مہاراشٹر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی صوبائی حکومت نے پوری ریاست میں گائے ذبح کرنے اور اُس کا گوشت کھانے پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ راشٹریہ سیوک سنگھ اور مودی سرکار کی مذہبی انتہا پسندی کے معیار بھی عجیب ہیں۔ ایک طرف کمزور اقلیتوں کو بہانے بہانے سے دبانے کیلئے گائو ماتا کا درس دیا جاتا ہے‘ تو دوسری جانب طاقتور کو خوش کرنے اور اس کی طبع نازک کو گرانی سے بچانے کے لیے ''گائو چھانٹا‘‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جونہی امریکی صدر کے دورے کا وقت قریب آنے لگا‘ گائو ماتا اور ہنو مان کی شامت آ گئی۔ پورا دہلی انہیں نظروں سے دور رکھنے کے جتن کرنے لگ گیا۔ امریکی صدر بارک اوباما کے اپنے صدارتی دور کے آخری دورہ بھارت میں مودی کے ہاتھوں کی چائے‘ مشعل اوباما کیلئے ایک صد ساڑھیوں اور اوباما کے استقبال کیلئے مودی کے ڈیڑھ لاکھ روپے کے لباس کی کہانیاں تو منظر عام پر آ چکی ہیں لیکن یہ دورہ اپنے پیچھے اور بھی بہت سی دلچسپ داستانیں چھوڑ گیا۔ سپر پاور کے صدر کے دورہ بھارت کے چونکہ بڑے بڑے ایجنڈے اور ارادے تھے‘ اس لیے یہ چھوٹی موٹی چیزیں اس وقت کسی کو بھی نظر نہ آئیں اور نہ ہی یہ معاملہ اس وقت تک بڑے بڑے بریک تھرو کے پیچھے بھاگنے والے دنیا بھر کے میڈیا کی نظر میں آیا لیکن جیسے ہی امریکی صدر کے دورہ بھارت کا وقت قریب آیا تو نئی دہلی کی حکومت اور بھارت کی تمام سکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھ پائوں پھولنا شروع ہو گئے۔ بڑے بڑے
وزراء اور اعلیٰ افسران سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ جس جس رستے سے امریکی صدر اور ان کے ساتھ آئے ہوئے ان کے وفد کے مہمانوں کے گزرنے کا روٹ متوقع ہو گا اس سے ایک ایک کلومیٹر پیچھے تک شہر بھر کی گلیوں اور بازاروں میں گھومنے والی گائیں اور پوری دہلی کو ناکوں چنے چبوانے والے ہنومان دیوتا بندر کو بھگانا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ دہلی ایئرپورٹ کے جنوبی حصے میں یہ گائیں سارا سارا دن گھاس چرتیں اور ادھر ادھر بے فکری سے گھومتی پھرتی رہتی تھیں‘ ان کو وہاں سے بھگانا تھا۔ ایئرپورٹ کے اس حصے میں گھومنے والی گائیوں کو تو کسی نہ کسی طرح پولیس اور کارپوریشن کے ملازمین نے قابو میں لا کر شہر سے دور کسی جگہ بند کر دیا‘ لیکن پوری دہلی میں آوارہ گھومنے والی سینکڑوں گایوں اور ہزاروں کی تعداد میں بندروں نے نئی دہلی حکومت سمیت پورے بھارت کی سکیورٹی ایجنسیوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ ڈر تھا کہ دہشت گرد یا تخریب کار آوارہ گھومنے والے بندروں کے ساتھ کوئی آتش گیر مادہ یا ٹائم بم وغیرہ باندھ کر دھماکے نہ کر دیں۔
بھارت کی سکیورٹی ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران سی سی ٹی وی کیمروں پر جونہی ان بندروں کو ادھر ادھر بھاگتے ہوئے دیکھتے موبائل فون اور وائر لیس بجنے شروع ہو جاتے۔ متعلقہ تھانوں کی پولیس اور کارپوریشن کے ملازمین کی سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ بندر ایک دیوار سے دوسری دیوار اور ایک چھت سے دوسری چھت پر چھلانگیں لگاتے ہوئے بھاگ جاتے۔ دوسری مصیبت یہ تھی کہ ہندو‘ جوبندر کو ہنومان دیوتا مانتے ہیں اور ان کی پوجا اور ٹہل سیوا کرنا فرض اور عبادت سمجھتے ہیں‘ وہ ڈرتے ہوئے ان سے سختی برتنے اور انہیں جسمانی ایذا دینے سے بھی گھبراتے تھے کہ کہیں دیوتا ان سے ناراض نہ جائیں۔ہندومت کے مطا بق کسی بھی جانور پر تشدد گناہ سمجھا جاتا ہے۔ بندر کو مارنا یا انہیں پنجروں میں بند کرنا تو مہاپاپ اور دیوتائوں کی ناراضگی کا موجب سمجھا جاتا ہے
امریکی صدر اوباما کی نئی دہلی آمد کیلئے اتوار کا دن مقرر تھا۔ اس سے تین دن پہلے ایک بار پھر سختی سے حکم جاری ہوا کہ ہر حال میں نئی دہلی کے ان رستوں کو گائے اور بندروں سے پاک کرنا ہے‘ چاہے اس کیلئے کچھ بھی کرنا پڑے‘ اور پھر گائو ماتا اور ہنومان جی کے ساتھ وہ سلوک ہوا کہ اگر اس کا عشر عشیر بھی مسلمانوں کی جانب سے کیا جاتا تو نہ جانے کتنے ہزار مسلمان ذبح کر دیئے جاتے۔ چونکہ بھارت میں دنیا کا بھگوان امریکہ تشریف لا رہا تھا‘ اس لیے گائو ماتا اور بندروں کی شامت آ گئی۔ یہ تما شا دہلی بھر میں سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ لیکن مجال ہے جو کسی جانب سے ایک لفظ بھی مخالفت میں نکلا ہو۔ راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد جیسی انتہا پسند ہندو جماعتیں بھی منہ میں گھنگھنیاں ڈالے چپ رہیں۔ سکیورٹی کیلئے پیرا ملٹری فورسز سمیت پولیس اور ٹریفک پولیس کو حکم جاری کر دیا گیا کہ اگر امریکی صدر کے کانوائے کے راستے میں گائے یا بندر کی وجہ سے کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ دیکھنے میں آئی تو متعلقہ اہلکاروں کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا جائے گا۔ بس یہ آرڈر ملنا تھا کہ گائو ماتا اور ہنو مان جی کے خلاف کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ ڈنڈوں اور بے ہوش کرنے والے سپرے کی بارش شروع ہو گئی۔ سینکڑوں کی تعداد میں پنجروں والی گاڑیاں بندروں سے بھر بھر کر شہر کے باہر کھڑی کی جانے لگیں کیونکہ حکم جاری کیا گیا تھا کہ جب تک امریکی صدر اور ان کے وفد کے اراکین نئی دہلی میں موجود ہو ں‘ ان بندروں کو آزاد نہیں کرنا۔ تین دن تک ہزاروں کی تعداد میں یہ بھوکے پیاسے بندر جس طرح پنجرو ں میں بند چیختے چلاتے رہے اس کا نظارہ ہزاروں لوگوں نے کیا کہ کس طرح ایوان صدر کے ارد گرد غلیلیں (Slingshots) لئے ہوئے سینکڑوں اہل کار ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگتے دوڑتے رہے۔اس کے ساتھ ہی تیسرا حکم جاری ہوا کہ کسی بھی جگہ کسی بھی سڑک پر اگر کوئی بھکاری نظر پڑ گیا تو متعلقہ پولیس افسر کو ا س کیلئے جواب دہ ہونا پڑے گا۔
دہلی میونسپل کارپوریشن کے چیئر مین جلاج شری واستو کا کہنا تھا کہ ہماری حالت یہ ہو چکی تھی کہ نہ جانے کہاں سے کوئی بھوک کا مارا بندر کہیں سے نکلا اور سڑک کے کنارے لگے ٹھیلے سے کیلا اٹھا کر بھاگ نکلا جیسے ہی یہ خبر حکام تک پہنچی مجھے ایک اور حکم جاری ہو گیا کہ ان راستوں میں آنے والی مٹھائی اور بیکری کی دکانیں اور ٹھیلے فوری طور پر وہاں سے اٹھا دیئے جائیں اور تین دن تک ان میں سے کوئی بھی سڑکوں پر نظر نہیں آنا چاہئے۔ اب ہمارے ذمے نئی دہلی سے آگرہ تاج محل تک کی سڑکوں سمیت شہر بھر کی صفائی، امریکی صدر کے رستے میں آنے والی عمارتوں کے رنگ و روغن کے علا وہ گائو ماتا اور ہنومان جی کی پکڑدھکڑ کے بعد مٹھائی اور بیکری کی تمام دکانیں اور سڑکوں کے ارد گرد ٹھیلے والوں کا صفایا بھی شامل تھا۔ جلاج شری واستو کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ تو ایسا ہوا ہے جیسے کسی کے گھر میں بیٹی کی شادی ہو اور اس کیلئے گھر کو مکمل رنگ و روغن اور روشنیوں سے سجا دیا جائے‘ بارات کے کھانے پینے اور بیٹھنے کے تمام انتظامات تیار ہوں۔ لیکن عین بارات آنے سے چند لمحے پہلے یہ پتہ چلے کہ بارات تو آ ہی نہیں رہی۔ یہی حال نئی دہلی میں بھارتی حکومت کے امریکی بادشاہ کے استقبالیہ انتظامات کے ساتھ ہوا‘ جب بارک اوباما سعودی شاہ عبد اﷲ کی تعزیت اور نئے شاہ سلمان کو تخت نشینی کی مبارکباد دینے کیلئے دورہ نئی دہلی اور آگرہ اچانک ختم کرکے سعودی عرب چلے گئے۔