فیض احمد فیض نے جنوں اور طوق ودارکے موسم سے اکتا کر کہا تھا ؎
بلا سے ہم نے دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم
مگر کئی عشرے گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں ؎
روش روش ہے وہی انتظار کا موسم
نہیں ہے کوئی بھی موسم‘ بہار کا موسم
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں یوں تو بہار بھی آئی‘ شگوفے پھوٹے‘ پھول کھلے اور بادو باراں نے بھی رنگ جمایا مگر اشرافیہ ہی موسم گل سے محظوظ ہوئی‘ غریب کسان‘ کلرک‘ ڈینگی ورکرز‘ ہیلتھ ورکرز اور بینائی سے محروم افراد کے لیے عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے۔ گزشتہ روز بھی لاہور کی ملتان روڈ اور مال روڈ پر کسانوں‘ کلرکوں‘ ڈینگی ورکرز اور نابینا افراد کا قبضہ رہا اور وہ اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔
لاہور کی ایک سڑک بند ہو توہر سڑک اور گلی میں ٹریفک جام ہونے لگتی ہے۔ انڈر پاسز اور فلائی اوورز کی بہتات کے باوجود ٹریفک مینجمنٹ کا فول پروف اہتمام اب تک نہیں ہو سکا۔ ورنہ دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک میں ایک سڑک اگر بلاک ہو تو متبادل راستوں پر ٹریفک رواں رہتی ہے۔ کٹھمنڈو (نیپال) میں ہم نے دیکھا کہ مائو نواز تنظیم کا ڈنڈا بردار احتجاجی جلوس سڑک سے گزر رہا تھا‘ ہاتھوں میں مشعلیں ‘ پرجوش نعرے ‘مگر پولیس کا حسن انتظام دیدنی کہ توڑ پھوڑ ہوئی نہ ٹریفک جام اور نہ ہم جیسے غیر ملکی مسافروں سے کسی نے چھیڑ چھاڑ کی۔
سعودی عرب میں ایّام حج اور آخری عشرہ رمضان میں سات آٹھ لاکھ آبادی کا شہر مکّہ معظمہ تیس پینتیس لاکھ غیر ملکی زائرین کو اپنے اندر سمو لیتا ہے ۔ بیت اللہ کے اردگرد سڑکوں پر زائرین کا ہجوم ہوتا اورکھوے سے کھوا چھلتا ہے مگر سوائے ایک آدھ دن کے مقامی آبادی کے معمولات متاثر ہوتے ہیں نہ وہ گلیوں میں گھر کا راستہ ڈھونڈتی خوار ہوتی پھرتی ہے۔ شُرطے متبادل انتظامات کے ذریعے مقامی آبادی اور زائرین کو نقل و حمل کی بہتر سہولتیں فراہم کرتے اور دعائیں لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں مگر ایک سڑک سے کوئی وی وی آئی پی گزرے اور ایک چوک پر کوئی گاڑی خراب ہو جائے تو پورا نہیں تو آدھا شہر گاڑیوں کی پو ں پاں اور رکشوں کی گھرڑ گھرڑ سے گونجتا رہتا ہے ‘دھوئیں سے سانس لینا مشکل اور شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ گزشتہ روز مال روڈ سے ٹھوکر نیاز بیگ تک لوگ اس عذاب سے گزرے۔
سرکاری اور صنعتی ملازمین ہوں یا تاجر‘ صنعت کار‘ اور ڈاکٹر انجینئرز اپنے مطالبات کے حق میں اکثر سڑکوں پر نکلتے اور عموماً بات منوا کر واپس جاتے ہیں مگر کسانوں ‘ کاشتکاروں کا یہاں کوئی والی وارث نہیں ۔ اب تک غریب کسانوں اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود اور زرعی شعبے کے مسائل حل کرنے کے لیے جو تنظیمیں وجود میں آئیں وہ باہم متحد ہیں نہ میڈیا‘ پارلیمنٹ اور سرکار دربار میں مضبوط لابی ہے ۔ پارلیمنٹ بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے بھری پڑی ہے جو کسانوں اور کاشتکاروں کے لیے مختص مراعات سمیٹتے ہیں۔ مگر ان کے جائز حقوق دلوانے میں مدد کبھی نہیں کرتے،الٹا ان کی حق تلفی میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ شوگر ملز مالکان گنے کے کاشتکاروں کو پیداوار کی مناسب قیمت دیتے ہیں نہ خریدے گئے گنے کی بروقت ادائیگی کرتے ہیں، جبکہ ان کے سرپرست حکمران بھی بات نہیں سنتے۔
اگر یہ بے چارے سڑکوں پر نکلیں تو وہ پولیس جو یوحنا آباد میں دو افراد کو زندہ جلتے دیکھ کر بھی حرکت میں نہیں آتی اور یوحنا میٹرو سٹیشن کی توڑ پھوڑ کا منظر خاموشی سے دیکھتی رہتی ہے ،ان پر چڑھ دوڑتی ہے اور وہ ٹھکائی کرتی ہے کہ الامان و الحفیظ۔ یہ بیچارے پریس کانفرنس کے لیے لاہور پہنچیں اور وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کو اپنے ساتھ کئے گئے وعدوں کی یاد دہانی کرانا چاہیں تو انہیں پریس کلب سے باہر بھیڑ بکریوں کی طرح پکڑ کر تھانوں میں بند کر دیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ چونکہ ان کی کوئی موثر آواز ہے نہ مضبوط پلیٹ فارم ‘اس لیے جانوروں سے بدتر سلوک روا‘پرانے زمانے میں انگریزوں کا قائم کردہ محکمہ انسداد بے رحمی حیوانات ہوتا تھا ‘معلوم نہیں کہاں کھو گیا ورنہ وہ اس بدسلوکی کا نوٹس ضرور لیتا۔
پاکستان میں چھوٹا زمیندار اور کاشتکار جن مسائل کا شکار ہے وہ ہماری سول و خاکی بیورو کریسی اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں پر مشتمل حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں۔ گزشتہ روز اپنے ادارے کے سیمینار میں جمشید اقبال چیمہ بتا رہے تھے کہ پاکستان کے کاشتکار اور عام شہری غذائیت کی کمی کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ زراعت کا شعبہ سب سے زیادہ زرمبادلہ کماتا ہے مگر وہ ان سہولتوں اور مراعات کا حقدار نہیں جو دوسرے شعبوں کو حاصل ہیں۔ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کے فلیٹ ریٹ کی سہولت ‘جی ایس ٹی کا خاتمہ‘ ناقص کھادوں اور جعلی زرعی ادویات کا سدباب ‘ کم شرح منافع پر قرضوں کا اجرا اور گندم‘ کپاس ‘ دھان اور گنے کے مناسب نرخ ایسے مطالبات ہیں جنہیں منظور کر کے حکومت کسانوں کی ہمدردیاں اور زیادہ پیداوار حاصل کر سکتی ہے مگر کسی کو پروا نہیں ۔بھارت سے آلو‘ٹماٹر‘ پیاز اور دیگر سبزیاں مہنگے داموں درآمد کی جاتی ہیں مگر اپنے کسانوں کو مناسب ادائیگی پر تیار نہیں اور کاشتکاروں کو مزید نقصان سے دوچار کرنے کے لیے گندم کی فصل کاشت ہونے کے بعد بیرون ملک سے گندم درآمد کر لی جاتی ہے حالانکہ اپنی گندم گوداموں میں پڑی گل سڑ رہی ہے۔
بات موسم سے چلی تھی‘ کسانوں کے احتجاج تک جا پہنچی۔ پورا ملک ان دنوں احتجاج‘ ہنگامہ آرائی اور بے اطمینانی کی زد میں ہے۔ امریکی تھنک ٹینک یہ ''مژدہ ‘‘سنا رہے ہیں کہ حکومت نے توانائی کا بحران حل نہ کیا ‘خونریزی بند نہ ہوئی‘ سیاستدانوں کا عزم کمزور پڑا تو فوجی مداخلت کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ کیا مہنگائی ‘ بے روزگاری ‘ لوڈ شیڈنگ ‘ بدامنی ‘ لاقانونیت ‘ ٹارگٹ کلنگ ‘ اغوا اور بھتہ خوری سے تنگ عوام اور اپنے جائز مطالبات پورے نہ ہونے کی وجہ سے مضطرب کسانوں ‘ کلرکوں‘ نابینائو ں ‘ ڈینگی ورکرز کا احتجاج بھی بالآخر عوامی شورش اور مداخلت کا پیش خیمہ ہے؟ وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
ہمارے حکمران اور سیاستدان فی الحال سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ایک ہفتہ قبل آج ہی کے دن وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے مژدہ سنایا تھا کہ تحریک انصاف سے سمجھوتہ ہو گیا ہے ۔اگلے ہفتے (اسی ہفتے) آرڈی ننس جاری ہو گا اور جوڈیشل کمشن بن جائیگا۔ اس مقصد کے لیے وزیر اعظم نے اے پی سی بلائی۔ ایم کیو ایم کے سوا ساری جماعتوں نے معاہدے اور جوڈیشل کمشن کے قیام سے اتفاق کیا مگر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس آرڈی ننس کے اجراء میں اور حکومت کی نیت جوڈیشل کمشن کے قیام میں رکاوٹ ہے ۔
کراچی میں آپریشن منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومت میں ہم آہنگی؟ ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے ۔ اور گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کا مستقبل ؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ سینیٹ الیکشن سے قبل یہ غلغلہ بلند ہوا کہ وزیر اعظم کابینہ میں ردوبدل کریں گے‘ نااہل اور نالائق وزیروں کی چھٹی ہو گی اور قابل‘دیانتدار اور چوکس و مستعد ارکان وزارتیں سنبھالیں گے مگر اس محاذ پر بھی خاموشی ہے۔ خارجہ اور قانون کی اہم وزارتیں مشیروں کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں اور ایک ایک وزارت کے دو دو مشیر‘ ایک دوسرے سے خائف ۔ ہم سفر مگر ہمنوائی سے محروم ۔شاید یہ بھی حکمرانی کا کوئی انوکھا انداز ہے۔
جنرل پرویز مشرف کا دور آمریت ختم ہوا تو عوام کو امید بندھی کہ اب وہ جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب ہوں گے‘ ان کی جدوجہد کا ثمر زندگی کی سہولتوں اور آسودگی کی صورت میں ملے گا مگر گزشتہ روز وزیر خزانہ اسحق ڈار اخبار نویسوں کو بتا رہے تھے کہ جب مسلم لیگ نے اقتدار سنبھالا‘ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ظاہر ہے کہ یہ پانچ سالہ جمہوری دور کا کیا دھرا تھا ورنہ فوجی آمر تو ڈالر ساٹھ روپے کا‘ قرضے ساڑھے بتیس ارب ڈالر کے اور سترہ ارب ڈالر زرمبادلہ کا ذخیرہ چھوڑ کر گیا تھا۔ پونے دو سال میں بھی حکومت نے لوڈشیڈنگ کم کی نہ بجلی کے نرخ اور نہ بے روزگاری میں کمی۔ البتہ دعوے‘ وعدے اور نعرے خوب سننے کو ملے۔ چلو دفع کریں حکمران اور کسان خود ایک دوسرے سے نمٹیں‘ ہم فیض صاحب کوپڑھتے ہیں ؎
ابھی چراغ سررہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
یا پھر ؎
قفس ہے بس میں تمہارے‘ تمہارے بس میں نہیں
چمن میں آتشِ گل کے نکھار کا موسم