تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     29-03-2015

ہماری فوج‘ہماری جنگیں

سوال محض خارجہ پالیسی کا ہو‘تو پاکستانی عوام بھی اسے غیرمتنازعہ دیکھنا ہی پسند کرتے ہیں۔ بارہا ایسا ہوا کہ حکومتوں نے خارجہ پالیسی کے معاملے میںغلط فیصلے کئے۔ مجموعی طور پر عوام نے ان کی پوری طرح سے تائید نہیں کی‘ تو مخالفت سے بھی گریزاں رہے۔ مثلاً ایران کے ساتھ تجارت میں بلاوجہ کے تحفظات ہمارے لئے نقصان دہ ہیں۔ لیکن ہمارے حکمران‘ طبقاتی وجوہ کی بنا پر یہ گھاٹے کا سودا کرتے رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ گیس پائپ لائن کا معاہدہ کرنے کے بعد بھی‘ ہم اس پر عملدرآمد نہیں کر رہے۔ معاہدے کے تحت‘ ایران پائپ لائن کو ہماری سرحدوں کے پاس لا چکا ہے‘ لیکن ہم اپنے ملک کے اندر‘ پائپ لائن نہیں بچھا رہے۔ معاہدے کے تحت جو ملک‘ اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر نہیں کرے گا یا کسی اور وجہ سے معاہدے پر عملدرآمد سے گریز کرے گا‘ تو اسے جرمانہ دینا پڑے گا۔ یہ جرمانہ شروع ہو چکا ہو گا۔ ابھی تک پتہ نہیں چل سکا کہ اس کی وصولی شروع کر دی گئی ہے یا نہیں؟ اگر ایران نے جرمانے کی وصولی شروع نہیں کی‘ تو اسے ہمسائیگی اور اسلامی رشتے کا نتیجہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی عوام اس مسئلے پر بالکل خاموش ہیں۔ افغانستان کی جنگ میں ہمیں دو فوجی آمروں نے ملوث کیا اور پاکستانی معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر پاکستان نے اس سے بڑا بلنڈر نہیں کیا ہو گا‘ لیکن عوام اس پر بھی خاموش رہے اور قابل ذکر مخالفانہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ سرد جنگ میں امریکی اتحادی بن کر‘ سوویت یونین کی مخالفت مول لینا بھی خسارے کا سودا تھا‘ لیکن پاکستانی عوام نے اس پر بھی لب کشائی نہیں کی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں‘ حکومتیں غلط فیصلے بھی کر دیں‘ تو عوام ان کی مخالفت نہیں کرتے تاکہ عالمی برادری میں ہماری حکومتوں کے لئے عدم اعتمادی کی فضا پیدا نہ ہو۔
کیسی عجیب بات ہے ؟کہ سعودی عرب ‘ جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انتہائی خوشگوار بلکہ گہرے دوستانہ رہے ہیں‘ اس کی جنگ میں ‘پاکستان نے شریک ہونے کا جو فیصلہ کیا ہے‘ اس کی ہر جگہ مخالفت کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ‘ جس میں حزب اختلاف کا نام و نشان تک نہیں‘ اس میں بھی اس پالیسی پر سوالات اٹھائے گئے۔ مذہبی بنیادوں پر بھی‘ اس جنگ میں شمولیت پر باہمی اختلافات ابھر کے سامنے آ رہے ہیں۔ حکومت کو یہی توقع ہو گی کہ اگر کسی نے مخالفت کی‘ تو وہ صرف اہل تشیع ہوں گے اور اہل سنت والجماعت متحد ہو کر اس فیصلے کی حمایت کریں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی ابھی تک سعودی عرب کی جنگ میں شرکت کے فیصلے پر یا تو خاموش ہیں یا زیادہ شور نہیں مچا رہے۔ سب سے زیادہ مخالفانہ آوازیں اہل سنت والجماعت کی طرف سے اٹھ رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے حسب توقع سعودی عرب کی غیرمشروط حمایت کرنے کے بجائے‘ حسب روایت ''تحفظات‘‘ کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اس فیصلے کے بارے میں حکومت سب کو اعتماد میں لے۔‘‘سنی تحریک نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ''فوج کو یمنی عوام کے خلاف جنگ میں نہ دھکیلا جائے۔ کیونکہ مسلم ملک کے خلاف فرقہ ورانہ مہم جوئی کا حصہ بننا‘ کسی صورت میں دانش مندی نہیں ہو گا۔‘‘ سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری کا کہنا ہے کہ ''سعودیہ سے وصول کئے گئے ڈیڑھ ارب ڈالر کے بدلے میں حکومت قومی جذبات سے نہ کھیلے۔ یمن‘ سعودی عرب اور ایران سمیت ‘ تمام مسلم ممالک سے پاکستان کو بلاتفریق دوستانہ تعلقات قائم رکھنا چاہئیں۔‘‘ انہوں نے کہا''پاکستانی قوم پہلے ہی پرائی لڑائیوں میں ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکی ہے اور اب سعودی جنگ میں شمولیت سے‘ ملک میں فرقہ ورانہ فسادات بھی چھڑ جانے کا اندیشہ ہے۔‘‘
پاکستان کے قومی سیاستدانوں میں پیپلزپارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی بھی‘ سعودی عرب میں پاک فوج کو بھیجنے کی مخالفت کر چکی ہیں۔ عمران خان اور الطاف حسین نے اس پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ خارجہ امور کے ماہرین نے بھی پاکستان کی یکطرفہ پالیسی پر بے اطمینانی ظاہر کی۔ سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری‘ سابق سیکرٹری وزارت خارجہ اکرم ذکی‘ افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر قاضی ہمایوں نے کہا ہے کہ ''پاکستان ‘ سعودی عرب کی خودمختاری کی حد تک تو اس کے ساتھ تعاون کر سکتا ہے‘ لیکن فوجی آپریشن میں حصہ لینے کے لئے تمام صورتحال کا جائزہ لینا ہو گا‘ کیونکہ اس کی وجہ سے ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں اور ان دونوں
ملکوں کی سرحدیں مشترک ہونے کے باعث ‘ پاکستان کے لئے اس پالیسی کے خراب نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘ ابھی ہم نے افرادی قوت کے سوا ‘ سعودی عرب کے حملوں میں کسی طرح کی معاونت نہیں کی۔ سعودی عرب میں فوجی خدمات انجام دینے کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے‘ لیکن پاکستانی فوج نے کسی دوسرے ملک کے خلاف جارحیت میں کبھی کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ہمارے فوجیوں کی تمام تر خدمات ‘ سعودی عرب کے اندر پیدا ہونے والے خطرات میں مقامی فورسز کی معاونت کرنا رہا ہے یا بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے دفاعی خدمات میں کردار ادا کرنے کی تیاریوں کی تھیں‘ مگر خدا کا شکر ہے‘ کبھی اس کی ضرورت نہیں پڑی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ابھی پاکستان نے اس جنگ میں کسی بھی انداز سے حصہ نہیں لیا اور ملک کے اندر مذہبی جماعتوں سے بھی اختلافی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ مذہبی شناخت رکھنے والے مختلف افراد‘ بہت بڑی تعداد میں پاکستان کے اندر موجود ہیں‘ جو سعودی سفارتخانے سے ہمیشہ مختلف فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں‘ وہ یقینا کھل کر حکومت کی اس پالیسی کی حمایت کریں گے۔ ظاہر ہے‘ ایسا کسی مذہبی رشتے کی بنا پر نہیں‘ بلکہ جذبۂ احسان مندی کے تحت ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اب میں سب سے بڑے مشکل معاملے کی طرف آتا ہوں اور وہ ہے پاک ایران تعلقات کا معاملہ۔ ایران بالواسطہ اور سعودی عرب براہ راست‘ یمن کی اندرونی کشمکش کا حصہ بن رہے ہیں۔ بحرین کی بڑی شیعہ آبادی کے خلاف‘ سعودی سکیورٹی فورسز اس جزیرے کی سرزمین پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ عراق کی موجودہ حکومت‘ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے اور داعش کے خلاف جنگ میں ایرانی رضاکار بھی حصہ لے رہے ہیں۔ عراقی حکومت کی طرف سے بھی یمن کے باغیوں کو بھاری مقدار میں اسلحہ اور جنگی ضروریات کا دوسرا سامان فراہم کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سعودی فضائیہ‘ یمن پر بمباری کرتی رہے گی اور اس کا ردعمل کہیں سے نہیں آئے گا؟ ایسا ممکن نہیں۔ امریکہ کے بارے میں مجھے ہمیشہ خدشات رہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو ‘ ان دونوں ملکوں کے حکمران طبقے‘ مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ ایک طاقتور اور مالدار قوم ہونے کی حیثیت میں امریکہ جو ''امداد‘‘ دیتا ہے‘ امریکی درحقیقت اسے ''معاوضہ‘‘ سمجھتے ہیں‘ جبکہ ہمارے حکمرانوں نے پاک امریکہ دوستی کا فلسفہ دے کر‘ اپنے عوام کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ تو دوستی میں ہماری مدد کرتا ہے۔ تصورات کے اس اختلاف نے‘ پاک امریکہ تعلقات کی بنیادیں کبھی مضبوط نہیں ہونے دیں۔مثلاً سردجنگ میں ہم امریکہ کے اتحادی بن گئے اور سوویت یونین کے خلاف امریکہ کو جاسوسی کی سہولتیں فراہم کرتے رہے۔ امریکہ نے سردجنگ کے لئے ہمیں جو اسلحہ فراہم کیا‘ 1965ء کی جنگ میں ہم نے‘ اسے بھارت کے خلاف استعمال کر دیا‘ جس پر امریکہ نے ہمارے ساتھ سردمہری اختیار کر لی۔ اسی طرح جب افغانستان سے امریکی فوجیں واپس گئیں‘ تو امریکہ نے منہ پھیر لیا۔ ہمارے حکمران یہی کہتے رہے کہ ہم نے امریکہ کے لئے قربانیاں دیں‘ مگر امریکیوں کا جواب ہمیشہ یہی رہا کہ ہم نے پیسہ دیا‘ آپ نے کام کیا۔ گلے شکوے کا جواز کیا ہے؟ تازہ ترین سودا‘ اب افغانستان میں ‘امریکی افواج سے برسرپیکار طالبان کی سرگرمیوں کو روکنا تھا۔ پاکستان نے قریباً 20بلین ڈالر افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائیاں کرنے کی خاطر لئے‘ لیکن بعض امریکہ دشمن دہشت گردوں کو‘ ہم نے پناہ بھی دی‘ اسلحہ بھی اور سرمایہ بھی‘ تاکہ وہ امریکی افواج کے خلاف کارروائیاں کریں۔ اس پر امریکہ رنجیدہ ہی نہیں‘ غضب ناک بھی ہے اور میرا تاثر تو یہ ہے کہ امریکہ اسی وقت سے‘ ہم سے بدلہ لینے کی موقعے کی تلاش میں رہتا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ امریکہ نے ہمیں شرق اوسط میں الجھا کر کوئی پرانا حساب چکانے کا بندوبست تو نہیں کیا؟ آخری بات یہ ہے کہ پاک فوج صرف ایک فرقے کی نہیں‘ تمام پاکستانی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اگر جنگ دو ملکوں کے درمیان ہو اورہم کسی کے حامی بن جائیں‘ تو دوسری بات ہو گی‘ لیکن یمن کی جنگ براہ راست فرقہ ورانہ جنگ ہے۔ سعودی حکمرانوںنے اپنے مخالف فرقے کے باغیوں کی سرکوبی کے لئے جنگ شروع کی ہے۔جیسے جیسے یہ آگے بڑھے گی‘ فرقہ واریت غالب آتی جائے گی۔ نتیجے میں پوری اسلامی دنیا بٹ جائے گی۔ یہی امریکہ کا مقصد لگتا ہے۔ میں پاکستان کا ایک ادنیٰ شہری ہونے کی حیثیت میں صرف ایک ہی گزارش کر سکتا ہوں کہ ہمیں شرق اوسط کی جنگ میں ہرقسم کی عملی شرکت سے گریز کرکے ‘ اپنے داخلی اتحاد کو بچانا ہو گا۔ اب تو یہ بات مولوی حضرات نے بھی کہہ دی ہے کہ حکمران ذاتی احسانات اتارنے کے لئے‘ سعودیوں کی جنگ میں شامل نہ ہوں۔ پاکستان اور عوام کا تو کوئی والی وارث نہیں‘ لیکن پاک فوج کا وارث پاکستان بھی ہے اور پاکستانی عوام بھی۔ ہم دہشت گردوں کے ہاتھوں پاک فوج کوپہنچائے گئے نقصانات پر پہلے ہی غم زدہ ہیں‘ مزید جنازے پڑھنے کی ہم میں ہمت نہیں رہ گئی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ شیعہ دشمن گروہوں کی امداد کون کر رہا ہے؟ اس فرقہ ورانہ دہشت گردی کے پھیلائو سے ہم ابھی تک تومحفوظ ہیں۔ اگر ہم یمن کی جنگ میں ملوث ہو گئے‘ تو پھر خطرہ ہے‘ کہ نہیں بچ سکیں گے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved