنز بھی ہوں گے اور منصوبے کے تحت جوEngagementsہوں گی‘ ان میں سیمینارز اور دوسرے فورمز استعمال کئے جائیں گے‘ جن میں دیگر موضوعات کے علاوہ کائونٹر ٹیررازم‘ کائونٹر انسرجنسی‘ سول ملٹری کوآپریشن‘ خفیہ تبادلہ اطلاعات اور پریس ریلیزیں شامل ہیں۔ آخری سطور پڑھتے ہوئے ہماری میڈیا برادری کا ماتھا بھی ٹھنک گیا ہو گا کہ آگے کیا آ رہا ہے؟ میں نے جس دن میڈیا پر پابندیوں کی خبریں پڑھیں‘ تو فوراً بھانپ لیا کہ ''امریکہ آ رہا ہے۔‘‘ میڈیا پر ہم نے امریکی مہربانیاں بہت دیکھی ہیں۔ پورے پرنٹ میڈیا پر نیشنل پریس ٹرسٹ بنا کر‘ قبضہ کرنے کا منصوبہ بھی وہیں سے آیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے کم و بیش تمام اخباروں اور مغربی پاکستان سے ''نوائے وقت‘‘ اور ''جنگ‘‘ گروپس نے سخت مزاحمت کی تھی‘ جس پر ایوب حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ یحییٰ خان کا سنسر بھی اس کے امریکی آقائوں نے ہی لگوایا تھا اور ضیاالحق کو تو ایسا پکا کر کے بٹھایا گیا کہ اس نے صحافیوں کو کوڑے بھی لگوا دیئے۔ میں نے اپنی قید میں ایک ہفتہ ایک ایسی کوٹھڑی میں کاٹا‘ جس کا پکا فرش ادھڑا ہوا تھا اور نومبر کے مہینے میں اوڑھنے کے لئے ایک چادر تک نہیں تھی۔ اب جو کچھ امریکہ یہاں کرنے والا ہے‘ اس کے لئے قومی میڈیا کی آزادی ناقابل برداشت ہو گی۔ اندازہ ہے کہ حکومت پاکستان کو اپنے سیٹلائٹ میں بہتر صلاحیتیں پیدا کرنے کے لئے پوری تیکنیکی امداد دی جائے گی تاکہ تمام نیوز چینلز کی نشریات سرکاری سیٹلائٹ سے ہوں۔ مشرف اور زرداری کے دور میں‘ امریکیوں نے چھوٹے چھوٹے دیہات میں این جی اوز کا جال پھیلا دیا تھا۔ آثار سے لگتا ہے کہ امریکہ پھر آ رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved