تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     26-03-2015

عدم برداشت کا جہنم

دو بدصورت واقعات ایک بوجھ کی طرح ذہن پر موجود ہیں، سوچا انہی کو آج کے کالم کا موضوع بنایا جائے۔ ان کا تعلق ہمارے سیاسی حالات سے نہیں بلکہ ہمارے سماج کے بدلتے ہوئے مجموعی مزاج سے ہے۔ ان دونوں واقعات میں عدم برداشت کی بدصورت تصویر دکھائی دیتی ہے۔ ایک واقعہ تو کل رات کا ہے۔ میں اپنی ایک دوست کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھی نوید اور دانیال کا انتظار کر رہی تھی کہ دیکھا ایک میاں بیوی‘ قریبی مارکیٹ سے شاپنگ کرنے کے بعد اونچی اونچی آواز میں بحث کرتے ہوئے اپنی موٹر سائیکل کی طرف آ رہے ہیں۔ شوہر باریش اور ان کی بیگم صاحبہ باپردہ خاتون تھیں۔ پارکنگ میں ہماری گاڑی کے ساتھ ان کی موٹر سائیکل کھڑی تھی۔ ان کی آوازیں ہمارے کانوں تک بآسانی پہنچ رہی تھیں۔ اردگرد خاصا رش تھا۔ لوگوں کے اس ہجوم میں‘ دونوں تکرار کرتے ہوئے آئے اور پھر میاں صاحب نے بھرے بازار میں اپنی باپردہ اہلیہ کو زوردار تھپڑ جڑ دیا اور ساتھ ہی اونچی آواز میں گالم گلوچ کرنے لگا۔ پھر موٹر سائیکل سٹارٹ کر کے اسے دھمکی دی کہ میں جا رہا ہوں‘ تم خود ہی آ جانا۔ اس انتہائی ذلت پر میں اس باپردہ خاتون کے چہرے کے تاثرات تو نہ دیکھ سکی مگر مجھے یقین ہے کہ لوگوں کے ہجوم میں اپنے شوہرکے ہاتھوں اس طرح پٹنے پر کس تکلیف اور شرمندگی سے گزری ہو گی، اور شوہر کے تیور بتا رہے تھے کہ گھر پہنچنے پر بھی اس کی خیر نہیں۔
دوسرا واقعہ بھی اسی سے ملتا جلتا ہے۔ چند ہفتے پیشتر ایک
مشہور انٹرنیشنل برانڈ کے گارمنٹس سٹور پر شاپنگ کرتے ہوئے‘ اپنے قریب ایک سلجھی ہوئی فیملی کو دیکھا۔ میاں بیوی اور تین بچے تھے۔ ان میں گیارہ بارہ سال کی بچی نے والدین کی پسند کی ہوئی کسی چیز پر ناپسندیدگی ظاہر کی تو اس کے والد محترم کو بچی کی اس بات پر اتنا غصہ آیا کہ اس کے معصوم چہرے پر زوردار طمانچہ مار دیا۔ گیارہ بارہ سال کی لڑکی، جس کی شخصیت ابھی تعمیر کے مرحلے میں ہے، ہجوم میں اپنے والد کا تھپڑ کھانے کے بعدکس قدر شرمندہ ہوئی ہو گی‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں! ارد گرد کھڑے لوگ اور سیلز مین تک ان صاحب کی انتہائی بدتمیزی پر انگشت بدنداں تھے۔ میں دیر تک سوچتی رہی کہ اس بچی کے والد نے عدم برداشت کا شرمناک مظاہرہ کر کے اپنی بیٹی کی شخصیت کو کتنا کمزور کر دیا ہے۔ یہ بچی پوری زندگی اس تکلیف دہ لمحے کو نہیں بھول پائے گی۔ ماہرین نفسیات تو کہتے ہیں کہ آپ تین سال کے بچے کو بھی سب کے سامنے سرزنش نہ کریںکیونکہ بچے کی بھی عزت نفس ہوتی ہے۔
یہ دونوں واقعات میرے لیے افسوسناک تھے‘ مگر اس سے بھی زیادہ Shocking تھے۔ عدم برداشت اب ہمارے مزاج میں سرایت کر چکی ہے۔ ارد گرد کی پروا کیے بغیر غصے اور نفرت کا یہ آتش فشاں کسی بھی وقت، کہیں بھی پھٹ سکتا ہے۔ اس کے مظاہرے عام
دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ حال ہی میں یوحنا آباد میں بپھرے ہوئے ہجوم نے عدم برداشت کا بدترین مظاہرہ کیا اور دو بے گناہ نوجوانوں کو پکڑ کر زندہ جلا دیا۔ اس سے پہلے کوٹ رادھا کشن میں بھٹہ مزدور میاں بیوی کو ایسے ہی مشتعل ہجوم نے جلتے ہوئے بھٹے میں پھینک دیا تھا۔ احتجاجی جلسوں میں جلائو گھرائو، پتلے جلانا‘ معمولی جھگڑوں پر گولیاںچلنا‘ پسند کی شادی نہ ہونے پر خود کشی کرنا یا مخالفین کو مار دینا انتہائی عدم برداشت اور رواداری سے عاری معاشرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ کم سن گھریلو ملازمین پر تشدد کی دل دہلا دینے والی خبریں آئے روز اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ کہیں غریب بچیوں کو ایک گلاس ٹوٹنے پر استری سے جلایا جاتا ہے تو کہیں ذرا سی حکم عدولی پر مار مار کر ان کی ہڈیاں توڑ دی جاتی ہیں۔ چند روز تک خبریں آتی ہیں کہ ذمہ داروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے مگر کبھی ان خبروںکے فالو اپ نہیں آتے کہ وہ کیفر کردار تک بھی پہنچے یا نہیں۔ عدم برداشت کا ایک اور مظاہرہ‘ جو آئے روز ہم اپنی سڑکوں پر دیکھتے ہیں‘ وہ ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی ہے۔ قانون کا احترام کرنے والی قوموں میں ٹریفک سگنل توڑنا ایک جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے معاشر ے میں ہر دوسرا شخص یہ ایڈونچر کر کے فخر محسوس کرتا نظر آتا ہے۔ اگر بدقسمتی سے کہیں ٹریفک بلاک ہو جائے تو ہر شخص رستہ لینے کی جلدی میں‘ وہ بے صبری اور عدم برداشت دکھاتا ہے کہ صورت حال سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جاتی ہے۔
عدم برداشت وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں ہم دوسرے کے اختلاف کرنے کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ برداشت کرنا دراصل دوسرے کے حق کو تسلیم کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اس بنیادی وصف سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ خانگی ماحول سے سماجی اور سیاسی منظرنامے تک‘ نفرت اور عدم برداشت کا عفریت رواداری اور تہذیبی اقدار کو تباہ کرتا نظر آ رہا ہے۔ روشنیو ں کا شہر کراچی گزشتہ بیس‘ پچیس برس سے بدامنی کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ جلائو گھرائو اورگولی مار دو... عدم برداشت نہیں تو اور کیا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف اور چپقلش کی بدترین صورت حال کراچی میں نظر آتی ہے۔ ایک سیاسی مفکر کے کہے ہوئے الفاظ یاد آتے ہیں:
Tolerance is something everybody needs to be reminded of, especially in our reacting political climate.
ہیلن کیلر نے بھی کیا اچھی بات کہی کہ The highest result of education is tolerance اس خوبصورت خیال کو مدنظر رکھیں تو ہمیں سکولوں اور کالجوں کے نصاب میں ایسے مواد کا اضافہ کرنا ہو گا‘ جس سے طالب علموں کی شخصیت سازی میں برداشت اور رواداری جیسی اہم اقدار پروان چڑھ سکیں۔ ایک پوری نسل کو نفرت اور عدم برداشت کا سبق پڑھایا گیا‘ جس کا نتیجہ ہم دہشت گردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ایک باوقار اور انسانیت کے جذبات سے لبریز معاشرے کو سب سے زیادہ یہی اقدار سیکھنے کی ضرورت ہے۔ تہذیب اور برداشت کے دائرے میں رہ کر اختلاف کرنا اور اختلاف کو سہنا سیکھنا چاہیے۔ جب معاشرہ اس نہج پر آ جائے کہ لوگ سر بازار بیٹیوں اور بیویوں کو طمانچے مارنے لگیں‘ زندہ لوگوں کو جلانے لگیں تو پھر ایک سماجی تحریک کی ضرورت شدید ہو جاتی ہے۔ یہ سماجی تحریک کون شروع کرے گا؟ میڈیا اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس مقصدکے لیے ریٹنگ کے خبط سے نکل کر بہتر انسانوں اور بہتر معاشرے کی تعمیر کے لیے ایک صحت مندانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی تبدیلوں پر اپنی نگاہ رکھنے والے ماہرین عمرانیات کو انسانی کمزوریوں کو سمجھنے والے ماہرین نفسیات کے ساتھ مکالمہ کرنا ہو گا۔ ایک تحریک کے ذریعے برداشت کو انسانی شخصیت کا حصہ بنانے کے لیے کام کرنا ہو گا، ورنہ عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان معاشرے کو جہنم بنا دے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved