تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     28-03-2015

اس آگ سے بچنا بہتر ہے

پہلے تو اس محاذ آرائی کاجائزہ لیتے ہیں‘ جس میںہم سمندر پار جاکے کود پڑے ہیں۔ بنیادی طور سے یہ عرب ملکوں کی باہمی کشمکش ہے۔ تھوڑا سا پھیل کریہ عربوں اور عجمیوں کی لڑائی بھی ہے‘ جس کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ امریکہ اپنے مقاصد کے تحت اس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ سعودی عرب کے کیمپ میں بحرین‘ کویت‘ قطر اور متحدہ عرب امارات کے پانچ ملک شامل ہیں۔ جبکہ سوڈان‘ مراکش‘ مصر اور پاکستان عملی تعاون کریں گے۔دوسری طرف ایران‘ عراق‘ شام اور حزب اللہ کا بلاک ہے۔ ان دو بلاکوں میں جداگانہ پالیسیاں رکھنے والی کچھ طاقتیں بھی ہیں‘ جن میں ایک داعش اور دوسری لبنان کی حکومت ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں جو بلاک یمن کے سوال پر بنایا گیا ہے‘ اس میں اکثریت سنی عقیدے کے مسلمانوں کی ہے۔ لیکن ایران کی موجودہ حکومت شیعوں کی ہے اور داعش کے خلاف عراق اور سعودی عرب علیحدہ سے اتحادی ہیں۔ مصر کے اپنے عزائم ہیں۔ اس وقت تو وہ سعودی عرب کی حمایت میں اپنی بحری افواج کو حرکت میں لایا ہے اور اس کے جہاز عدن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے‘ اب تک وہ عدن سے کچھ فاصلے پر گہرے پانیوں میں کھڑے ہوں۔ آپ مصر اور یمن کے پرانے رشتوں کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ ایک عرصے تک یمن کے ایک حصے میں صدر ناصر کے حامیوں کی حکومت تھی اور دوسرے حصے میں سعودی عرب کے حامیوں کی اور یہ دونوں یعنی مصر اور سعودی عرب‘ یمن کے سوال پر ایک عرصے تک محاذآرائی کرتے رہے ہیں۔آج مصر ضرور سعودی عرب کے اتحادی کی حیثیت سے میدان میں اترا ہے مگر کون جانتا ہے‘ دونوں طرف کے دیرینہ قومی عزائم‘ نئے حالات میں کس طرح ظاہر ہوتے ہیں؟
مجھے ایک پاکستانی سیاستدان کی یہ بات نہیں بھولتی‘ جو اس نے امریکی عزائم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی تھی۔ اس نے کہا ''شرق اوسط میں امریکہ وہی کچھ کرے گا‘ جو اسرائیل کے مفاد میں ہو گا۔‘‘ گویا اس وقت امریکہ‘ سعودی عرب کا حمایتی دکھائی دے رہا ہے لیکن وہ شرق اوسط میں بدامنی اور شورش کو فروغ دے کر ‘ اسرائیل کے آئندہ عزائم کی تکمیل کے راستے ہموار کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ داعش کے مقبوضہ علاقوں پر بمباری کر رہا ہے اور دوسری طرف داعش کے پھیلائو میں مددگار بھی ہے۔ اسی کے اشاروں پر داعش کے نمائندے افغانستان میں داخل ہوئے ہیں اور وہیں سے پاکستانی دہشت گردوں کے ساتھ رابطے قائم کر کے‘ ہمارے ملک میں اپنی شاخیں قائم کرنے میں لگے ہیں۔ شرق اوسط کے ملکوں کی اس باہمی اور ہمہ پہلو جنگ میں کود کر‘ ہمیں کیا حاصل ہو گا؟ اب تک ہماری پوزیشن یہ رہی ہے کہ تمام عرب ملکوں کے ساتھ ہم نے ہمیشہ اپنے تعلقات استوار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ مگر جنگ میں کودنے کے بعد ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ ہمیں کس کس سے لڑنا پڑے گا؟ ایران تو اس متحدہ محاذ کا فطری ہدف ہے‘ جس کا حصہ پاکستان بن رہا ہے۔ اس بلاک میں شامل ہونے کی وجہ سے ہم ایران کے خلاف جنگ میں حصے دار بن جائیں گے۔ ظاہر ہے‘ جواب میں ایران کو بھی اپنا ردعمل دکھانا ہو گا۔ یاد رہے‘ پاکستان کی کوئی منتخب حکومت بیگانی جنگ میںنہیں کودی۔ حتیٰ کہ نوازشریف کے دور میں جب کویت کو صدام کے قبضے سے آزاد کرانے کے لئے پاکستان سے مدد مانگی گئی‘ تو ہم نے انکار کر دیا تھا۔یہ پہلی جمہوری حکومت ہے‘ جو امریکہ کے ایما پر اپنی جغرافیائی سرحدوں سے دور جا کے جنگ میں حصہ لینے کو تیار ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ جس خطے میں یہ جنگ شروع ہوئی ہے‘ وہاں کا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر مصر ہے۔ اس وقت مصر کی حکومت‘ امریکہ کی اتحادی ہی نہیںبلکہ براہ راست زیراثر بھی ہے۔ وہ ایک بار پہلے بھی یمن میں اپنے حامیوں کی سرپرستی کر چکی ہے اور جیسے جیسے جنگ آگے بڑھے گی‘ یمن پر مصر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ سعودی عرب کی ڈیڑھ لاکھ فوج اندرون ملک اور مختلف اطراف میں پھیلی سرحدوں کی ضروریات کے لئے بھی ناکافی ہے۔ مصر کو یہ مسئلہ درپیش نہیں۔ وہ بغیر کسی مشکل کے‘ یمن میں اتنی فوج اتار سکتا ہے‘ جو وہاں پر کنٹرول قائم کر سکے۔شرق اوسط میں ملکوں کے مابین اکثر محاذ آرائیاں رہتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ ایک ملک دوسرے کے خلاف فوجی کارروائی کر ڈالتا ہے اور براہ راست کارروائی نہ کرے‘ تو وہاں کے باغیوں کی درپردہ مدد کرنے لگتا ہے۔ طرح طرح کے تنازعات‘ فرقہ ورانہ اختلافات ‘ علاقائی جھگڑوں سے بھرے ہوئے اس خطے میں شریک جنگ ہو کرہم کیا حاصل کریں گے؟ اول یہ کہ جس علاقے کی جنگ میں حصہ لینے کی ہم تیاریاں کر رہے ہیں‘ وہاں پر ہمارا مفاد کیا ہے؟ ہو سکتا ہے‘ سعودی عرب نے پاکستان کے ارباب اقتدار میں سے ‘موقع بہ موقع کسی فرد کی سرپرستی کی ہو۔ لیکن بطور ریاست پاکستان کا اس جغرافیائی خطے میں کیا مفاد ہے؟جن حکمرانوں کی سعودی عرب نے مختلف مواقع پر اعانت کی‘ ان میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ جنرل ضیاالحق بھی تھا۔ پرویزمشرف بھی تھا۔ نوازشریف بھی تھے۔ لیکن افراد پر کئے گئے احسانات کا قرض ریاستیں نہیں اتارا کرتیں۔
امریکہ کے ساتھ اکثر ہم پہلے بھی سردوگرم جنگوں میں حصے لیتے رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران ہم نے روسی بلاک کے خلاف محاذ آرائی کر کے‘ اپنا بے پناہ نقصان کیا۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ مستحکم کرنے کے لئے سوویت یونین نے جو کردار ادا کیا‘ اسے ہم کبھی بھول نہیں پائیں گے۔ امریکہ ہی کے کہنے پر ہم نے افغانستان میں مداخلت کی اور اپنے وطن کو دہشت گردوں سے بھر کے بیٹھ گئے اور آج ہماری فوجیں‘ بیرونی دشمن سے لڑنے کے بجائے‘ اپنے ہی ملک کے اندر جنگ لڑ رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ سعودی عرب سے ہمارے حکمرانوں کی دوستی اور محبت ہمیشہ امریکیوں کے کہنے پر بیدار ہوتی ہے۔ آج بھی جن ملکوں نے سعودی عرب کے ساتھ مل کر یمن میں مداخلت کا منصوبہ بنایا ہے‘ ان سب کو جمع کرنے والا امریکہ ہے۔ ماضی میں ہم نے بارہا ‘ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے مفادات قربان کئے۔ لیکن جب اس کے مقاصد پورے ہو گئے ہیں‘ تو اس نے منہ پھیرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی اور خود امریکہ سعودی عرب کا کتنا خیرخواہ ہے؟ اس کا اندازہ اگلے چند مہینوں میں ہو جائے گا۔جو جنگ امریکی سرپرستی میں شروع کی گئی ہے‘ اس کے دو خطرناک نتیجے تو میڈیا میں زیربحث آ چکے ہیں۔ اول سعودی عرب میں داعش کی طرف سے اپنی خلافت قائم کرنے کا دعویٰ۔ داعش کسی بھی وقت ‘ سعودی عرب کے اندر سر اٹھا سکتی ہے۔ القاعدہ کے منتشر گروہ ایک ایک کر کے‘ بغدادی کی بیعت کر رہے ہیں اور اس کی نظریں حرمین شریفین پر ہیں اور دوسرے جن باغیوں پر سعودی عرب نے یمن میں فضائی حملے کئے ہیں‘ انہیں مسلمانوں کا کوئی بھی بڑا طبقہ فکر‘ مکمل مسلمان تسلیم نہیں کرتا۔ سعودی عرب اور اس کے ساتھی ملکوں میں حوثیوں کو راسخ العقیدہ مسلمان نہیں سمجھا جاتا۔ ایرانی بے شک اپنی
جغرافیائی ضروریات کے تحت حوثیوں کی مدد کر رہے ہوں۔ لیکن ایرانی علما جو کہ ارباب اقتدار بھی ہیں‘ حوثیوں کو راسخ العقیدہ شیعہ بھی نہیں مانتے۔ یہ ایک علیحدہ فرقہ ہے‘ جسے زیدی کہا جاتا ہے۔ اس کے نزدیک حرمین شریفین کو وہ قدرومنزلت حاصل نہیں‘ جو باقی تمام فرقوں کے مسلمانوں کے نزدیک ہے۔ اس کے لیڈروں سے یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ وہ خاکم بدہن‘ حرمین شریفین پر بھی میزائل پھینک سکتے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے‘ تو لازمی طور پر حوثی کسی نہ کسی انداز میں اسرائیلیوں کے زیراثر ہیں۔ یہودیوں کا دیرینہ خواب ہے کہ مسلمانوں کو ان کی مرکزیت سے محروم کرنے کے لئے نعوذباللہ حرمین شریفین سے محروم کر دیا جائے۔ حوثیوں کے اگر یہی کافرانہ عزائم ہیں‘ تو ان میں استعداد ہو یا نہ ہو‘ اسرائیلی یہ مذموم حرکت خود کر کے‘ حوثیوں کو موقع دیں گے کہ وہ اس بھیانک جرم کی ذمہ داری خود اٹھا لیں۔ میں نے ان امکانات کی طرف چند اشارے کئے ہیں‘ جو عرب دنیا میں شروع ہونے والی اس نئی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ عقیدوں اور مسالک کی جنگ اگر شروع ہو گئی‘ تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ ایران جغرافیائی طور پر سعودی عرب سے زیادہ‘ ہمارے قریب ہے۔ ان دونوں ملکوں کی باہمی محاذ آرائی میں ہم کسی ایک کے ساتھی نہیں بن سکتے۔ غیر جانبدار رہنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔ پاکستان کی آبادی کے بڑے حصے‘ ان دونوں ملکوں کے ساتھ جذباتی رشتے رکھتے ہیں۔کسی ایک کے حامی‘ دوسرے پر غالب نہیں آ سکتے۔ بے شک سنی العقیدہ آبادی تین چوتھائی ہو اور شیعہ ایک چوتھائی۔ لیکن کم ہونے کے باوجود‘ ان کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔افغانستان میں شیعہ مسلک رکھنے والا ہزارہ قبیلہ‘ بھاری سنی اکثریت کے جارحانہ طرزعمل کے باوجودختم نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان میں جو انتہاپسند ‘ شیعہ کمیونٹی کی عبادت گاہوں اور ممتاز شخصیتوں پر حملے کرتے ہیں‘ وہ فرقہ ورانہ منافرت پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور نہ ہو سکیں گے۔لیکن پاکستان کی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اس چنگاری کو بھڑکنے
سے روکیں۔ مجھے خوشی ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب کی جنگ میں فریق بنتے دیکھ کر ‘ ہمارے بیشتر علمائے کرام نے بیک زبان ایک ہی بات کہی ہے کہ ہمیں اس جنگ کے فرقہ ورانہ اثرات سے دور رہنا چاہیے۔عربوں کی جنگ میں ہماری شرکت ‘ اسلامی برادری میں ہماری ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ہماری مجبوری ہے کہ تمام اسلامی ملکوں کے ساتھ دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات رکھیں اور ان کے باہمی تنازعات میں فریق بننے سے گریز کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved