عدم دلچسپی
ایک اخباری اطلاع کے مطابق سندھ میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے کپتان وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ متحرک نظر نہیں آ رہے اور سارا کام رینجرز ہی کو سرانجام دینا پڑ رہا ہے جبکہ پولیس بھی کوئی خاص تعاون نہیں کر رہی اور نہ ہی وزیراعلیٰ ان معاملات میں بریفنگ لینے میں کوئی دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں‘ اگرچہ وہ وزیراعظم کی طرف سے شاباش حاصل کر چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس خدشے کے تحت غیر متحرک ہوں کہ اُن کے لوگ بھی پکڑے جائیں گے اور ان کے سرپرستوں کے نام بھی سامنے آ جائیں گے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال پنجاب میں بھی نظر آ رہی ہے اور زبانی جمع خرچ کے علاوہ عملاً کچھ بھی نہیں کیا جا رہا جو اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ جو کالعدم تنظیمیں اپنے نئے ناموں کے ساتھ سرگرم کار ہیں‘ ان کے خلاف کوئی کارروائی اب تک نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی مدرسے کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے‘ اور تمام تر مدرسوں کو بظاہر کلین چٹ دے دی گئی ہے اور اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یہی ن لیگ کا ووٹ بینک بھی ہے اور وہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا نہیں چاہتی‘ جس سے حکومتی ترجیحات کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے‘ اور یہ ممکن ہی نہیں کہ اس آپریشن کے ہیرو جنرل راحیل شریف اس طرزِ عمل سے بے خبر ہوں۔
کسانوں کی پٹائی
اگلے روز کسانوں کے ایک اجتماع کی پولیس کی طرف سے زبردست دھلائی کی گئی جو ناصر باغ میں جلسے کی اجازت نہ ملنے پر پریس کلب لاہور کے سامنے مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس سے پہلے یہی پولیس نابینائوں کی پٹائی کا کریڈٹ لے چکی ہے۔ کسانوں کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنی ان مراعات کی بحالی کا مطالبہ کر رہے تھے‘ وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی کے دور میں جن سے وہ مستفید ہوتے رہے تھے ا ور جو اب یکسر ختم کردی گئی ہیں اور جن میں ٹیوب ویلز پر بجلی کے فلیٹ ریٹ کے خاتمے‘ کھاد وغیرہ سے سبسڈی کے خاتمے اور فصلات کے صحیح نرخ نہ ملنا وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری طرف یہ اطلاع بھی آ چکی ہے کہ زرداری صاحب نے اپنے ان ارکان اسمبلی اور وزراء کو بلا کر سرزنش کی ہے جو شوگر ملز کے حوالے سے کاشتکاروں کی حمایت میں بیان جاری کرنے کے گناہ کے مرتکب ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ صاحب موصوف کی اپنی 17 شوگر ملیں ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ دونوں بڑی پارٹیاں اپنے آپ کو غریب کسانوں کی نمائندہ کہتی آئی ہیں جبکہ یہی کچھ تھوڑا عرصہ پہلے اوکاڑہ کے کسانوں کے خلاف ہوا جو قدیم مزارع ہیں اور ان سرکاری زمینوں کے حقوق ملکیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جن پر ان کے آبائو اجداد بطور مزارع کام کرتے آئے ہیں۔ اور اس سلسلے میں نہ صرف جیلوں میں سزائیں کاٹ چکے ہیں بلکہ کئی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر چکے ہیں۔
شمشیر حیدر کی شاعری
نوجوان شاعر شمشیر حیدر کا دوسرا مجموعہ کلام ''پانیوں سے الگ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے جو رومیل ہائوس آف پبلی کیشنز نے چھاپا ہے اور اس کی قیمت 250 روپے رکھی ہے۔ اس پر میری رائے پہلے ہی پس سرورق پر درج ہے جو کچھ اس طرح سے ہے:
''یہ غزلیں ان غزلوں سے کئی لحاظ سے مختلف ہیں جو ہمارے اردگرد ٹنوں کے حساب سے تخلیق کی جا رہی ہیں۔ یہ شاعر اس راز کو بخوبی سمجھتا ہے کہ جدید غزل کہاں تک پہنچ چکی ہے اور اسے آگے کس طرح بڑھانا ہے۔ اس کی شاعری نے مجھے خوش کیا ہے کہ عمدہ شاعری ہر روز دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اس میں جدید طرزِ احساس بھی ہے‘ تازگی اور تاثیر بھی۔ مجھے یقین ہے کہ اس کی کتاب شاعری میں اضافہ کرے گی‘ محض شاعری کی کتابوں میں نہیں۔ لگتا ہے کہ شاعری اس پر اُتری ہے‘ اور خوب اُتری ہے‘‘۔
اسی طرح ڈاکٹر خورشید رضوی نے بھی شاعر کی توصیف کی ہے اور لکھا ہے کہ شمشیر حیدر کو معلوم ہے کہ شعر صرف حُسنِ معنی سے نہیں‘ حُسنِ آہنگ سے بھی عبارت ہے۔ اس کی غزل میں عصری شعور جا بجا کلاسیکی پیرہن میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس کا فنی رویہ اس چراغ کا رویہ ہے جس کی لُو تند بادِ زمانہ سے بے نیاز اپنی ہی ضو میں مست ہے۔
اس کتاب کا دیباچہ ہمارے جدید اور جواں سال نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے لکھا ہے جس میں اس شاعری کا انہوں نے اپنے قابل رشک انداز میں تجزیہ کیا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
معاصر اردو غزل کا ایک بڑا مسئلہ (بلکہ المیہ کہنا چاہیے) یہ بھی ہے کہ اس میں ہمیں یکساں نوعیت کے مضامین اور ایک جیسی لفظیات ملتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس زمانے کی غزل کے شاعر ایک طرح سے سوچتے ہیں‘ اصل یہ ہے کہ سوچتے ہی نہیں۔ ایک دوسرے کے خیالات و اسالیبِ اظہار کی جُگالی کرتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں سب سے زیادہ ظفر اقبال کی غزل کی جُگالی کی گئی ہے۔ راقم کی تو یہ رائے ہے کہ نئے شاعروں نے ظفر اقبال سے سیکھا کم ہے اور ان کے شعری حاصلات پر ہاتھ زیادہ صاف کیا ہے... اب اس شاعر کے چند شعر دیکھیے:
تمہیں برباد کرنے کو تمہارا
خمارِ حکمرانی ہی بہت ہے
پیاس ایسی ہے کہ پانی سے جو بجھتی ہی نہیں
جو تعلق مرا دریا سے تھا اب تجھ سے ہے
آسماں دیکھ رفاقت تو اسے کہتے ہیں
بوجھ اٹھا کر مرا چلتی ہے زمیں میرے ساتھ
یہ کیا کہ میں بھی زمانے کا ہو کے رہ گیا ہوں
کہ تو بھی اب مجھے فرصت میں یاد آتا ہے
کون ہر شام مجھ میں آتا ہے
کس پرندے کا آشیاں ہوں میں
اس کتاب میں عمدہ کم ا ور گزارے موافق شعر زیادہ ہیں۔
آج کا مقطع
پھر پچھلے پہر آئینہ اشک میں‘ ظفرؔ
لرزاں رہی وہ سانولی صورت سویر تک