عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کا معاہدہ تسلیم کر کے ہو سکتا ہے‘ اپنے لئے راستے کھولے ہوں‘ لیکن عوام کے راستے بند کر دیے۔ عوام کو جس صورتحال کا سامنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اب ان کے لئے سیاسی پارٹیوں میں انتخاب کرنا مشکل ہو گیا ہے‘ کیونکہ سب کی سب ایک ہو چکی ہیں۔ ان میں فرق تلاش کرنا ممکن نہیں رہا۔ نوازشریف‘ آصف زرداری‘ مولانا فضل الرحمن‘ اسفندیارولی خان‘ آفتاب شیرپائو‘ بلوچستان کے سارے قوم پرست‘ جماعت اسلامی‘ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی ساری جماعتیں‘ سب کے سب ایک ہیں۔ عوام عشروں کے تجربات کے بعد‘ ان سے مایوس ہو چکے ہیں۔ کسی طرف سے انہیں امید کی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔الطاف حسین مختلف نعروں کے ساتھ میدان میں اترے تھے‘ لیکن ان کے نعرے‘ صرف نعرے ہی ثابت ہوئے۔ اسمبلیوں میں نشستیں لے کر‘ وہ حکمران جماعتوں کے شراکت دار بننے لگے۔ کسی کے ساتھ مستقل تعلقات بھی استوار نہ کر پائے اور نہ ہی کسی مخلوط حکومت میں شامل ہوتے وقت‘ اپنے نعروں میں سے کسی ایک پر بھی عملدرآمد کی شرط منوائی۔ ان کی سیاست‘ مستقل گلے شکووں اور حکومتوں میں مسلسل شامل ہونے کے تجربات کو دیکھ کر‘ یہ سمجھنا ہی مشکل ہو گیا کہ الطاف بھائی کی پارٹی کیا کرنے آئی ہے اور کیا کرنا چاہتی ہے؟ نہ ان کی کسی انتظامیہ سے بنی‘ نہ کسی حکومت سے بنی اور نہ وہ کسی سیاسی جماعت کے مستقل اتحادی بنے اور نہ ہی مستقل طور سے‘ حزب اختلاف کی حیثیت میں سامنے آئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بعض سماج دشمن عناصر نے ایسی حرکات کیں‘ جنہیں ایم کیو ایم سے منسوب کیا گیا اور الطاف بھائی کو‘ مسلسل انہی سماج دشمن عناصر سے لاتعلقی کے اعلانات کرتے ہوئے اپنا اور میڈیا کا وقت صرف کرنا پڑا۔ ہر وقت مستقل جھگڑوں اور تنازعات میں الجھی ہوئی ایک پارٹی سے‘ عوام الناس کیا توقعات وابستہ کرتے؟
کچھ فرقہ ورانہ خیالات رکھنے والی جماعتیں ہیں۔ ان میں سے اپنے طور پر کوئی بھی قابل ذکر انتخابی کامیابی حاصل نہیں کرتی۔ کسی نہ کسی دوسری جماعت کے ساتھ لگ کر اپنے لیڈروں کے لئے اسمبلیوں میں جگہ ڈھونڈ لیتی ہے۔ ان میں ماہرترین مذہبی سیاستدان مولانا فضل الرحمن ہیں۔ مذہبی لیڈروں میں‘ اسمبلیوں کے اندر داخل ہونے اور حکومت میں حصے دار بننے کا فن‘ ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ انہوں نے کسی بھی حکومت میں شریک ہونے میںکبھی عار محسوس نہیںکی۔ وہ اے این پی کے بھی ساتھی ہیں اور ضرورت پڑے تو اس کے مخالفین میں بھی جا بیٹھتے ہیں۔ وہ آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کے بھی حلیف ہیں اور نوازشریف کی حکومت میں بھی گھس جاتے ہیں۔ ڈکٹیٹروں کے وہ ہمیشہ سے پسندیدہ لیڈر رہے ہیں۔وہ ہر حکمران کو اسلام کا لیبل لگانے میں بھی دقت محسوس نہیں کرتے۔ مجھے نہیں پتہ کہ جنرل مشرف کے ساتھ انہوں نے کیسے نبھائی؟ ان کے دوراقتدار میں ‘ انہوں نے ایم ایم اے کا حصہ بن کر‘ جس طرح ان کا ساتھ دیا وہ مولانا فضل الرحمن ہی کے بس کی بات ہے۔ مجھے نہیں معلوم‘ انہوں نے کس بنیاد پر فوجی حکمرانوں کو اسلام کی رو سے جائز سمجھا‘ یا سمجھایا؟ بلوچستان کے قوم پرست‘ حکومت میں ہوتے ہیں تو عموماً پاکستان کی روایتی حکمران جماعتوں کے ساتھی بن جاتے ہیں یا پہاڑوں پرچلے جاتے ہیں۔ میں نے سیاست میں جتنے جانے پہچانے چہروں کا ذکر کیا ہے‘ عوام بار بار ان پر بھروسہ کر کے‘ دھوکہ کھا چکے ہیں۔ اب انہیں جمہوریت میں کوئی دلکشی دکھائی نہیں دے رہی۔ ان سب کے جلسوں میں مختلف حیلے بہانوں سے لوگوں کو ٹرانسپورٹ مہیا کر کے جمع کیا جاتا ہے اور اب تو کھانے بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ اسی لالچ میں غریب آدمی ‘جلسوں میں چلے آتے ہیں۔ اس ماحول میں عمران خان کی منفرد آواز سنائی دی اور عوام خصوصاً نوجوان‘ ان کی طرف بڑی تعداد میں متوجہ ہونے لگے۔ ان کی غیرسیاسی زندگی‘ قابل رشک اور بے داغ ہے۔ کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت میں‘ انہوں نے پاکستان کا نام جس طرح روشن کیا‘ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
شوکت خانم ہسپتال قائم کر کے‘ انہوں نے اپنی عزت اور احترام میں بے حد اضافہ کیا۔ یہی وہ کارنامے ہیں‘ جن کی وجہ سے عوام ان کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ امیدیں لگا بیٹھے کہ خان صاحب‘ دڑے کے مال سے علیحدہ ہیں۔ ان کی سیاست میں بدنام‘ گندے اور گلے سڑے عناصر کی کوئی جگہ نہیں۔ مگر افسوس ! انہوں نے اپنی شہرت کی حفاظت نہیں کی۔ تحریک انصاف بنا کر‘ انہوں نے اس کے
دروازے بلاامتیاز سب پر کھول دیئے۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ وہ ‘فرقہ پرست جماعتوں یامخصوص نظریات کی بنیادوں پر قائم ہونے والی جماعتوں کی طرح‘ رکنیت سازی کو محدود رکھتے۔ کوئی عوامی جماعت ایسا نہیں کر سکتی۔ جس چیز میں احتیاط کی جا سکتی ہے اور کرنا چاہیے‘ وہ لیڈرشپ کی چھان بین ہے۔ جن سیاستدانوں نے ماضی سے لے کر آج تک‘ کسی نہ کسی حکومت میں شامل رہ کر‘ اقتدار کے مزے لوٹے ہیں‘ وہ کتنے بھی ایماندار اور پاک باز ہوں‘ عوام ان پر بھروسہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ وہ مان ہی نہیں سکتے کہ ان کرپٹ حکومتوں میں کوئی شریف آدمی‘ اپنا دامن صاف رکھ سکتا ہے۔ میں نے پاکستانی سیاست میں جن معروف شرفاء کے نام سنے اور ان پر یقین کیا‘ جب انہیں جاننے کا موقع ملا‘ تو اندر سے سب انہی جیسے نظر آئے‘ جو رسوائی و بدنامی کے اعلیٰ ترین درجوں پر فائز ہیں۔ مثلاً ایک بزرگ ہیں‘ جو قریباً نصف صدی سے اسمبلیوں میں منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ سادہ لباس میں رہتے ہیں اور کرپشن اور اقربا پروری سے بچ کر رہنے کی شہرت پائی ہے‘ مگر ان کے حلقے میں جا کر دیکھئے‘ تو ان سے زیادہ منتقم مزاج اور اقرباپرور بہت کم لوگ ہوں گے۔ وہ اپنے اہل خانہ اور رشتہ داروں کی خاطر ‘ سفارش سے محروم لوگوں پر جو ظلم ڈھاتے ہیں‘ وہ دوسرے حکمرانوں سے ہرگز مختلف نہیں۔ میں تو اب یہ سمجھنے لگا ہوں کہ حکمران جماعتوں میں شامل‘ جتنے بھی لوگوں نے‘ شرافت کے نقاب اوڑھ رکھے ہیں‘ اندر سے وہ بھی بدنام سیاستدانوں جیسے ہی ہیں۔ آپ کو ڈاکٹروں‘ سرکاری ملازموں‘ مذہبی جماعتوں‘ اساتذہ ‘ مزدور لیڈروں اور سفیدپوش اور محنت کش طبقوں میں واقعی شریف اور صاحب کردار لوگ مل جائیں گے‘ لیکن اہل سیاست میں شرافت‘ جنس نایاب ہے۔ عوام کو وہم ہے کہ عمران خان‘ صاحب کردار اور بے داغ انسان ہے‘ جو گندگی سے اپنا دامن بچا کر رکھے گا۔ یہ کوئی نہیں چاہتا کہ سیاستدان‘ فقیروں‘ درویشوں اور اولیا کی طرح بے داغ ہو۔ اسے بہرحال سیاسی امور انجام دینا ہوتے ہیں اور سیاست میں خراب لوگوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ سیاسی لیڈر کو یہ اختیار دینا پڑتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے شر سے بچنے کے لئے اضافی تدبیریں بھی اختیار کرے‘ لیکن اس کا اپنا دامن ہمیشہ صاف نظر آنا چاہیے۔ پرانے سیاستدانوں میں ایسے لوگ موجود تھے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان‘ سردار عبدالرب نشتر‘ حسین شہیدسہروردی‘ میاں افتخار الدین ‘ملک فیروز خاں نون اور سید فخرامام چند ایسے نام ہیں‘ جنہوں نے اقتدار سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا‘ بلکہ جہاں تک ممکن ہوا‘ اپنے پاس سے خرچ کر دیا۔ لیاقت علی خان نوابزادہ تھے اور دلی میں ان کی ذاتی محل نما کوٹھی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے ‘مفت میں اپنے ملک کو دے دی۔ آج اس کی قیمت دسیوں کروڑوں میں ہے۔ کراچی میں قائد اعظمؒ کا ذاتی گھر‘ موہٹہ پیلس اب حکومت کے پاس ہے۔آج کی سیاست میں ‘ ہمیں ایسی کوئی شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ ایسا نہیں کہ عوام اچھے سیاستدانوں کو پسند نہیں کرتے۔ عوام کا المیہ یہ ہے کہ وہ دل کی گہرائیوں سے اچھے سیاستدانوں کی تلاش میں ہیں‘ مگر انہیں شعبدہ باز فریب دے کر اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں اور موقع ملتے ہی‘ لٹیروں کے ٹولے میں شامل ہو جاتے ہیں۔گستاخی معاف! عمران خان نے جوڈیشل کمیشن پر دستخط کر کے‘ پڑھے لکھے اور سیاسی شعور رکھنے والے لوگوں کو‘ شک و شبہ میں مبتلا کر دیا ہے۔ پہلے ہی ان کے ساتھ آمروں اور بدنام سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والوں کو‘ دیکھ کرلوگ بدکے ہوئے تھے اور بہت سے نیک نام حضرات‘ جو ان کے ساتھ آنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر انہوں نے اپنے قدم روک لئے۔ جوڈیشل کمیشن کا معاہدہ کر کے‘ خان صاحب عملی طور پر حکمرانوں کے کمپارٹمنٹ میں جا بیٹھے ہیں۔ خان صاحب ایک مضبوط اور طاقت ور انسان ہیں۔ انہیں ایسی چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ لیکن سچ مانئے کہ مخلص قیادت کو ترسے ہوئے غریب عوام اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کرنے لگے ہیں۔ اب بھی وقت ہے‘ عمران خان ایسے تمام ساتھیوں کے نرغے سے نکل آئیں‘ جو کسی نہ کسی دور کی رسوائے زمانہ سیاست کا حصہ رہ چکے ہیں۔چور چوریوں جاندا اے‘ ہیرا پھیری توں نئیں جاندا۔ خان صاحب اپنا دامن جھاڑ کے باہر نکلیں‘ تو انہیں اندازہ ہو گا کہ کتنے لائق‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ملک وملت کی خدمت کے جذبے سے سرشار‘ ان گنت بزرگ اور نوجوان‘ جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں۔ وہ ثابت قدمی سے روایتی حکمرانوں کے جال سے باہر نکل آئیںتو عوام انہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ بے شمار لوگ آج بھی یہی چاہتے ہیں‘ مگرانہیں جو نئی صحبت ملنے والی ہے‘ اسے دیکھ کر سب کے حوصلے بھی ٹوٹ جائیں گے۔عوام تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران خان کے ساتھ ہیں۔ نوازشریف سے سمجھوتہ کرنے والے عمران کے پاس ان کے لئے کیا رکھا ہے؟