تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-03-2015

مہلت

باقی اور برقرار وہی رہتا ہے، جو وقت کے تقاضوں کا ادراک کر لے۔ زرداری صاحب کے لیے مہلت ابھی موجود ہے کہ نظرثانی کریں۔ طوفان کے مقابل وگرنہ کون ٹھہر سکتا ہے؟
جوڑ توڑ ایک چیز ہے۔ بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی حقائق کا ادراک ایک بالکل دوسری۔ عالی جناب کو بہت بڑا تیراک مانا جاتا ہے۔ اب کی بار پانی کے بہائو کا مگر وہ اندازہ نہ کر سکے۔
جو لہر شمال میں ضربِ عضب کے نام سے اٹھی تھی، اسے کراچی کے ساحل سے ٹکرانا تھا۔ پاکستانی فوج کا مسئلہ یہ ہے کہ پیہم اسے بھارت کے دبائو کا سامنا ہے‘ جس کا دفاعی بجٹ پاکستان کے پورے میزانیے کے برابر ہو چکا۔ بھارت اب دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والا ملک ہے۔ کئی ماہ تک کنٹرول لائن پر آگ برستی رہی۔ الٰہ آباد کے مقتول مسلمانوں کو ''پلّے‘‘ قرار دینے والے مودی ایک ایجنڈے کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کا آخری ہدف پاکستان کو سکّم اور بھوٹان نہیں تو بنگلہ دیش جیسی ایک ریاست میں ڈھالنا ہے‘ خارجہ پالیسی میں اپنی ترجیحات طے کرتے ہوئے جو دہلی کو ملحوظ رکھے۔ ان کا ہدف پاکستانی معیشت ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کا سامنا کرتے ہوئے جب پاکستانی افواج نے بھرپور جواب دیا تو یہ بات واضح ہو گئی کہ راولپنڈی سربسجود ہونے پر آمادہ نہیں۔
اسی طرح جب ان مساجد اور مدارس کی فہرستیں مرتّب کرنے کا عمل شروع ہوا، دہشت گرد جن میں پناہ لیتے ہیں‘ تو مولانا فضل الرحمن کے واویلے کے باوجود کہ یہ کارروائی مغربی ایجنڈے کا حصہ ہے، کمزوری کا مظاہرہ کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے دھمکی دی کہ مدارس میں تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے وہ اسلام آباد کے ڈی چوک کو مظاہرین سے بھر دیں گے۔ ان کی ناز برداری کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ وفاقی حکومت کا لہجہ نرم رہا‘ مگر اقدامات جاری رکھے گئے۔ تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی ہی نہیں، اقتدار کے اوّلین ایک برس میں نون لیگ بھی طالبان سے مذاکرات کی حامی تھی۔ جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت، پشاور چرچ پر حملے اور 23 فوجی جوانوں کی شہادت کے بعد پارٹی کے طرزِ فکر میں تبدیلی آنے لگی۔ پھر پشاور کے آرمی پبلک سکول کا سانحہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے، پوری قوم میں اتفاقِ رائے امڈ آیا۔
چند ماہ قبل چیف آف آرمی سٹاف اور وزیرِ اعظم کے درمیان اس موضوع پر تبادلۂ خیال ہوا تھا۔ وزیرِ اعظم ابھی تک یکسو نہ ہوئے تھے اور بات چیت کا امکان برقرار رکھنے کے حامی تھے۔ برّی فوج کے سربراہ نے تب انہیں بتایا کہ سول حکومت کی ترجیحات میں مداخلت کا وہ ہرگز کوئی ارادہ نہیں رکھتے مگر ایک بھی فوجی جوان یا افسر کے قتل کا جواب کم از کم دس عدد دہشت گردوں کی ہلاکت سے دیا جائے گا۔ فوراً بعد وزیرستان میں بھرپور کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔ وزیرِ اعظم کے لیے یہ حقیقت کے انکشاف کی ساعت تھی۔ ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ آپریشن ضربِ عضب کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ اعلان اگرچہ آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیز سے سامنے آیا‘ صورتِ حال مگر ایسی تھی کہ سول حکومت کے لیے اسے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
کراچی میں رینجرز کی یلغار پونے دو برس سے جاری ہے۔ اپنے آخری ایّام میں جنرل اشفاق پرویز کیانی بار بار کراچی گئے۔ صنعت کاروں اور تاجروں کے علاوہ انہوں نے دوسرے ممتاز شہریوں سے ملاقاتیں کیں۔ مختلف علاقوں میں رینجرز کی تعیناتی کا منصوبہ ان کے حکم پر بنایا گیا۔
رینجرز کا اوّلین ہدف لیاری کے مسلّح گروہ تھے۔ ان کی استعدادِ کار اس قدر غیر معمولی تھی کہ پولیس اور رینجرز کے جوان بکتر بند گاڑیوں میں سوار ہو کر بھی ان گلیوں میں داخل نہ ہو سکتے تھے۔ مختلف علاقوں میں متحارب گروہوں کی حکمرانی قائم تھی۔ علی الاعلان وہ بھتہ لیتے۔ منشیات اور جوئے کے اڈّے چلاتے۔ اغوا برائے تاوان کے لیے چھوٹے چھوٹے گروپ انہوں نے تشکیل دے رکھے تھے۔ علاقے کے ہر بڑے تاجر اور صنعت کار کے علاوہ ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرنے والے ایک ایک شخص کو انہیں ادائیگی کرنا پڑتی تھی۔ پولیس میں ان کے رابطے باقاعدہ اور موثر تھے۔ یہ پورا علاقہ، جو وسطی پنجاب کے ایک بڑے شہر کے برابر ہے، پوری طرح ان کے رحم و کرم پر تھا۔ طالبان کے علاوہ، منظم منصوبہ بندی کے تحت بلوچستان، اندرونِ سندھ اور کراچی میں دہشت گردی کرنے والے مذہبی فرقہ پرستوں اور القاعدہ کے حامیوں نے یہاں ٹھکانے بنا رکھے تھے۔ جیسا کہ جرائم پیشہ گروہوں کا دستور ہے، ان سب میں ایک طرح کی مفاہمت کارفرما تھی۔ سمندر اور خشکی کے راستے اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ کرنے والے، ان سب کو حصہ ادا کرتے۔ مذہبی فرقہ پرستوں اور طالبان کی بڑی حد تک سرکوبی کے بعد، یہ بالکل فطری تھا کہ دوسری طرح کے دہشت گردوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا جائے۔
سینیٹ کا الیکشن قریب آیا تو جناب آصف علی زرداری نے باریک بینی کے ساتھ ایک منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ ایم کیو ایم، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی خان اور قوم پرست جماعتوں کو انہوں نے سمجھانا شروع کیا کہ نواز شریف پائوں جمانے میں کامیاب ہو چکے۔ بہت طاقتور ہو گئے تو دہشت گردوں کے بعد ان کی باری آئے گی۔ ایم کیو ایم نے اوّل اوّل وزیرِ اعظم کو یقین دلایا تھا کہ سینیٹ کا چئیرمین چننے میں وہ ان کی مددگار ہو گی۔ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں وزیرِ اعظم قطعاً کوئی اندیشہ نہ رکھتے تھے مگر بالآخر وہ بھی زرداری صاحب کے فلسفے کی طرف مائل ہو گئے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ فقط ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے بے وفائی کا ارتکاب کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک پورا منصوبہ تھا۔ فی الوقت قیاس ہی کیا جا سکتا ہے کہ کیا رہا ہو گا۔ مرکزی حکومت میں اپنی وزارتوں کو خطرے میں ڈالنے کا اقدام ظاہر ہے کہ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا۔ بات بہت دن راز نہ رہے گی۔ تاریخ اپنے دامن میں کوئی بھید چھپا کر نہیں رکھتی۔
ایم کیو ایم اب ایک گرداب میں ہے۔ اپنے صدر دفتر میں خطرناک اسلحے اور ان قاتلوں کی موجودگی کا کوئی جواز وہ پیش نہیں کر سکتی۔ جناب الطاف حسین کے اس الزام پر کوئی یقین نہ کرے گا کہ مجرم کہیں اور سے گرفتار ہوئے اور اسلحہ کمبلوں میں چھپا کر لایا گیا۔ 1992ء کا آپریشن وزیرِ اعظم نواز شریف کی رضامندی کے بغیر ہوا تھا۔ 1995ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو، صدر فاروق لغاری اور جنرل عبدالوحید کاکڑ نے طویل صلاح مشورے کے بعد کراچی کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی منظوری دی تھی۔ جعل سازی کے ایسے واقعات تو تب بھی نہ ہوئے، اب کیوں ہوں گے؟ فوج کے سٹور سے اسلحہ کیوں لے جایا جاتا؟ مجرم کہیں اور سے پکڑے گئے تو رینجرز کو ڈرامہ رچانے کی ضرورت کیا تھی؟ کیا جنرل راحیل شریف ایسا کرنے کی اجازت دے دیتے؟
جناب زرداری کا خوف بجا ہے کہ ایم کیو ایم کے بعد ان کے اپنے لوگوں کی باری آ سکتی ہے۔ عزیر بلوچ کی واپسی کا فیصلہ ایک مثال ہے مگر وہ سمجھ نہ سکے۔ سیاسی جوڑ توڑ کا نہیں، یہ بڑے فیصلے کرنے کا وقت ہے۔ سنّی تحریک اور اے این پی والے سیانے ثابت ہوئے۔ چپ چاپ کمین گاہوں میں جا چھپے۔
باقی اور برقرار وہی رہتا ہے، جو وقت کے تقاضوں کا ادراک کر لے۔ زرداری صاحب کے لیے مہلت ابھی موجود ہے کہ نظر ثانی کریں۔ طوفان کے مقابل وگرنہ کون ٹھہر سکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved