تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     28-03-2015

اشتہاری مہم اور عورتوں کا احترام

خاتون نے کہا: بھارت میں غیر مسلموں نے کبھی ہمیں ایسی نظروں سے نہیں دیکھا‘ جیسا ہمارے مسلمان بھائی ہمیں پاکستان میں گھور رہے ہوتے ہیں۔ کیا پاکستان میں سبھی مرد عورتوں کو ایسی ہی بُری نظروں سے دیکھتے ہیں؟ مقبوضہ کشمیر کے شہر جموں سے آئی ہوئی خاتون کی بات سُن کر میں سخت شرمسار ہوا۔ خاتون نے کہا: واہگہ بارڈر سے ہم گجرانوالہ گئے تو ہمارے رشتہ داروں نے بتایا کہ یہاں کا ماحول ایسا نہیں کہ عورتیں آزادی سے گھوم سکیں‘ لہٰذا ہم آپ کو باہر نہیں لے جا سکتے‘ ہم دو دن گجرانوالہ رہے لیکن گھر سے باہر نہ نکل سکے۔ اب ہم سے اگر کوئی پوچھے گا کہ گجرانوالہ میں آپ نے کیا دیکھا‘ تو اسے یہی کہیں گے کہ ہم صرف اپنے رشتہ داروں کے گھر کا اندرونی محل وقوع ہی بیان کر سکتے ہیں۔ خاتون نے مزید کہا: ہم نے اپنے دل و دماغ میں لاہور کا ناک نقشہ منٹو کے افسانے پڑھ کر وضع کیا تھا‘ لیکن یہ شہر بالکل بدل گیا ہے‘ اس شہر کی تاریخ تو ہزار سال سے بھی پرانی ہے لیکن یہاں کی تہذیبی اور ثقافتی روایات کو کیا ہوا؟ یہاں گھوم کر مجھے محسوس ہوا کہ عورت ذات زندہ دلان کے شہر میں بھی آزاد نہیں ہے۔ جموں سے آئی ہوئی خاتون چونکہ ہماری مہمان تھیں اس لیے میں نے احتراماً انہیں بھارت میں حقوق نسواں کے خلاف ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار بتانے سے گریز کیا‘ وگرنہ میں بتا سکتا تھا کہ بھارت میں ہر نصف گھنٹے میں ایک سیتا بے آبرو کر دی جاتی ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر‘ جہاں سے وہ خود تشریف لائی ہیں‘ وہاں پر 7 سے 8 لاکھ بھارتی فوج عورتوں، مردوں، بوڑھوں اور بچوں میں فرق کئے بغیر 6 لاکھ کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیل چکی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ بھارت کے نامور مورخ اور ادیب خالد حسین کا تعلق مقبوضہ جموں سے ہے۔ جموں چونکہ میرے آبائواجداد کا شہر ہے اس لیے مجھے بے حد عزیز ہے۔ میرے پُرکھ 1947ء میں جموں سے ہجرت کرکے گجرانوالہ آباد ہوئے اور پھر کبھی اپنے جموں واپس نہ جا سکے۔ اس بار خالد صاحب نے لاہور آنے سے قبل ٹیلی فون پر مجھ سے پوچھا کہ جموں سے تمہارے لئے کیا تحفہ لائوں؟ اس پیشکش سے مجھے اپنے والد غلام سرور میر کے ساتھ گزاری آخری رات یاد آ گئی۔ والد صاحب انتہائی بیمار تھے۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ آخری وقت آ گیا ہے تو انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ''ہو سکے تو میری قبر پر جموں کی مٹی ضرور ڈال دینا‘‘۔ میں نے خالد صاحب سے جموں کی مٹی لانے کی درخواست کی تو وہ میرے لئے یہ بیش قیمت تحفہ لے آئے۔ لاہور پہنچنے پر انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ میں اپنا تحفہ وصول کر لوں۔ میں اپنی بیوی غزالہ یعقوب کے ساتھ خالد حسین سے ملاقات کرنے لاہور میں ان کے رشتہ داروں کے ہاں گلبرگ گیا۔ غزالہ کے والد یعقوب علی کاٹل بھی جموں سے تھے جبکہ ان کی والدہ برکت بیگم کا تعلق ادہم پور سے تھا‘ جو جموں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ میری بیگم بھی یتیم ہیں۔ ان کے والد 1981ء اور والدہ 2003ء میں انتقال کر گئی تھیں۔ ہمارے بزرگوں کی طرح میری بیگم کے والدین بھی اپنا آبائی گھر دوبارہ نہیں دیکھ سکے تھے۔
خالد حسین صاحب کی بہو کو میں اور میری بیوی بھابی کہہ کر مخاطب ہوئے۔ وہ بھی ہمیں پرتپاک انداز سے ملیں۔ خالد صاحب جموں کی مٹی کے ساتھ میرے اور بیگم کیلئے کشمیر کی شالیں لائے تھے‘ جن پر ہاتھ سے کڑھائی کی گئی تھی۔ ہم بھی اپنی بساط کے مطابق بھابی، ان کی 14 سالہ بیٹی اور خالد صاحب کیلئے تحائف لے گئے تھے۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ ہم جموں سے آئے مہمانوں سے اس دن ملاقات کر رہے تھے‘ جب پاکستان کے نیوز چینلز کشمیری رہنما آسیہ اندرابی کو دکھا رہے تھے۔ وہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور پاکستان سے اس کے الحاق کی بات کر رہی تھیں۔ بھابی نے کہا کہ ہمیں غیر مذہب کے لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے کبھی یہ احسا س نہیں ہوا کہ ان کی نظریں ہمارے لئے بُری ہیں، لیکن یہاں میں نے دیکھا ہے کہ کم سن بچی سے لے کر ادھیڑ عمر عورت تک کو گھورا جاتا ہے۔ بھابی نے کہا: مجھے یہ بات عجیب محسوس ہوئی کہ گجرانوالہ میں ہماری رشتہ دار عورتیں زیادہ وقت گھر کے اندر ہی رہتی ہیں اور صرف ضروری کام یا سخت مجبوری کے باعث ہی گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ خالد حسین نے کہا کہ جموں و کشمیر اور بھارت میں رہنے والے مسلمان پاکستان کو اسلامی یوٹوپین ریاست (تصوراتی ریاست) سمجھتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کے نزدیک پاکستان اسلام کے قلعے کا نام ہے۔ وہ اسے ایک عظیم مذہبی اور اخلاقی اصولوں پر کاربند ریاست سمجھتے ہیں جو ان کے نزدیک ناقابل تسخیر ہے۔ اتفاق سے میں ایک عرصہ سے پاکستان آرہا ہوں‘ جس کی وجہ سے مجھے اس کی خوبیوں اور خامیوں کا علم ہے لیکن میرے بچے پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے ہیں۔ اب یہ خود یہاں آئے ہیں تو ان کا وہ روایتی تصور قدرے ماند پڑا ہے جو انہوں نے بھارت میں رہ کر پاکستان سے متعلق بنا رکھا تھا۔
بھابی نے حال ہی میں اپنی 18 سالہ بیٹی آزاد کشمیر کے ایک میڈیکل کالج میں داخل کرائی ہے۔ ان کی بیٹی بھارت میں بی ڈی ایس (بیچو لر آف ڈینٹل سرجری) کالج میں داخل تھی‘ جہاں اگرچہ زیادہ تر سٹوڈنٹس ہندو تھے لیکن کالج کے ماحول پر مغربیت چھائی ہوئی تھی۔ مسلمان والدین نے سوچا کہ وہ اپنی بچی کو ایک صاف ستھرا ماحول مہیا کریں‘ جس میں وہ اپنے مذہب اسلام کے ساتھ ساتھ کشمیری ثقافت سے بھی جڑی رہے۔ اس خیال سے آزاد کشمیر میں بھارت کے کشمیری سٹوڈنٹس کے لئے مخصوص نشستوں پر بچی کا داخلہ کروا دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری والدین جب نسلی اور مذہبی تعصب سے اٹے ماحول سے اپنی بیٹی کو لے کر پاکستان آئے‘ جسے وہ اسلامی روایات اور اخلاقی اقدار کا محفوظ قلعہ تصور کرتے ہیں‘ تو انہی یہاں کے معروضی سماجی اور معاشرتی حالات دیکھ کر مایوسی ہوئی۔
