تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-03-2015

ابھی تو ’’وہ‘‘ جوان ہیں!

میڈیا کی بہت سی گستاخیاں ایسی ہیں جن پر ہم جان و دِل سے فِدا ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، ہم خود جس دریا میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں اُس کے پانی سے متعلق کوئی بھی شکایت کیسے کرسکتے ہیں! مگر جناب، یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ جہاں سے اپنے مفاد کی کوئی چیز مل سکتی ہو اُسی جگہ کو نشانہ بنایا جائے؟ اِس معاملے میں ہم اپنے ''میڈیا بھائیوں‘‘ کے ساتھ نہیں۔
جب بھی موقع ملتا ہے، میڈیا کے دوست مِیرا کا ریکارڈ لگانا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بہت غلط بات ہے۔ اگر کہیں وہ ناراض ہوگئیں تو؟ پھر ہم مزے مزے کی خبریں کہاں سے پائیں گے؟ تین دن پہلے ہی کی بات ہے انہوں نے لاہور میں پریس کانفرنس کا اعلان کیا، صحافیوں کو وقت بھی دیا اور پھر غائب ہوگئیں! مگر صحافی بھائیوں نے بُرا نہیں مانا کیونکہ وہ ایسی باتوں کو اب انجوائے کیا کرتے ہیں! میرا جیسی شخصیات کے معاملے میں یہی رویّہ اپنایا جانا چاہیے تاکہ خوش کن خبروں کا کوئی اہم source ناراض یا ضائع نہ ہو!
ہم سندھ کے وزیر اعلیٰ محترم سید قائم علی شاہ کے حوالے سے زیادہ پریشان ہیں۔ میڈیا والوں کو جب کوئی نہیں ملتا تو شاہ سائیں کو نشانے پر لینے لگتے ہیں۔ شاہ سائیں پر سب سے بڑا، اور اپنی دانست میں نہایت دانشورانہ، اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ اللہ کرنے کی عمر میں وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ (وہ اِس منصب پر بیٹھے بیٹھے بھی اللہ اللہ ہی تو کر رہے ہیں!) کسی کو یہ غم ستائے جارہا ہے کہ 86 سال کے ہوکر بھی شاہ سائیں خود کو جوان سمجھنے اور ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ شاہ سائیں کی یادداشت چلی گئی ہے۔ کسی کو اِس بات کا دُکھ ہے کہ شاہ سائیں کی زبان پھسل جاتی ہے۔ قصہ مختصر، اعتراضات کی ایک طویل ''کنکرنٹ لِسٹ‘‘ ہے جو شاہ سائیں کے اعزاز میں ترتیب دی گئی ہے!
ہم نے شاہ سائیں کی وزارتِ اعلیٰ میں جو سُکون دیکھا ہے وہ کسی اور کی چھتر چھایا میں کبھی نصیب نہیں ہوا۔ جو امن اور استحکام بعض چینلز کے خبر ناموں میں آج بھی پایا جاتا ہے‘ وہ ہمیں صرف شاہ سائیں کی وزارتِ اعلیٰ میں نظر آتا ہے۔ اور کیوں نظر نہ آئے؟ شاہ سائیں کے مزاج کی ٹھنڈک ہمارے سیاسی مزاج کے لیے ایک روشن مثال کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر کسی کو وزیر اعلیٰ کے منصب پر بیٹھے ہوئے شخص میں نرمی دیکھنی ہے تو شاہ سائیں کے درشن کرے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وزارتِ اعلیٰ چلانے کے لیے غیر معمولی جوش اور ولولہ ناگزیر ہے تو ذرا شاہ سائیں کی کارکردگی کا جائزہ لے۔ اُن کے تینوں ادوار اِس حوالے سے بھرپور رہے ہیں۔ اب اگر کسی کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہو اور وہ دیکھے کو بھی ان دیکھا کردے تو ہم کیا کریں؟
ہم نے تو شاہ سائیں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ چاروں طرف خرابیاں ہوں تب بھی کس طرح positive رہتے ہوئے مفاہمت کے فلسفے کا چراغ جلائے رکھنا ہے یعنی کوئی بھی بات دل پر لینے کی ضرورت نہیں۔ کتنی فطری سی بات ہے۔ اگر کوئی شخص حالات سے دل برداشتہ ہو تو زندگی کیسے بسر کرے گا؟ یعنی اگر کسی کو وزیر اعلیٰ کی کُرسی ملی ہو اور وہ رات دن پریشان ہی رہے، وسوسوںمیں اُلجھ کر، سوچ سوچ کر ہلکان ہی ہوتا رہے تو وزارتِ اعلیٰ کب اور کیسے چلائے گا؟ بات کتنی سیدھی سی ہے مگر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم نے تو شاہ سائیں کو دیکھ کر کوئی بھی بات دِل پر نہ لینے کا ہُنر سیکھ لیا ہے! ملاحظہ فرمائیے کہ شاہ سائیں نے کوئی بھی بات دِل پر نہیں لی تو کیا معاشرہ تلپٹ ہوگیا؟ نہیں ناں؟ بس یہی بات آپ ہم میں دیکھیے۔ ہم نے کالم نگاری کو کبھی دِل پر نہیں لیا۔ جب بھی لکھتے ہیں، ہر طرح کی ٹینشن سے آزاد ہوکر لکھتے ہیں۔ اور اِس کا نتیجہ بھی ویسا ہی ''ٹھنڈا ٹھار‘‘ ہے جیسا شاہ سائیں کی وزارتِ اعلیٰ کا ہے! اگر کوئی زیادہ سراہتا نہیں تو غم کیسا؟ کوئی شکایت بھی تو نہیں کرتا!
بہت سے لوگ شاہ سائیں کی عمر کے حوالے سے معترض دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ اب ان کی عمر وزارتِ اعلیٰ کے لائق نہیں رہی۔ لوگ بھی عجیب ہیں۔ اپنے طور پر ہی طے کرلیتے ہیں کہ کسی کو کون سا کام کتنی عمر تک یا کس عمر میں کرنا چاہیے۔ کل کو یہی لوگ پیدا ہونے اور مرنے کی عمر بھی طے کیا کریں گے!
شاہ سائیں کی یادداشت پر اعتراض کرنے والوں کے لیے ہم عرض کردیں کہ وہ آج بھی پچاس پچپن سال کے سرکاری ملازمین سے کہیں بہتر ہیں کہ اُنہیں دفتر جانا یاد رہتا ہے! جس حافظے میں زمانے بھر کی باتیں محفوظ ہوں اور کام پر جانا یا کام کرنا ہی باہر رہ گیا ہو اُس حافظے کا ہم کیا اچار ڈالیں گے؟ کام کو اپنے حافظے میں جگہ نہ دینے والے جواں سال سرکاری افسروں سے کہیں بہتر شاہ سائیں ہیں کہ انہیں دفتر جانا یاد تو رہتا ہے۔ سرکاری ریکارڈ میں بہت سے ملازمین ہیں جو کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اِسی بنیاد پر سندھ حکومت کو گھوسٹ ملازمین کا طعنہ بھی سہنا پڑتا ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ شاہ سائیں کے باقاعدگی سے دفتر جانے کی صورت میں سندھ حکومت پر ''گھوسٹ وزیراعلیٰ‘‘ رکھنے کا الزام تو عائد نہیں کیا جاسکتا!
ویسے شاہ سائیں کو اچھی طرح یاد ہے کہ اِس عمر میں کیا کیا یاد رکھنا ہے۔ اُن کا تعلق ایسی پارٹی سے ہے جو کارکنوں کو کبھی نہیں بھولتی۔ شاہ سائیں کہتے ہیں کہ اُنہیں سندھ کا ایک ایک کارکن یاد ہے۔ بس، اِتنا کافی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت چلانے کے لیے بس یہی کچھ تو درکار ہوتا ہے۔ رہے حکومتی اُمور، تو یاد آنے پر وہ بھی انجام تک پہنچا ہی دیئے جائیں گے! ویسے بھی شاہ سائیں عمر کی جس منزل میں ہیں اُس میں اُنہیں بہت کچھ یاد رکھنا بھی نہیں چاہیے۔ حافظہ خواہ مخواہ اُلجھ کر رہ جاتا ہے ؎
''سیاست‘‘ میں کیا کیا نہ صدمے اُٹھائے
کِسے یاد رکھوں، کِسے بھول جاؤں!
شاہ سائیں کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے منصب پر یوں فائز ہیں کہ کسی اور کے لیے کوئی گنجائش دکھائی ہی نہیں دیتی۔ ایسے میں دِل جلوں کی طرف سے جلی کٹی باتیں ہی تو سامنے آئیں گی۔ ویسے بھی محروم رہ جانے والوں کا اِتنا تو حق بنتا ہی ہے کہ کچھ بول کر دِل کی بھڑاس نکال لیں!
کمال یہ ہے کہ اِس پیرانہ سالی میں بھی شاہ سائیں نہ صرف یہ کہ سندھ حکومت کے بہت سے جوانوں سے زیادہ متحرک ہیں بلکہ بیشتر معاملات میں اپنے موقف پر قائم بھی ہیں۔ اُن کی گفتگو میں بھی داغؔ دہلوی کا سا انداز ہے ع
حضرتِ داغؔ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے
معترضین چاہتے ہیں کہ شاہ سائیں اُن کی مرضی کا بولا کریں۔ اُنہیں کیا ضرورت پڑی ہے ایسا کرنے کی۔ وہ وزیر اعلیٰ اِس لیے تو نہیں بنے ہیں کہ دوسروں کی مرضی کے مطابق کام کیا کریں؟ شاہ سائیں کو اچھی طرح اندازہ ہے کب، کس کے لیے اور کتنا بولنا ہے۔ اور تو اور، اگر اُن کی زبان بھی پھسلتی ہے تو ایسے مقام پر کہ مفہوم بدلنے سے بھی کوئی خطرہ نہ ہو۔ اور کسی کو کیا پتا، ہوسکتا ہے شاہ سائیں کی زبان بھی لوگوں کو تھوڑا بہت ریلیف دینے کے لیے دانستہ پھسل جاتی ہو!
بعض منچلوں اور دل جلوں نے اُدھار کے معاملے میں مسئلہ کشمیر ہٹاکر اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ شاہ سائیں کے وزیراعلیٰ رہنے تک اُدھار بند ہے! ہمیں اُمّید ہے کہ ایسی باتوں سے شاہ سائیں پر کوئی ایسا ویسا اثر مرتب نہیں ہوگا اور وہ بدستور اپنے ''پُرسکون ولولے‘‘ کے ساتھ عوام کی خدمت کرتے رہیں گے! سیاست میں activism کا زمانہ جاچکا ہے۔ اب قوم کو ہر معاملے میں مفاہمت اور سکون کی تلاش ہے۔ اور اِس معاملے میں شاہ سائیں روشن ترین مثال کے منصب پر بھی فائز ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved