ہمیں تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہمارے پڑوس میں ایک ایسی قوم رہتی ہے جو ترقی کے لاکھ دعووں کے باوجود اب تک ترقی کے بنیادی اُصولوں سے بھی واقف نہیں۔ ہم دھرتی مہاراج یعنی بھارت کی بات کر رہے ہیں۔ ایک زمانے سے سُنتے آئے ہیں کہ بھارت تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ کبھی غلغلہ بلند ہوتا ہے کہ فلاں سال تک بھارت خام قومی پیداوار کے معاملے میں فلاں ملک کو پچھاڑ دے گا۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ بھارت کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں قابلِ رشک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ مگر ہمیں تو یہ ساری باتیں صرف باتیں ہی لگتی ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک خبر آئی کہ بھارت میں 40 پولیس اہلکار ٹرین میں بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ اِس سے بھی زیادہ شرمناک و حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چیکرز نے جب بوگیوں پر دھاوا بولا تو بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے پولیس اہلکار ٹوائلٹ سے برآمد ہوئے!
کہاں ہیں وہ لوگ جو ''چمکتا، دمکتا بھارت‘‘ کا راگ الاپتے نہیں تھکتے؟ کیا یہی ہے چمکتا، دمکتا بھارت؟ کیا یہی ہوتے ہیں چمکنے اور دمکنے کے اطوار؟ یہ کیسا ترقی پذیر ملک ہے جس کی پولیس نے اب تک ''ترقی کے آداب‘‘ نہیں سیکھے؟
ہم نے تو اپنی پولیس کو دیکھ کر سیکھا ہے کہ اپنے وطن کی ہر چیز اپنی ہے۔ جو کچھ بھی اچھا لگے، اُسے اپنائیے، گلے لگائیے بلکہ گھر لے جائیے۔ کس کی مجال ہے کہ آپ کی آزاد رَوی کی راہ میں دیوار بن سکے؟ اگر آزادی پاکر اِتنا بھی نہ کیا تو پھر کیا جیا!
بھارت میں بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے پولیس اہلکاروں کی گرفتاری نے کئی نکات بے نقاب کردیئے۔ مثلاً
٭ بھارت میں ٹکٹ نہ لے کر ٹرین کا سفر کرنے کا چلن آج بھی اِتنا عام ہے کہ پولیس اہلکار بھی اِس چلن سے مستثنیٰ نہیں!
٭ ملک کے بیشتر شہری علاقوں میں کروڑوں لوگوں کو بھلے ہی گھر کے اندر ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہ ہو، بھارتی ٹرینوں میں آج بھی نہ صرف یہ کہ ٹوائلٹس ہیں بلکہ intact بھی ہیں!
٭ بھارتی ٹرینوں میں نہ صرف یہ کہ ٹکٹ چیک کرنے کا رواج ہے بلکہ ٹکٹ چیکرز اِتنے ہمت والے ہیں کہ پولیس اہلکاروں سے بھی ٹکٹ طلب کرتے ہیں اور ٹکٹ نہ ہونے کی صورت میں اُنہیں پکڑوا بھی سکتے ہیں!
ہوسکتا ہے کہ آپ پولیس اہلکاروں سے ٹکٹ طلب کرنے کو چیکرز کی طرف سے شجاعت کا اظہار قرار دیں مگر ہمارے نزدیک معاملہ اِس کے برعکس ہے‘ یعنی پولیس اہلکار نِرے بُزدل ثابت ہوئے!
اکیسویں صدی کا ڈیڑھ عشرہ گزر چکا‘ لیکن بھارت اب تک انگریزوں کے دور میں جی رہا ہے یعنی بھارتی باشندے قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہیں! کیا وہ بھول گئے ہیں کہ اُن کا ملک 15 اگست 1947ء کو آزاد ہوگیا تھا؟ اگر یاد ہے تو پھر ''آزادی‘‘ کے ساتھ زندگی کیوں بسر نہیں کر رہے؟ انگریزوں کے دور کی قانون پسندی اب تک اُن کے دِل و دِماغ میں کیوں بسی ہوئی ہے؟ کیا وہ ایسی حرکتوں سے ہمیں شرمندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں!
ہم نے اپنی سرکاری مشینری کو دیکھ کر سیکھا ہے کہ ملک میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کا ہے۔ یعنی جو کچھ سرکاری ملکیت میں ہے وہ باپ کا مال ہے، شیرِ مادر ہے۔ گویا اپنی ہی چیز ہے۔ لے اُڑو، کوئی جواب طلب نہ کرے گا۔ کیوں کرے؟ سب کچھ ہمارا ہی تو ہے۔ اب اگر ہم اِس بات کو عملاً ثابت کریں تو اِس میں حیرت کیسی؟ ہمیں تو حیرت ہے کہ بھارت میں اب تک ٹکٹ چیکرز کو ڈھنگ سے ٹریننگ بھی نہیں دی گئی۔ بھلا کوئی پولیس والوں سے بھی ٹکٹ طلب کرتا ہے؟ کیا آزادی اِسی کا نام ہے؟ اگر یہ آزادی ہے تو پھر غلامی کیا ہوگی؟
دُنیا ہمیں دیکھے اور سیکھے کہ آزادی کیا ہوتی ہے اور کیا کیا مزے کراتی ہے۔ 14 اگست 1947ء کو اپنا وطن قائم ہوتے ہی ہم نے ہر طرح کی غلامی سے ایک ہی جھٹکے میں نجات حاصل کرلی تھی۔ خوشی خوشی جینے اور زندگی کا بھرپور لطف پانے کا یہ ''زرّیں نُسخہ‘‘ ہم نے ابتدائی مرحلے ہی میں سیکھ لیا تھا کہ سب سے بڑی غلامی ہوتی ہے قانون کی۔ جو لوگ قانون پر عمل کرتے رہتے ہیں وہ کبھی نہیں جان پاتے کہ آزادی ہوتی کیا ہے! قدم قدم پر کوئی نہ کوئی قدغن ہو تو چلنے میں کیا خاک مزا آئے گا؟ جینا تو ویسا ہی کھلّا ٹلّا ہونا چاہیے جیسا کہ ہمارا جینا ہے۔
بھارت علاقائی سپر پاور کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ عالمی معیشت میں پتا نہیں کون کون سا کردار ادا کرنا چاہتا ہے‘ مگر افسوس کہ بھارتی باشندوں کے پیروں میں آج بھی قوانین کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں۔ بات بات پر پوچھ گچھ، قدم قدم پر قواعد و ضوابط۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہوئی؟ جس ملک کی ٹرین میں پولیس والے مُفت سفر کا مزا نہ لوٹ سکیں اُس کے عام باشندے آزادی کا لطف کیا خاک پائیں گے! یہ تو سراسر زیادتی ہے کہ پولیس والے ٹرین میں سوار ہوئے تھے سفر کے لیے اور بے چاروں کو چیکرز کے ہاتھوں suffer کرنا پڑا! شری مان چیکرز! ایسا کروگے تو کون آئے گا!
ہم اپنے مقدر پر جتنا بھی رشک کریں، کم ہے۔ صد شکر کہ ہمارے پولیس اہلکار ایسے بزدل نہیں کہ ٹرین میں مفت سفر بھی نہ کرسکیں! ٹرینوں میں ٹوائلٹس ہم نے بہت پہلے ہی ختم کردیئے تھے تاکہ چیکنگ کی صورت میں چھپن چھپائی کا مسئلہ ہی کھڑا نہ ہو۔ جب چھپنے کی کوئی جگہ ہی نہ رہے تو مُفت سفر کرنے والے کے پاس صرف دیدہ دِلیری کا آپشن رہ جاتا ہے! اور کس چیکر کی ہمت ہے کہ کسی پولیس والے سے ٹکٹ طلب کرے؟ سچ تو یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی چیکر کسی پولیس والے سے ٹکٹ طلب کربیٹھے تو ہمیں یقین ہے کہ اُسے (چیکر کو) چھپنے کے لیے ٹوائلٹ نہیں ملے گا!
اللہ نظرِ بد سے بچائے، ہماری پولیس نے کئی نئے اور مفید تصورات کو جنم دیا ہے جن سے معیشت کو پنپنے کی راہ ملی ہے‘ مثلاً قُلیوں کے ساتھ مل کر مسافروں کو زحمت سے بچانا۔ وہ کیسے؟ تو وہ ایسے کہ تھوڑا سا زرِ اعانت لے کر لوگوں کو واشنگ یارڈ ہی سے ٹرین میں سوار کرا دینا تاکہ وہ اپنی مرضی کی سیٹ آسانی سے حاصل کرلیں! ایسا ہوتا ہے facilitator کا کردار۔ یہ تصور اب تک کسی بھی ترقی یافتہ ملک یا اُبھرتی ہوئی معیشت میں دکھائی نہیں دیا۔ جب گاڑی پلیٹ فارم پر لگتی ہے تو دھکّم پیل میں لوگوں کو سیٹیں آسانی سے نہیں ملتیں۔ پلیٹ فارم پر پڑے پڑے دو تین گھنٹے تک سیٹ کے حصول کی فکر ذہن پر سوار رہے تو انسان سفر کے شروع ہونے سے پہلے ہی تھک جاتا ہے! اہلکار مسافروں کو واشنگ یارڈ ہی سے ٹرین میں سوار کراکے اُس کی ساری پریشانی واش کر ڈالتے ہیں!
پولیس کو دیکھ کر آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ خوف، نا! یعنی پولیس کو جی دار ہونا چاہیے۔ مجرم کسی بھی پولیس والے سے اُسے وقت ڈریں گے جب اُس میں جی داری دیکھیں گے۔ اور جی داری اِس کے سِوا کیا ہے کہ جو جی میں آئے کرو، بلکہ کر گزرو۔ اور اِس معاملے میں کہیں خوف کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔ جو ڈر گیا، سمجھو مرگیا۔ یعنی گھر گیا! اگر کوئی پولیس والا کسی سے ڈر جائے تو پھر اُس سے کسی معاملے میں شجاعت کے مظاہرے کی توقع نہیں کی جاسکتی! ایسے اہلکار اپنے ہی محکمے میں خلائی مخلوق کا سا درجہ پاتے ہیں یعنی سب اُن سے جان چھڑانے کے فراق میں رہتے ہیں!
اچھا ہے کہ ہم اب تک قانون پسندی کے پھیر میں نہیں پڑے ورنہ اکیسویں صدی میں جینے کا سارا لطف جاتا رہتا۔