تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     26-03-2015

اسرائیل کے انتخابات

17مارچ کو اسرائیل میں ہونے والے عام انتخابات میں تمام تر تجزیوں اور پیش گوئیوں کے برعکس نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی ''لکہود‘‘ پارٹی نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ 120رکنی کنیسٹ(اسرائیلی پارلیمنٹ) میں اس کی نشستیں 19سے بڑھ کر 30 ہوگئی ہیں۔ لیکن یہ 'حیران کن کامیابی‘ اتنی بھی حیران کن نہیں ۔ اس کی اہم وجہ اسرائیلی حکمرانوں کا دہائیوں سے جاری ''ملک کا وجود مٹ جانے کا خوف‘‘ ہے جو عوام کے شعور پر مسلط رکھا جاتا ہے۔ نیتن یاہو، انتخابی مہم میں انتہا پسندی اور مذہبی جنون کو خوب ہوا دینے اور دائیں بازو کے ووٹروں کو اپنی حمایت پر مائل کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا۔
انتخابات سے چند ماہ پیشتر تک اسرائیل کے عوام میں روزگار، تعلیم، رہائش اور علاج جیسے بنیادی ایشوز پر حکومت کے خلاف نفرت بڑھ رہی تھی۔ قوی امکان تھا کہ عوام دشمن معاشی پالیسیاں اپنانے والی نیتن یاہو کی مخلوط حکومت کو شکست ہو جائے گی لیکن حزب مخالف کی پارٹیاں عوام کی خواہشات کے مطابق کوئی لائحہ عمل اور معاشی پروگرام فراہم کرنے سے قاصر رہیں۔ اسرائیل کی لیبر پارٹی (جو لیبر کی کم صیہونی ریاست کی نمائندہ زیادہ بن چکی ہے) اپنی غداری اور نظریاتی انحراف کی وجہ سے شکست سے دوچار ہوئی۔ لیبر پارٹی درحقیقت سکڑکر چھوٹا سا سیاسی گروہ بن چکی ہے۔
نیتن یاہوکی ''لکہود‘‘ پارٹی جہاں صیہونی عزائم کی علمبردار ہے وہاں آزاد منڈی کی جارحانہ قسم کی سرمایہ دارانہ پالیسیاں نافذ کرنے میں بھی پیش پیش ہے۔ اسرائیل کو بالعموم طبقاتی کشمکش سے پاک ایک سماجی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثر صریحاً غلط ہونے کے ساتھ گمراہ کن بھی ہے۔ ہر سرمایہ دارانہ سماج کی طرح اسرائیل میں بھی طبقات موجود ہیں جن کے تضادات اور تصادم کئی بار واضح ہو کر سامنے آئے ہیں، لیکن حالیہ انتخابات کا عمومی عالمی رجحان سے تعلق رکھنے والا پہلو یہ ہے کہ گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران کے سیاست پر اثرات بعض اوقات غیر متوقع اور الٹ ہوتے ہیں۔ اسرائیلی انتخابات کے نتائج پاکستان، بھارت اور بہت سے دوسرے ممالک سے مختلف نہیں ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں ہونے والے انتخابات میں بھی سرمایہ دار طبقے کے ہی نمائندے برسراقتدار آئے ہیں۔ ایسے انتخابی نتائج عوام کی امید نہیں بلکہ یاس اور ناامیدی کی جھلک ہوتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز نے 20 مارچ کو اپنے اداریے میں لکھا: ''مسٹر نیتن یاہو اپنے چوتھے دور حکومت میں جو راستہ اختیارکرے گا وہ اتنا ہی پراسرار اور مبہم ہو گا جتنا وہ خود ہے‘‘۔ نیتن یاہو نے اپنی حکومت کے ہر دور میں حکمران طبقے اور سامراج کی خدمت گزاری کرتے ہوئے عوام پر غیر منصفانہ معاشی اور سماجی حملے کیے ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 41 فیصد آبادی مقروض ہے اور انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔گھروں کی قیمت اورکرائے میں پچھلے دو سال میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ محنت کشوں کی اجرت طویل عرصے سے منجمد ہے اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ سوشل ویلفیئر اور تعلیم و علاج کی ریاستی سہولیات واپس چھینی جارہی ہیں۔ یہ سلسلہ پچھلے دو سال میں شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیکل بائیں بازوکو پہلی بار اسرائیل کی پارلیمنٹ میں اتنی نشستیں حاصل ہوئی ہیں کہ وہ ایک متحرک حزب مخالف کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
بائیں بازوکو صرف عرب اسرائیلیوں میں ہی نہیں بلکہ یہودی محنت کشوں اور نوجوانوں میں بھی حمایت مل رہی ہے۔ لیبر پارٹی سے الگ ہونے والے بائیں بازو کے باغی لیڈر ایمن اودھے نے ایک گروپ ''اتاش‘‘ کے نام سے تشکیل دیا ہے اورکھل کر صیہونی ریاست کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اپنے ایک بیان میں ایمن اودھے نے کہا ہے کہ ''سرمایہ داروں اور کاروباری سیٹھوں کی یہ ریاست اسرائیل میں بسنے والے محروموں کے خلاف برسر پیکار ہے‘‘۔
اس پس منظر میں اگر گہرائی میں اسرائیلی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو محنت کش عوام کے دل و دماغ میں یہودی حکمران طبقے کے خلاف نفرت کی چنگاری سلگ رہی ہے جو کسی بھی وقت پورے سماج میں بغاوت کی آگ بھڑکا سکتی ہے اور نیتن یاہو کی یہ جیت پوری صیہونی ریاست کی شکست میں بدل سکتی ہے۔ اگست 2011ء کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جب لاکھوں اسرائیلی محنت کش اور نوجوان تل ابیب، یروشلم، حائفہ اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر تھے۔ انقلاب مصر سے متاثر اس تحریک کا بنیادی نعرہ ''ایک مصری کی طرح آگے بڑھو‘‘ تھا جو ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل کے عوام مذہبی جنون اور صیہونی ریاست کی دہشت گردی کو نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ خود اس کا شکار بھی ہیں۔ ان مظاہروں میں چے گویرا کے پوسٹر بھی نمایاں تھے اوران میں'' مبارک، اسد، بی بی (نیتن یاہو) مردہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعرے بھی لگائے گئے۔
داخلی سطح پر عوامی بغاوت کو زائل کرنے کے لیے صیہونی حکمران خارجی سطح پر جنگ اور انتشارکو مزید ہوا دیں گے۔ خطے میں عدم استحکام مزید بڑھے گا۔ امریکی سامراج کے بڑھتے ہوئے معاشی زوال اور سفارتی کمزوری کے پیش نظر مشرقِ وسطیٰ کی مختلف علاقائی قوتیں بہت خود سر ہوگئی ہیں جن میں ترکی، ایران، سعودی عرب، قطر اور اسرائیل سر فہرست ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران نیتن یاہو نے امریکی صدر اور وائٹ ہائوس کو مطلع کیے بغیر ری پبلکن پارٹی کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کیا۔ امریکی کانگریس میں اس کی تقریر اوباما کی کھلی تذلیل کے مترادف تھی جس میں اس نے ایران کے ساتھ امریکہ کے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انتخابات جوں جوں قریب آتے گئے نیتن یاہوکی زہر آلود لفاظی بھی بڑھتی چلی گئی جس میں آخرکار اس نے فلسطینی ریاست کے نظریے اور قیام کو ہی یکسر مسترد کر ڈالا۔ اس کا کم از کم ایک فائدہ خطے کے عوام کو یہ ہو گا کہ ''امن مذاکرات‘‘ کا ناٹک اب نہیں چل پائے گا۔ دہائیوں کے واقعات اور تجربات نے فلسطینی
عوام بالخصوص نوجوانوں پر یہ ٹھوس حقیقت واضح کی ہے کہ ایک انقلابی لڑائی لڑے بغیر صیہونی ریاست کے قبضے اور درندگی سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے نہ کٹھ پتلی عرب حکمران کے تخت اکھاڑے جاسکتے ہیں جو اس کچل دینے والے استحصالی نظام میں خود عیاشیاں کر رہے ہیں اور عرب عوام غربت اور محرومی میں غرق ہیں۔
اکانومسٹ اپنے 14مارچ کے اداریے میں لکھتا ہے کہ ''عرب دنیا میں جہادیوں اور شیعہ ملیشیائوں کی باہمی لڑائیوں کی وجہ سے ان کی بندوقوں کا رخ اسرائیل سے ہٹ کر ایک دوسرے کی طرف ہو گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اور اسی خلفشار میں اسرائیلی ریاست نے مصر اور عرب ریاستوں سے نیم خفیہ طور پر قریبی تعلقات استوار کر لیے ہیں‘‘۔ نیتن یاہو اور عرب ریاستوں کے ایران امریکہ مذاکرات اور دوسرے معاملات پر بیانات ہو بہو ایک سے اورپالیسیاں بھی مشترک ہیں۔ عوام کو مذہب، قوم اور نسل کی بنیاد پر تقسیم کرنے والے یہ حکمران اپنے مفادات کے لیے یکجا ہیں۔ یہ سب کچھ اب بے نقاب ہو رہا ہے۔ خطے کے نہ ختم ہونے والے خونریز انتشار سے نجات اور آزادی فلسطین اس نظام کے خاتمے سے منسلک ہے جس کو مسلط رکھنے کے لیے یہ سب کیا جاتا ہے اورکیا جارہا ہے۔ اس نظام کے خلاف بغاوت میں کلیدی کردار اسرائیل کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کا ہے۔ اسرائیل کے صیہونی حکمرانوں اور ریاست کو اسرائیل کے عوام ہی شکست دے سکتے ہیں۔ سامراج اورسامراج کے نظام کے خلاف انقلابی جنگ کی فتح ہی مشرقِ وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کو جنم دے سکتی ہے جو سرمایہ دارانہ استحصال اور جنگ کی وحشت سے نجات کی ضامن بنے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved