تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     26-03-2015

23مارچ کا پیغام اور بلوے کا حل

23 مارچ ایک ایسا روایتی دن ہے جب پاکستان کی تینوں مسلح افواج کی مشترکہ پریڈ ہوتی ہے۔ اس میں نئے سے نئے ہتھیاروں کی نمائش کر کے جارحیت پر آمادہ دشمن کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہم ہر دم تیار اور پا برکاب ہیں۔ یہ نمائش گزشتہ سات برسوں سے التوا کا شکار تھی جس کی بنیادی وجہ ملک میں دہشت گردی تھی۔ دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز پر پے در پے حملے کیے۔ 2015ء کے 23 مارچ کی پریڈ نے سات سال بعد اہل وطن اور دنیا بھر کو پیغام دیا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑی جا چکی ہے اور اب وہ جو ہاتھ پائوں مار رہے ہیں ان کو توڑنا کوئی مسئلہ نہیں۔ اگلے دنوں میں پاکستان اس رہی سہی دہشت گردی سے بھی جان چھڑا لے گا۔ (انشاء اللہ)
ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے بڑے اور سنگین مسئلے سے نمٹنے کے بعد دوسرے نمبر پر ہمارا جو سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے وہ بلوے کی بلا اور مصیبت کا ہے۔ 23 مارچ سے محض تین چار دن قبل اہل لاہور کو اس بلوے کا سامنا کرنا پڑا۔ یوحنا آباد میں مسیحی برادری کے بلوے نے سکیورٹی اداروںکو یقیناً یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ پاکستان میں آئے دن کے بلووں کو کیسے روکا جائے۔
اقلیت کو اسلام نے ذمی کہا ہے یعنی غیر مسلموں کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت مسلم ملک کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی برادری کے خلاف مسلمانوں کے کتنے ہی بلوے ہو چکے ہیں۔ جب بھی بلوہ ہوا، قرآن جلانے یا توہین رسالت کا الزام لگا اور پھر لوگوں کو جذباتی کیا گیا۔ تحقیق کے بغیر بلوہ شروع ہوا، مکانات جلا دیے گئے، لوگ آگ میں بھون دیے گئے، بعد میں پتا چلا کہ جس بنیاد پر بلوہ کیا گیا تھا‘ وہ الزام ثابت ہی نہ ہو سکا۔
یہ بلوے صرف مسیحی برادری ہی کے خلاف نہیں ہوئے بلکہ مسلمانوں نے مذکورہ الزامات پر مسلمانوں کے خلاف بھی کئی بلوے کر دیے اور کتنے ہی بے گناہ مسلمانوں کو پتھر مار مار کر قتل کر دیا گیا۔ ان تمام واقعات کی تفصیل بھی لکھی جا سکتی ہے مگر طوالت کا خوف دامن گیر ہے۔ آخری بلوہ مسیحی برادری نے کر دیا ، دو مسلمان نوجوانوںکو پتھر اور لاٹھیاں مار مارکر شہید کر دیا، آگ میں جلا دیا اور پھر میٹرو بس سٹیشن میں کروڑوں کا نقصان کر کے ٹوٹے پھوٹے جنگلے پر لاشوں کو لٹکا دیا گیا۔ دہشت گرد‘ جنہوں نے دھماکہ کیا‘ تو دھماکے کے ساتھ ہی ختم ہو گئے مگر بلوے نے حافظ نعیم اورنعمان بابر کو اپنے ظلم کا نشانہ بنا دیا۔
ہمارے انٹیلی جنس ادارے بلوے کے مجرموں کو پکڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب کیمرے کی آنکھ بلوے کے مجرموں اور قاتلوں کو بار بار دکھاتی ہے۔ ان تصاویر کو نادرا کے ڈیٹا میں ڈال کر فوراً مجرموں کے گھروں پر دستک دے کر پکڑا جا سکتا ہے مگر چونکہ آج تک کسی بلوے کے مجرموں کو سزا نہیں ملی، اس لیے انتقام کی اندھی آگ میں اب غیر مسلموں نے بھی بے گناہوں کو جلانا شروع کر دیا ہے۔ اب پانی سر سے گزر رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی حکمران ان بلووں کی بلا سے ہماری جان چھڑائیں گے یا یہ کام بھی پاک فوج کو ہی کرنا پڑے گا؟ اور اگر بلوے کی بلا کو ٹالنے کا کام بھی فوج ہی کو کرنا ہے تو سیاسی حکمرانی آخرکس مرض کی دوا ہے؟
اقلیتوں کی حفاظت کے بارے میں حضرت علیؓ ایک حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: مسلمانوں کا ذمہ یکساں برابر ہے، لہٰذا جس کسی نے مسلمان کی پناہ میں (جو کسی غیر مسلم کو دی گئی ہو) دخل اندازی کر کے مسلمان کو رسوا کیا، اس پر اللہ کی بھی لعنت ہے، فرشتوں کی بھی لعنت ہے اور تمام لوگوں کی بھی لعنت ہے۔ (بخاری)
یاد رہے! مذکورہ فرمان حالت جنگ سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں تک حالت امن کا تعلق ہے ، اس کے اندر غیر مسلموں پر بلوہ کر کے انہیں مار دینا یہ تو اور بھی سنگین جرم ہے اور حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ حفاظت کی ذمہ دار وہ ہے اور اس کے لوگوں یعنی پولیس کی موجودگی میں بلوائی دخل اندازی کر کے بے گناہ لوگوں کو مار دیں تو ایسی حکومت کا اقتدار کس کام کا رہ جاتا ہے۔ ایسی حکومت اپنی اتھارٹی یقیناً کھو دیتی ہے۔ اگر وہ بلوائیوں کو عدل کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بعد سزا سے دوچار نہیں کرے گی تو اسی طرح اتھارٹی کھوتی چلے جائے گی۔
حضرت عمرؓ کی سلطنت انتہائی وسیع تھی، انہیں ایک غیر مسلم نے شہید کر دیا مگر قرون اولیٰ کے مسلمان کس قدر صاف ستھری اور انتہائی اعلیٰ تہذیب اور شائستگی کے مالک تھے کہ کسی ذمی کا بال تک بیکا نہ ہوا۔ خود حضرت عمرؓ نے اپنی شہادت سے پہلے وصیت فرمائی کہ میں تم لوگوں کو (ذمیوں کے حقوق کی پاسداری کے ضمن میں) اللہ کے ذمہ کی وصیت کرتا ہوں (کہ اس میں کوتاہی نہ کرنا) کیونکہ یہ تمہارے نبیﷺ کا ذمہ ہے۔ (بخاری)
الغرض، ذمیوں کے خلاف مسلمانوں نے بھی اپنے پیارے نبیﷺ کے ذمہ کو تار تار کر دیا اور آج مسیحی برادری نے بھی حافظ نعیم کو زندہ جلا کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کی دھجیاں اڑا دیں جس میں وہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ایک رخسار پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کے آگے کر دو۔ اہل دانش خطرہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان بلووں کو روکا نہ گیا اور لوگوں کو یہ باور نہ کرایا گیا کہ قانون اپنے ہاتھ میں مت لیں، ملزموں کو قانون کے حوالے کر دیں اور جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر بلوہ کرے گا، اس بلوے میں شامل ہر شخص کو اس کے جرم کے مطابق سرعام سزا ملے گی ، قومی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کی جائدادیں ضبط کر کے نقصان پورا کرے گی۔ آئے روز میٹرو بس اسٹیشن کو توڑیں گے تو بلووں کے یہ سانحات نہ جانے مزید کتنے مسیحی جوڑوں کو آگ کی نذر کر دیں گے۔ نہ جانے کتنے حافظ نعیم جیسے معصوم نمازی جوانوں کو آگ میں بھسم کر دیں گے۔ ان بلووں کو روکنے کا علاج صرف اور صرف بے لاگ عدل ہے۔ تمام ذمہ داران کو سزا دے دی جائے، یہ بلوے رک جائیں گے۔ (انشاء اللہ)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved