عالمی افق پر ایک نیا جنگی محاذ کھل چکا ہے ، پاکستانی شمولیت کا جس میں امکان ہے ۔ یمنی صدر منصور ہادی کی درخواست پر خلیجی ریاستوں نے حکومت پر قابض حوثی قبائل کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا ہے ۔ایران نے فوری طور پر اس کی مذمّت کی ہے ۔ محاذِ جنگ کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ صرف سعودی عرب کے 100 جنگی ہوائی جہاز اور ڈیڑھ لاکھ فوجی اس میں شریک ہیں ۔ خلیجی ذرائع ابلاغ کے مطابق خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان نے بھی اس جنگ میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ دوسری طرف دفترِ خارجہ کے مطابق سعودی عرب نے پاکستانی مدد طلب کی ہے ، جس کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔ ایک دہائی سے دہشت گردی کی جنگ میں ہم گردن تک دھنسے ہوئے تھے اور بمشکل تمام اب بتدریج باہر نکل رہے ہیں ۔ اس صورتِ حال میں ہمیشہ سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔
مشرقِ وسطیٰ اور اس سے ملحق خطے میں اثر و رسوخ اور اپنی حامی حکومتوں کے قیام کی عرب ایران کشمکش کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔گزشتہ دہائی میں خطے میں ایرانی مفادات تیزی سے آگے بڑھے ہیں ۔ افغانستان اور عراق میں طالبان اور صدام حسین کی صورت میں ایران مخالف حکومتوں کا خاتمہ ہوا۔ 2006ء کی جنگ میں ایرانی بنیادیں رکھنے والی حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف سخت مزاحمتی قوّت کا اظہار کیا۔ مصر کی فوجی حکومت سعودی عرب کی قریبی حلیف سمجھی جاتی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اخوان کا تختہ الٹ کر دوبارہ جب فوج برسرِ اقتدار آئی تو اسے ہر ممکن مدد فراہم کی گئی ۔
شام کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ۔ بشار الاسد کے خلاف مظاہرے اور مسلّح کارروائیاں شروع ہوئیں تو خلیجی ممالک پُرجوش تھے ۔ وہ اس اندازمیں شامی حکومت گرائے جانے کے خواہشمند تھے، جس طرز پر لبیا میں معمّر قذافی کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ عراق اور لبیا وہ مثالیں ہیں ، جہاں وقتی مفاد کی خاطر امریکی اتحاد نے مرکزی حکومت کا خاتمہ تو کردیا لیکن اس کے بعد انہیں خانہ جنگی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔یہ بات صاف ظاہر تھی کہ بشار الاسد کی حکومت گری تو شام پکے ہوئے پھل کی طرح مشرقِ وسطیٰ میں غلبہ پاتی انتہا پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی جھولی میں جا گرے گا۔ امریکہ اور مغرب عوامی سطح پر اور ایوانوں میں سخت ترین ردّعمل کے پیشِ نظر شام میں مداخلت سے باز رہے۔ سعودی عرب نے اس پراپنے پرانے حلیف امریکہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ایرانی حلیف بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ خلیجی ریاستوں کے لیے سنہری خواب تھا،تاحال جو تعبیر سے ہمکنار نہیں ہو سکا۔
عرب ایران تنازعے میں طرفین نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے ہمسایہ عرب ممالک میں حکومتیں بدل دینے کا خواب دیکھا ؛حالانکہ زیادہ تر ریاستوں میں شیعہ اقلیت تھے ۔ دوسری طرف تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستیں دفاعی میدان میں لاچار تھیں ۔اپنی دفاعی کمزوریوں کی وجہ سے خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ نے انہیں ضرورت سے زیادہ پریشان کر دیا۔ ادھر امریکی و مغربی ممالک کے لیے یہ ان خطرات کو بڑھاچڑھا کر پیش کرنے اور کھربوں ڈالرکا دفاعی سازو سامان بیچنے کا ایک عمدہ موقع تھا، جس سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ 2014ء میں سعودی عرب دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار درآمد کرنے والا ملک تھا۔ برسبیلِ تذکرہ پچھلے پانچ برس کا ڈیٹا لیا جائے تو بھارت فوجی سازو سامان خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ۔ اس صورتِ حال نے پاکستان کو مستقل دبائو کا شکار کر رکھا ہے ۔
جوہری پروگرام پر عائد عالمی (امریکی )پابندیوں نے ایرانی معیشت کو سخت بحران سے دوچار کر رکھا تھا۔ پہلی بار فریقین 31مارچ تک کسی قابلِ عمل معاہدے تک پہنچنے کے لیے پُر امید ہیں ۔ ایران کو محدود مقدار میں یورینیم افزودگی کی اجازت دے دی جائے گی ۔گو کہ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ سخت عالمی نگرانی میں وہ ایٹمی ہتھیار بنا پا ئے گا۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ بہرحال وہ ایک خطرناک ٹیکنالوجی سیکھتا چلا جا رہا ہے ۔اس پسِ منظر میں دو ہفتے قبل ایک سعودی شہزادے نے یہ بیان دیا تھا: ایٹمی معاملے پر عالمی برادری جو کچھ ایران کو دے گی، سعودی عرب کو بھی وہی کچھ دینا ہوگا۔ عالمی پابندیوں کے خاتمے سے تیل و گیس کے ذخائر سے مالا مال ایرانی معیشت دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی ۔ دوسری طرف دفاعی طور پرخطے میں وہ ایک مضبوط اور منفرد طاقت ہے ۔ یمن کے ساتھ سعودی عرب 1800کلومیٹر طویل سرحد رکھتاہے ۔ یہاں حالات کی خرابی سے براہِ راست اسے خطرہ درپیش ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یمنی سرحد پر وہ سینسر اور کیمروں سمیت جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس دیو قامت باڑ لگا رہا ہے ۔ اسی پسِ منظر میں باربار یہ بات سننے میں آتی ہے کہ سعودی عرب پاکستان سے فوج مانگ رہا ہے، جو مستقل طور پر جزیرہ ء نمائے عرب میں مقیم رہے ۔
یمن کی صورتِ حال انتہائی پیچیدہ ہے ۔ یہاں ایرانی حمایت یافتہ حوثی شیعہ قبائل ہی نہیں ، سنّی قبائل، القاعدہ ، دولتِ اسلامیہ ، ایران اور خلیجی ممالک کی صورت میں بہت سے متحارب حریف بھی موجود ہیں ۔حال ہی میں دولتِ اسلامیہ نے حوثی قبائل پر خودکش حملے کیے۔ گزشتہ برس ستمبر میں حوثیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ اب تک تین بڑے شہروں پر وہ حاوی ہو چکے ہیں ۔ عدن ان میں سب سے اہم ہے ۔ ایشیا او رافریقہ کے درمیان بہنے والا بحیرۂ احمر یہاں ایک تنگ گزرگاہ آبنائے باب المندب میں بدل جا تاہے ۔ یہاں سالانہ بیس ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں ۔ عدن پر حوثی اگر مضبوط اور دیرپا قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو سعودیوں سمیت خطے کے لیے یہ ایک تکلیف دہ صورت ہوتی۔ ادھر ریاست کا اہم جنگی سازو سامان حوثیوں کے قبضے میں ہے ۔
یمن میں فوجی مداخلت سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں جوہر ی تبدیلی ہے ۔ خلیجی ممالک ، ایران عرب کشمکش اور خودپاکستان کے لیے بھی یہ عظیم اثرات کا حامل ہو سکتاہے ۔ پاکستانی فوجی و سیاسی قیادت کو خوب سوچ سمجھ کر باہم مشورے سے اس پیچیدہ صورتِ حال میں اپنا لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ مشرق میں بھارت اور مغرب میں افغان سرحد پر شدید خطرات پہلے ہی سے لاحق ہیں ۔ ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہمارے لیے انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتاہے ۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ یمنی جنگ کے نتیجے میں ایران عرب کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی ۔