بعض اوقات آپ ٹیلیویژن پر سنتے ہیں یا اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ عدالت نے کسی دہشت گرد یا قاتل کو دو بار یا دس بار سزائے موت دی۔ یہ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون ہیں ، انسانوں کی اِجماعی یا اکثریتی دانش کا شاہکار ہیں ۔ یہ محض علامتی چیز ہے، ورنہ دَرحقیقت دنیا میں سزائے موت صرف ایک ہی بار دی جاسکتی ہے اور ایک ہی بار دی جاتی ہے۔ ایک سے زائد بار سزائے موت دینا ممکن ہی نہیں ہے۔ سزائے موت میں تداخُل (Merger)بھی نہیں ہوسکتا۔ اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ قاتل اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں۔ اکثر صورتوں میں وہ قانون کی گرفت میں آتے ہی نہیں ہیں ، قانون کو جُل دے جاتے ہیںاور اگر آبھی جائیں تو بچ نکلنے کے ہزار حیلے ہیں۔ قانون بے بس ہوجاتاہے، دولت اور اثر ورسوخ غالب آجاتاہے، کبھی انصاف قابلِ فروخت جنس بن جاتاہے، کہیں دہشت ، دھونس اور بربریت کا راج ہوتاہے۔ بعض صورتوں میں مجرم قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ ہوشیار ثابت ہوتے ہیں، الغرض عیاری و مکّاری اور حیلہ گری ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتاہے۔
لہٰذا اگر اس نظامِ کائنات کو اسی دنیا تک محدود سمجھا جائے، تو ماننا پڑے گا کہ معاذاللہ! قدرت نے انصاف نہیں دیا اور انصاف نہیں کیا، تو پھر کیا مظلوم کے لیے چارہ گری اور داد رسی کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہا، کوئی راستہ نہیں بچا ، ایسا نہیں ہوسکتا، قدرت ہر گز ظالم نہیں ہوسکتی، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(1):''(قیامت کے دن)اللہ فرمائے گا: میرے سامنے جھگڑا نہ کرو ، میں تم کو پہلے ہی (عذاب کی) وعید سنا چکا ہوں، میرے سامنے میرے فرمان میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی اور میں (اپنے) بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں‘‘ (قٓ:28-29)۔ (2):''یہ تمہارے اُن اعمال کی( سزا)ہے ، جو تم نے پہلے اپنے ہاتھوں سے کیے تھے اور بے شک اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے‘‘ (آلِ عمران:182)۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ''مظلوم کی فریاد سے ڈرو، کیونکہ اُس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے‘‘(بخاری:2448)۔
پس ثابت ہوا کہ دنیا میں حقیقی عدل ممکن ہی نہیں ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک دہشت گرد نے خود کش حملہ کرکے یا بم بلاسٹ کرکے سوانسانوں کی جان لے لی اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سب بے قصور ہوں ، بچوں کا بے قصور ہونا تو ہرقسم کے شک وشبہے سے بالاتر ہے اور بعض اوقات کوئی انتہائی نیک اور پارسا آدمی نشانہ بن جاتاہے، آئے دن علماء، پروفیسر اور ڈاکٹر قتل کیے جاتے ہیں۔ اکثر صورتوں میںتو قاتل اور دہشت گرد قانون کی گرفت میں آتے ہی نہیں ہیں اور بالفرض آبھی جائیں اور سزائے موت بھی دے دی جائے، توکیا ایک مجرم اور ایک بے قصور پارسا انسان کی جان برابر ہوسکتی ہے،یا ایک جان سو جانوں کا بدل ہوسکتی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتاہے:(1) ''کیا اندھا اور بینا برابر ہیں یا اندھیرے اور روشنی برابر ہیں‘‘(الرعد:16)۔ (2)''کیا مومن کسی کافر کی مثل ہوسکتا ہے،(ہرگزنہیں) وہ برابر نہیں ہیں‘‘(السجدہ:18)۔ (3)''کیا عالم اور جاہل برابر ہیں‘‘(الزمر:9)۔ (4)''کہہ دیجئے! ناپاک اور پاک برابر نہیں ہیں، خواہ تمہیں ناپاک کی کثرت(کتنی ہی) بھلی لگے‘‘ (المائدہ:100)۔ (5) ''جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہوسکتے‘‘ (الحشر:20)۔ (6)''بھلا جو شخص منہ کے بَل اوندھا چلے، وہ زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا وہ جو صراطِ مستقیم پر سیدھا چلا جارہا ہے‘‘ (الملک:22)۔ الغرض اس طرح کی آیات بے شمار ہیں۔
پس حقیقی عدل صرف آخرت ہی میں ممکن ہے کہ ظالم، جابر ، دہشت گرد اور قاتل ہر آن جیے گا اور ہر آن مرے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(1)''بے شک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا، ہم عنقریب انہیں آگ میں جھونک دیںگے، جب اُن کی کھالیں جل کر پک جائیں گی، ہم ان کی کھالوں کو دوسری کھالوں سے بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کو (مسلسل) چکھتے رہیں‘‘(النسآء:56)۔ (2)''بیشک دوزخ (مجرموں کی) گھات میں ہے، (وہ) سرکشوں کا (آخری) ٹھکا نہ ہے، جس میں وہ مدتوں رہیں گے، اس میں کھولتے ہوئے پانی اور (جہنمیوں کے زخموں کی) پیپ کے سوا نہ وہ ٹھنڈک پائیں گے، نہ کوئی مشروب، یہ اُن (کے جرائم کا) پورا پورا بدلہ ہے‘‘(النبا:21-25)۔ (3)''تھور کا درخت ، گنہگاروں کا کھانا ہے، جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح پیٹوں میں جوش مارے گا، جیسے کھولتا ہوا پانی جوش مارتاہے،(اللہ فرمائے گا!) اس کو پکڑو اور اس کو گھسیٹتے ہوئے جہنم کے وسط میں لے جاؤ، پھر اس کے سر کے اوپر کھولتے ہوئے پانی کا عذاب ڈالو(اور اسے کہو کہ) چکھ ، تودنیا میں اپنے تئیں بہت معززو مکرم بنتا تھا‘‘ (الدخان:43-49)۔ (جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:)(4)''یہ اچھی مہمانی ہے یاتھور کا درخت، بیشک ہم نے اس کو ظالموں کے لیے عذاب بنایا ہے، یہ ایسا درخت ہے جو دوزخ کی جڑ سے نکلتا ہے، اُس کے شگوفے شیطانوں کے سروں کی طرح ہیں ، وہ ضرور اس درخت سے کھائیں گے، سو اسی سے پیٹ بھریں گے، پھر بے شک ان کے لیے پیپ ملا ہواگرم پانی ہوگا‘‘(الصّٰفّٰت:61-67)۔
نبیﷺ نے فرمایا:(1) ''ایک (بے قصور) مسلمان کے قتلِ (ناحق) کے مقابلے پوری کائنات کی بساط کو لپیٹ دینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک معمولی بات ہے‘‘ (ترمذی:1395)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قتلِ ناحق کتنا سنگین جرم ہے۔ (2)''اگر آسمانوں اور زمینوں کے سب رہنے والے ایک مومن کے قتلِ (ناحق ) میں شریک ہوں ، تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا‘‘(ترمذی:1398)۔
پس ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ جب سچا اور کھرا انصاف ہوگا ، کوئی ظالم اﷲتعالیٰ کے نظامِ عدل کی گرفت سے بچ نہیں پائے گا اور کوئی مظلوم انصاف سے محروم نہیں رہے گا۔ لہٰذا ظالموں کووعید ہے کہ اس یومِ حساب سے ڈریں اور ظلم سے باز آجائیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''جس دن سب لوگ ظاہر ہوں گے ، ان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ہوگی، (اعلان ہوگا)آج کس کی بادشاہت ہے، صرف اللہ کی ، جو واحد سب پر غالب ہے، آج ہر شخص کو اس کی کمائی کا صلہ دیا جائے گا ، آج کوئی ظلم نہیں ہوگا، بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے اور (اے رسول!) آپ اُن کو بہت قریب آنے والے دن سے ڈرائیے ، جب وفورِ دہشت سے دل منہ کو آجائیں گے ، لوگ غم کے گھونٹ بھرے ہوں گے ،(اُس دن) ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا نہ ایسا سفارشی ، جس کی سفارش قبول کی جائے، وہ اللہ نگاہوں کی خیانت اور دل کے چھپے رازوں کو خوب جانتا ہے اور اللہ ہی حق کے ساتھ فیصلہ فرماتا ہے‘‘(المؤمن:16تا 20)۔
جب ہم قرآن وسنت کی روشنی میں آخرت کے حقیقی نظامِ عدل کی بات کرتے ہیں، تو ہمارے لبرل اور روشن خیال دانشور طنز کرتے ہیںکہ مفلس ونادار اور ظلم سے دبے اور پسے ہوئے طبقات کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے آمادۂ عمل کرنے کی بجائے ، انہیں مستقبل کے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں، یہ بے عملی اور کم ہمتی کا راستہ دکھانے کے مترادف ہے اور یہ کہ غریبوں کو طفل تسلیاں دے کر دینی طبقات اور علماء سرمایہ داروں اور استحـصالی عناصر کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں‘ ہماری گزارش ہے کہ حضورِ والا! ایسا ہرگز نہیں ہے، جزاوسزا، جنت وجہنم اور عقیدۂ آخرت پر ہمارا ایمان ہے۔ لیکن ہم اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو آمادہ کرتے ہیں کہ ظلم کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو جھٹک دیں، ظالم کی شوکت توڑ دیں، مظلوم اور اپنے حقوق سے محروم طبقات اپنے حق کے حصول کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ اس ساری تگ وتاز کو قرآن وحدیث میں ''تَغییرِ منکَرات‘‘سے تعبیر فرمایا گیا ہے اور قرآن نے یہ بھی تو کہا ہے:''بے شک اللہ اُس وقت تک کسی قوم کی حالت تبدیل نہیں فرماتا، جب تک وہ خود اپنی حالت کو بدلنے پر آمادہ نہ ہو‘‘(الرعد:11)۔ اور ظلم واستحصال کو رفع ودفع کرنا بجائے خود بہت بڑی سعادت اور نیکی ہے ، اس کا ثمرہ دنیا میں فراوانیِ عدل کی صورت میں اور آخرت میں جزا وانعام کی صورت میں ضرور ملے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اُسے ظالموں کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہے‘‘ (بخاری:2442)۔ اور رسول اللہﷺ نے ظالم کو ظلم سے روکنے کو بھی اُس کی نصرت سے تعبیر فرمایا ہے، ارشاد ہوا:''اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہویا مظلوم، صحابہ نے عرض کی : یارسول اللہ! مظلوم کی مدد کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اسے ظلم سے بچایا جائے ، مگر ہم ظالم کی کیسے مدد کریں؟ آپﷺ نے فرمایا:تم ظلم کی طرف بڑھتے ہوئے اس کے ہاتھ کو روک دو‘‘(بخاری:2444)۔ کیونکہ یہی اس کی حقیقی مدد ہے کہ اس طرح تم اسے جہنم کی دائمی سزا سے بچا لوگے۔