پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا لیکن ہمارے نیم خواندہ‘ لیڈروں نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ اس کے باوجود ان کا گمان یہ ہے کہ خلقِ خدا انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی رہے گی؟
بیرسٹر سلطان محمود اور عمران خان کے دعوے درست ثابت ہوئے۔ میرپور میں نون لیگ کے امیدوار ارشد غازی‘ مسلم کانفرنس سے مستعار لیے گئے پیپلز پارٹی کے چودھری اشرف کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ وعدہ کیا گیا کہ انہیں آزاد جموں و کشمیر کونسل کا ممبر بنا دیا جائے گا‘ جس کے اختیارات کشمیر اسمبلی سے کہیں زیادہ ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کونسل کے چیئرمین ہیں۔ بیشتر ترقیاتی منصوبے انہی کی نذرِ عنایت سے منظور ہوا کرتے ہیں۔ میرپور کے لیے ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ میرپور کے اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ سولہ ارب روپے کے منصوبوں کا۔ صاف صاف اس کا مطلب یہ ہے کہ علاقے کی رائے عامہ مرکزی حکومت کا طوق گلے میں ڈالنے کے لیے تیار ہو تو اس کا خیال رکھا جائے گا۔ اخلاقی ہی نہیں‘ معاملے کا سیاسی پہلو اور بھی زیادہ سنگین ہے۔
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں کا شکوہ ہی یہ ہے کہ ان کی تقدیر کے فیصلے اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق شمال کے 80 فیصد نوجوانوں نے یہ بات کہی۔ کشمیری لیڈر اور بھی زیادہ ناراض ہیں۔ میرپور کے حالیہ قیام میں نون لیگ آزاد کشمیر کے دو ممتاز ترین لیڈروں نے تین گھنٹے کی طویل ملاقات میں‘ کتنی ہی کہانیاں سنائیں۔ مرکز سے مقرر کیے گئے افسر اور ایجنسیوں کی مداخلت۔ پیپلز پارٹی کے لیڈر بھی یہی کہتے ہیں بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ لہجوں میں کڑواہٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کا رنج بھی یہ ہے کہ کشمیر کی سرزمین کو پیپلز پارٹی کی ایک خاتون رہنما کی چراگاہ بنا دیا گیا ہے۔ فیصل آباد اور کراچی سے تعلق رکھنے والے دو گمنام کارندوں کے ذریعے وہ خراج وصول کرتی ہیں۔ افسروں کے تبادلے فرماتی ہیں اور وزیر اعظم کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ پیپلز پارٹی کے ان دو وزرا میں سے ایک نے‘ بدعنوانی کی جن سے شکایت نہیں‘ اپنے وزیر اعظم کے بارے میں کہا کہ فائل تک ان کی رسائی ہی نہیں۔
نون لیگ آزاد کشمیر کے سربراہ راجہ فاروق حیدر یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک طرح کا استعماری طرزِ حکومت ہے۔ ''چودھری عبدالمجید نے ہم اہل کشمیر کی عزت خاک میں ملا دی ہے‘‘۔ ''چودھری عبدالمجید‘‘ تو اس ناچیز نے لکھا ہے۔ وہ انہیں اس قدر احترام کا حق دار نہیں سمجھتے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نون لیگ کی طرف سے‘ جمعہ کی شام پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان‘ اپنے امیدوار کے حق میں ایک ریلی کے اختتام پر کیا گیا۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے احکامات اس دوران ہی موصول ہوئے... بالکل اچانک! راجہ فاروق حیدر اور شاہ غلام قادر کے دل پر کیا گزری ہو گی‘ جو بہت دن سے مزاحمت کر رہے تھے۔ کیا اب بھی وہ اسے استعماری انداز کہیں گے یا کچھ اور؟ جہاں تک سب سے سینئر لیڈر سردار سکندر حیات کا تعلق ہے‘ ان کے لوگ اب علی الاعلان بیرسٹر کی حمایت کر رہے ہیں۔ رہے کارکن تو وہیں انہوں نے ہنگامہ اٹھا دیا
تھا۔ ان میں سے درجنوں تحریک انصاف کے دفتر گئے۔ نون لیگ سے ناتہ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ راجہ فاروق حیدر وزیر اعظم تھے تو خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا کرتے۔ انہوں نے اپنا منصب کھو دیا لیکن سپر انداز نہ ہوئے۔ کشمیری نوجوانوں میں ان کی تکریم کا سبب صرف یہ نہیں کہ بدعنوانی سے وہ پاک ہیں بلکہ یہ بھی کہ مرکز کے ساتھ رہ و رسم میں خودداری کا وہ خیال رکھتے ہیں۔ ع
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
اگر وہ بھی کھڑے نہ ہو سکے تو اور کون کھڑا ہو گا۔ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف ایک بنیادی نکتہ نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر معروف کشمیری لیڈروں کو باجگزار بنا لیا تو اس خلا کو انتہا پسند ہی پُر کریں گے۔ نہایت رنج کے ساتھ اہل کشمیر یہ کہتے ہیں کہ صوبوں کے برعکس آزاد کشمیر کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اکیسویں ترمیم میں صوبوں کا ہر مطالبہ مان لیا گیا۔ اہل کشمیر کے ساتھ شودروں کا سا سلوک؟ منگلا ڈیم کی تعمیر کو چار عشرے بیت گئے مگر اب تک اس کی رائلٹی کا فیصلہ نہیں ہوا۔ بہت ردّ و قدح کے بعد سوا دو ارب روپے ادا کرنے کا حکم دیا گیا مگر احتیاط یہ برتی گئی کہ اسے رائلٹی کا نام دینے سے گریز کیا جائے۔ کیا اہل کشمیر کے لہو کا رنگ کم سرخ ہے؟ دوسروں کے مقابلے میں‘ کیا وہ پاکستان سے کم محبت کرتے ہیں؟ مٹی سے نہیں لوگوں کو وطن کی فضا اور ماحول سے الفت ہوا کرتی ہے۔ اس فضا اور ماحول کا انحصار حکمرانوں پر ہوا کرتا ہے۔ بات بڑی تلخ ہے مگر اتنی ہی سچی بھی کہ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف‘ مستقبل کے لیے ایک اور بلوچستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی پریس‘ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا بلوچستان کی طرح کشمیر اور شمال کو بھی نظرانداز کرتا ہے۔ دانشوروں اور لیڈروں کو خبر تب ہوتی ہے‘ جب طوفان پل کر جوان ہو جائیں اور سنبھالے نہ سنبھل سکیں۔
بیرسٹر سلطان محمود سے آصف علی زرداری اور عمران خان سے میاں محمد نوازشریف کی نفرت قابل فہم ہے۔ زرداری صاحب کو ضد نے آ لیا ہے کہ بیرسٹر نے ان کی پارٹی کو خیرباد کہنے کی جرأت کیسے کی۔ انہی کے حکم پر چودھری عبدالمجید‘ سینکڑوں گاڑیوں اور بے شمار افسروں کی فوج کے ساتھ 52 روز سے میرپور میں مقیم ہیں۔ کاروبار حکومت دو ماہ سے بند پڑا ہے۔ کشمیری لیڈر اور اخبار نویسوں کے مطابق ان سے کہا گیا ہے کہ پانی کی طرح پیسہ بہانا پڑے تو بہا دیں‘ مگر یہ الیکشن ہر حال میں جیتا جائے۔ سبب آشکار ہے۔ تحریک انصاف ابھر آئی تو آزاد کشمیر میں بھی پیپلز پارٹی کا مستقبل پنجاب اور پختون خوا سے مختلف نہ ہو گا۔ سوال دوسرا ہے۔ سیاسی جنگ‘ سیاسی طور پر کیوں نہیں لڑی جا رہی۔ جناب زرداری اور میاں صاحب کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ ذاتی ترجیحات کے لیے قومی خزانہ برباد کریں۔
بیرسٹر سلطان محمود فرشتہ نہیں۔ ایک کے بعد وہ دوسری پارٹی کا وہ رُخ کرتے رہے مگر کرپشن کا الزام ان پر کبھی نہ لگایا گیا۔ حلقہ کے ووٹروں سے ان کا ربط بھی اکثر برائے نام رہا۔ یہ پہلی بار تھا کہ امیدواروں کو ایک ایک ووٹر کے دروازے تک جانا پڑا۔ نقطہ عروج وہ تھا‘ جب ایک چھوٹے سے مکینک نے چودھری عبدالمجید کو فون کیا کہ کیا وہ اس کی دکان کا افتتاح کرنا پسند کریں گے یا وہ عمران خان سے رابطہ کرے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم تیس منٹ کے بعد اس کی خدمت میں جا حاضر ہوئے۔
لیڈر لوگ پھر سے فرسودہ سیاست مسلط کرنے پر تلے ہیں۔ یہ ابن الوقتی‘ مفاد پرستی اور شعبدہ بازی کی سیاست ہے۔ معاف کیجیے گا گھٹیا سیاست۔ خود عمران اور اس کے ساتھیوں نے بھی کسی بہتر اخلاقی معیار کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کے نعرے میں البتہ کشش ہے کہ کشمیر کے فیصلے کشمیر میں ہوں گے۔ فقط اس نعرے سے دونوں بڑے لیڈر اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ متحدہ محاذ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ڈیڑھ برس کے بعد عام انتخابات میں نون لیگ کس منہ کے ساتھ ووٹروں کے پاس جائے گی؟ جہاں تک میرپور ڈویژن کا تعلق ہے‘ پیپلز پارٹی کی حمایت نے اس کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ دوسرے علاقوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا لیکن ہمارے نیم خواندہ‘ لیڈروں نے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ اس کے باوجود ان کا گمان یہ ہے کہ خلقِ خدا انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی رہے گی؟