تقریباً ایک ماہ سے ایسی خبریں تھیں کہ آئندہ انتخابات کی صورت میں وزیراعظم نوازشریف نے اسحاق ڈار کی بجائے میاں شہباز شریف کا نام فائنل کر لیا ہے۔ پھر سب نے دیکھا کہ جیسے ہی وزیراعظم نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے رضامندی ظاہر کی تو ساتھ ہی مستقبل کے وزیراعظم کے طور پر شہباز شریف کا نام میڈیا میں آنا شروع ہو گیا۔ دیکھا جائے تو یہ خبر اچانک یا غیر متوقع نہیں تھی کیونکہ خاندانی بادشاہت کیلئے نئے ولی عہد کی نامزدگی اسی طرح ہوتی ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ میاں شہباز شریف کی امریکی سفیر سے تسلسل سے ہونے والی ملاقاتیں اور برطانیہ ، ترکی اور چین کی با ر بار یاترا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں تاکہ ان سب کو اپنے لئے راضی کیا جا سکے۔ حالیہ دورۂ سعودی عرب میں وزیراعظم کسی اور اکائی کو نہیں بلکہ پنجاب سے اپنے بھائی کو ساتھ لے کر گئے تھے۔ اب چوبیس مارچ کو شہبازشریف چین کے تین روزہ دورہ پر گئے ہوئے ہیں اور ان کے وفد میںمرکزی وزراء ہیں‘ نہ جانے کس حیثیت میں۔ یہی کام کوئی دوسرے صوبے کا وزیر اعلیٰ اگر کرنا شروع کر دے تو اس پر پتہ نہیں کیا کیا لیبل لگنا شروع جائیں گے۔
نواز لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد جوڈیشل کمیشن کے قیام کیلئے رضامندی کا اعلان سامنے آ چکا ہے۔ گوکہ ابھی نہ تو صدارتی آرڈیننس جاری ہوا اور نہ ہی اس کی با قاعدہ تشکیل ہو سکی ہے لیکن اگر تحریک انصاف آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے صاف نظر آئے گا کہ مسلم لیگ نواز نے اسی سال متوقع عام انتخابات کی تیاری کرتے ہوئے انتخابی مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ نواز لیگ کے کارناموں کی بھر پور تشہیر کا با قاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہاہے کہ جوڈیشل کمیشن کی انکوائری مکمل ہونے سے پہلے ہی مسلم لیگ ن انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرنے والی ہے۔ اگر اس عمل کو ستمبر میں ہونے والے پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے ساتھ جوڑا جائے تو بات بنتی نظر نہیں آتی‘ کیونکہ میاں برادران کے قریبی حلقوں کے مطابق دونوں بھائیوں نے خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ میں اپنے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے الیکٹ ایبل وفادار ساتھیوں کو انتخابی مہم شروع کر نے کا اشارہ بھی دینا شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے انتظامیہ کو کہہ دیا گیا ہے کہ انہیں ترقیاتی فنڈز اور تمام سہولتیں اور مراعات فراہم کی جائیں۔ بعض انٹیلی جنس اداروں میں قائم انتخابی سیلوں سے پنجاب کے ہر حلقے سے اپنی اور کسی بھی دوسری جماعت‘ خاص طور پر تحریک انصاف کے ممکنہ امیدواروں کا ڈیٹا اور عوامی مقبولیت کا گراف حاصل کیا جا رہا ہے۔ اگر 2015ء کے متوقع عام انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے ن لیگ اور تحریک انصاف کا جائزہ لیا جائے تو ن لیگ کو اس وقت تحریک انصاف پر اس حد تک برتری ضرور حاصل ہے کہ اس کے ممکنہ امیدوار انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے سوائے چند ایک مرکزی لیڈران کے‘ کسی اور کو خبر ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ دوسرا سب سے بڑا سیٹ بیک یہ ہے تحریک انصاف کے پاس ایک حلقے میں اس وقت پانچ سے زیا دہ امیدوار کمر کسے بیٹھے ہیں اور ظاہر ہے کہ ٹکٹ تو کسی ایک کو ہی ملے گا۔ اس سے تنظیمی اختلافات بھی سامنے آئیں گے۔ عمران خان اب پھر وہی غلطی کرنے لگے ہیں کہ بہتر امیدواروں کے چنائو کی بجائے وہ اپنا اور جماعت کا قیمتی وقت اور طاقت انٹرا پارٹی الیکشن کے جھگڑوں میں ضائع کرنے جا رہے ہیں۔
حال ہی میں تحریک انصاف میں شامل ہونے والے سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور‘ جنہیں اس وقت پارٹی امور پر عمران خان کی مکمل سپورٹ حاصل ہے‘ بڑی ہی خاموشی سے پنجاب کے
چند اضلاع سے الیکٹ ایبل امیدواروں کی فہرست عمران خان کے حوالے کر چکے ہیں۔ اس فہرست میں مسلم لیگ نواز کے موجودہ اراکین اسمبلی میں سے بعض نام بھی شامل ہیں۔ اگر یہ فہرست منظور ہو جاتی ہے تو تحریک انصاف کے کل اور آج کے امیدواروں کا آپس میں ٹکرائو ہو نے کا بھی اندیشہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قربانی نئے آنے والوں سے مانگی جائے گی یا پہلے والوں سے؟ تحریک انصاف کے پارلیمانی گروپ‘ جوڈیشل کمیشن قائم ہونے کے بعد سندھ، پنجاب اور قومی اسمبلی میں واپس آنے کے اشارے دے رہے ہیں۔ اگر جوڈیشل کمیشن کی انکوائری اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی تو معاہدے کے تحت وزیر اعظم نواز شریف فوری طور پر اسمبلیوں کی تحلیل کے پابند ہوں گے۔ اس کے بعد تحریک انصاف سے مشاورت کرنے کے بعد ہی کسی عبوری حکومت کی تشکیل کی جائے گی ۔ اسمبلیوں میں واپسی کی بات کر نے والے تحریک انصاف میں موجود قانون دانوں میں سے یا ان کی کور کمیٹی میں بیٹھے ہوئے کسی ایک نے یہ رائے دینے کی بھی کوشش کی ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھنے کی بجائے عدلیہ سے رجوع کرتے ہوئے فیصلہ لے لیا جائے کہ ان اراکین اسمبلی کی
واپسی ممکن ہو سکتی ہے جنہوں نے اسمبلیوں کی رکنیت سے اپنے ا ستعفے متعلقہ اسمبلیوں کے سپیکرصاحبان کے حوالے کئے ہوئے ہیں اور اپنے ان استعفوں کے اعلانات ایک نہیں کئی بار سب کے سامنے اس طرح کر چکے ہیں اور ان کی بیانات کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ جگہ جگہ محفوظ ہے۔ نواز لیگ کے ساتھ ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے معاہدے سے اگر تحریک انصاف کے اراکین اسمبلیوں میں واپس آ جاتے ہیں اور پھر کوئی ایک شہری ان کی نا اہلیت کے بارے میں عدالت سے رجوع کر لیتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے فرزند ارسلان افتخار ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کر چکے ہیں کہ ان سب کے استعفے منظور کرتے ہوئے ان کی خالی ہونے والی نشستوں پرنئے سرے سے انتخابات کروا دیئے جائیںاور یہ عدالتی پٹیشن سماعت کیلئے منظور بھی ہو چکی ہے تو صورتحال کیا ہوگی؟ تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے سربراہان مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی خان، محمود اچکزئی اور دوسرے اس حوالے سے کئی بار مطالبہ کر چکے ہیں کہ ان کے استعفے فوری طور پر منظور کئے جائیں۔
فرض کیجئے کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اسمبلیوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور بعد میں کسی عدالتی فیصلے سے ان کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے تو اس سے ان کی شرمندگی اور اخلاقی حالت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے ؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ اس کی بجائے وہ قانون کا راستہ تلاش کرتے ہوئے واپسی کا فیصلہ لے لیں!!