مغربی اور مشرقی دنیائوں میں عورتوں کے حقوق کا موازنہ کیا جائے‘ تو مغرب کا پلہ بھاری دکھائی دیتا ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں‘ جن پر طویل بحث ہو سکتی ہے۔ تیسری دنیا میں شامل ممالک سمیت اسلامی تشخص کے دعویدار ملکوں میں بھی عورتیں شدید مسائل کا شکار ہیں۔ کیا پاکستان میں عورتیں آزاد، خوشحال اور محفوظ زندگی گزار رہی ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں تو تخصیص اور امتیاز کے سلسلے کا آغاز پہلی سیڑھی سے ہی ہو جاتا ہے۔ آبادی گننے کے عمل‘ جسے ''مردم شماری‘‘ کا نام دیا جاتا ہے‘ میں ہی اگر عورت یا مستور کی نمائندگی سے احتراز برتا جاتا ہے تو اس جنس کے حقوق کا خیال کیا رکھا جاتا ہو گا؟ مستور کا تو لفظی مطلب بھی 'چھپا ہوا‘ 'پوشیدہ‘ اور 'مخفی‘ کے ہوتے ہیں‘ لہٰذا مردم شماری کے عمل سے ان کا نام بھی مخفی رکھا گیا ہے‘ لیکن جنس دوم کے طور پر انہیں گن لیا جاتا ہے۔ پرانی مردم شماری کے مطابق ملک میں عورتوں کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے لیکن پارلیمان سے لے کر معاشرے کے ہر شعبے میں وہ ہمیں ''مخصوص نشستوں‘‘ پر ہی دکھائی دیتی ہیں۔
گجرانوالہ اور لاہور کے مردوں کی طرف سے عورتوں کو گھورنے کا عمل ہو یا نئی دہلی میں 23 سالہ طالبہ کے ساتھ گینگ ریپ کی واردات‘ دونوں کے عوامل زیادہ مختلف نہیں۔ پاکستان میں 1952ء میں شیخوپورہ میں واقع ہرن مینار دیکھنے گئی طالبات نے لڑکوں کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔ لڑکوں نے گھر کی چاردیواری سے سیر و تفریح کے لئے آزاد فضا میں نکلی لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔ سیشن جج نے لڑکوں کو رہا کرتے ہوئے فیصلہ لکھا تھا: ''لڑکیوں کے اکیلے گھر سے نکلنے پر پابندی ہونی چاہیے، لڑکیاں گھر سے اکیلے نکلیں گی‘ تو لڑکے انہیں جنسی طور پر ہراساں کر سکتے ہیں‘‘۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے سیشن جج کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ ''جج قانون کے مطابق انصاف کرے وہ خود سے اخلاقیات کا درس دینے اور نصیحت کرنے کا مجاز نہیں، عورت بھی آزاد ماحول اور سیر و تفریح کا اتنا ہی حق رکھتی ہے جتنا ہمارے ہاں مرد کے لئے تصور کیا جاتا ہے‘‘۔
بادی النظر میں لگتا ہے کہ عورت کے معاملہ میں ہم اپنے معاشرتی رویے کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے سنائے فیصلے سے زیادہ سیشن جج صاحب کے فیصلے پر عمل پیرا ہیں۔ یہ ایک تحقیق طلب معاملہ ہے کہ پنجاب کے مرد عورت کو اس طرح گھورتے کیوں ہیں؟ عورت کو حقیر سمجھنے کی سو چ جاگیردارانہ روایات سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ کراچی میں ہر طرح کے جرم کی سرپرستی کی گئی لیکن اس شہر میں عورت کے لئے ورکنگ کنڈیشنز قدرے بہتر ہیں۔ پنجاب حکومت تو باقاعدہ اشتہاری مہم کے ذریعے مردوںکو باور کرا رہی ہے کہ عورتوں کے خلاف ''جنسی دہشت گردی‘‘ بند کی جائے۔ ممکن ہے اس پیڈ پبلسٹی اور سزا کے خوف سے پنجاب کے مرد عورتوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے سے احتراز برتیں۔ کوئی ایسی ترکیب بھی سوچنی چاہیے کہ مرد احترامِ آدمیت کے جذبے کے تحت عورت کا احترام کریں۔ یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب مرد، عورت کو محض عورت نہیں اپنے برابر کا انسان سمجھیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved