بھارت کے موجودہ صدر پرناب مکرجی کی آٹوبائیوگرافی پڑھ رہا ہوں۔ ابھی بھارت میں چھپی ہے۔ پرناب جی کا منصوبہ یہ ہے کہ وہ تین حصوں میں اپنی یادداشتیں لکھیں گے۔ یہ ان کا پہلا حصہ ہے جس کا عنوان "The Dramatic Decade..The Indira Gandhi years" ہے۔ اس کتاب میں جہاں پرناب جی نے اپنے بچپن کے بارے میں لکھا ہے وہاں ان دس برسوں کا احاطہ کیا گیا ہے جب اندرا گاندھی نے بنگلہ دیش بنوانے میں مدد کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور کتاب خرید لایا ہوں جسے ابھی پڑھنا شروع نہیں کیا۔ یہ کتاب 'The blood telegram' ہے۔ 1971ء کی جنگ کے دوران امریکہ کے کردار پر ہے جو وائٹ ہائوس کی اپنی ریلیز ہونے والی ٹیپس کی مدد سے تیار کی گئی ہے کہ ہنری کسنجر اور امریکی صدر نکسن کس حد تک پاکستان کی مدد کو گئے تھے‘ اندرا گاندھی نے کیسے بنگالیوں کی مدد کی تھی اور ایک نیا ملک کیسے بنا۔ اس کتاب میں زیادہ زور اس پر ہے کہ پاکستانی فوج بنگالیوں پر مظالم کر رہی تھی اور امریکی خاموش تھے۔ اس سے پہلے بروس ریڈل بھی اپنی کتاب میں اس پر لکھ چکے ہیں ۔ تاہم اس نئی کتاب میں زیادہ ریسرچ اور محنت کی گئی ہے اور دستاویزی ثبوت پیش کیے گئے ہیں ۔
ان دونوں کتابوں میں کچھ ایسی باتیں ہیں جنہوں نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ کچھ لکھا جائے۔ مکرجی کی اس کتاب کے اوائل کے کچھ باب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش بنانے میں سب سے اہم رول ہم نے خود ادا کیا تھا۔ بھارت بہت دیر بعد اس کھیل میں شریک ہوا۔ ساری کہانی ریڈکلف ایوارڈ سے شروع ہوئی۔ جب ریڈکلف ایوارڈ سامنے آیا تو اس میں بنگال کو اس طرح تقسیم کیا گیا تھا کہ وہ لوگوں اور لیڈروں کے لیے بھی حیران کن تھا۔ اگرچہ اس وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈروں نے یہ ضمانت دی تھی کہ ریڈکلف کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ انہیں قبول ہوگا لہٰذا سب خاموش رہے‘ لیکن عوام کی سطح پر بنگال کو جس طرح پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم کیا گیا تھا اس پر پہلے دن سے ہی اعتراضات تھے۔
تاہم بنگلہ دیش بننے کی طرف پہلا قدم اس وقت اٹھا جب مسلم لیگ کے اندر بھی بنگال کی تقسیم پر اختلافات سامنے آئے۔ کئی اہم بنگالی لیڈروں کو دیوار کے ساتھ لگادیا گیا تھا جن میں حسین شہید سہروردی، فضل الحق اور عبدالہاشم کے نام شامل تھے۔ بنگال کی تقسیم کے بعد مسلم لیگ میں زیادہ تر زمیندار تھے۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھی اپنی کتاب میں لکھا کہ جب مسلم لیگ میں قیادت کے لیے الیکشن ہوئے تو سہروردی کی شکست کی وجہ یہ تھی کہ وہ زمینداری نظام ختم کرنا چاہتے تھے کیونکہ زیادہ تر ممبران کی تعداد زمیندار تھی۔ جب یہ زمیندار لیڈرشپ الیکشن کے لیے ووٹ ڈالنے آئے تو انہوں نے سہروردی سے تین وزارتیں بھی مانگیں اور یہ یقین دہانی بھی کہ وہ زمینداری نظام ختم نہیں کریں گے۔ سہروردی نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اس وقت کوئی وعدہ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ ان سب نے سہروردی کے خلاف ووٹ دیا ۔
اس کے بعد سیاسی حالات اس وقت بدلے جب قائداعظمؒ رحلت فرما گئے اور خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان شہید کر دیے گئے تو ناظم الدین وزیراعظم بن گئے۔ چند برس بعد ان کی جگہ محمد علی بوگرہ وزیراعظم بنے اور ایک بیوروکریٹ غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ لے لیا۔ غلام محمد کے گورنر جنرل بننے سے پاکستان میں سول بیوروکریسی کی براہ راست حکمرانی کی شروعات ہوئیں۔ پاکستان کے اصل حکمران تو یہ بیوروکریٹس ہی تھے جنہوں نے، زمینداروں، فوج اور کچھ انفرادی گروپس کے ساتھ مل کر پاکستان پر حکومت کرنی شروع کر دی۔ بنگالیوں کو دکھانے کے لیے مسلم لیگ کی مرکزی قیادت میں ناظم الدین اور بوگرہ کو بھی ساتھ رکھا گیا۔ تاہم پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں بھی زیادہ اپنے مفادات کے لیے ہی استعمال کیا۔
مشرقی بنگال میں حکومت بننے کے بعد کانگریس کے کئی لیڈر ایسٹ بنگال سے ویسٹ بنگال ہجرت کر گئے۔ اس طرح اہم مسلم لیگی رہنما بھی ویسٹ بنگال سے ایسٹ بنگال آگئے۔ سیاسی قیادت کی طرح مڈل کلاس نے بھی۔ دیوار کے ساتھ لگنے کی وجہ سے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا اور اس کا خمیازہ اس وقت مسلم لیگ نے بھگتا جب 1954ء میں ایسٹ بنگال اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ مسلم لیگ کمزورہوگئی تھی۔
اس دوران راشٹرا بھاشا (ماں بولی) کی تحریک نے زور پکڑنا شروع کر دیا تھا ۔ قائد اعظم، لیاقت علی خان سمیت مسلم لیگ کے دیگر رہنما اس حق میں تھے کہ صرف اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اس قرارداد پر بحث کی اور مسلم لیگ کے تقریباً سب ممبران نے اس کی حمایت کی۔ تاہم اس اسمبلی کے ایک ممبر بابو دھریندر ناتھ نے مطالبہ کیا کہ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے کیونکہ یہ پاکستان کے ایک بہت بڑے طبقے کی زبان تھی۔ اس مطالبے پر وزیراعظم لیاقت علی خان سمیت مسلم لیگ کی اکثریت نے بہت تنقید کی اور لیاقت علی خان نے دھریندر کو بھارت کا ایجنٹ قرار دے دیا جو پاکستان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
ایک طرف یہاں پاکستان اسمبلی میں بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے والوں پر مسلم لیگ کی قیادت برس رہی تھی تو دوسری طرف بنگال میں اس پر شدید ردعمل سامنے آیا کہ ان کی ماں بولی کو تو پاکستان ماننے کو تیار ہی نہیں۔ بنگال کے طالب علموں نے مظاہرے شروع کیے کہ ان کی ماں بولی بنگالی کو بھی درجہ دیا جائے۔ اس پر مسلم لیگ کے ہی لیڈروں شیخ مجیب الرحمن، قمرالدین احمد اور شمس الحق نے ایک احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھی جس کا نام بنگالی اسٹیٹ لینگوئج احتجاجی کونسل رکھا گیا اور گیارہ مارچ 1948 ء کو بنگلہ بھاشا ڈے کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا۔
اس کال کے جواب میں بڑی تعداد میں بنگالی طالب علم باہر نکلے۔ پولیس نے ان پر حملے شروع کر دیے اور ان طالب علموں کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بہت سے گرفتار ہوئے۔ ایسٹ بنگال اسمبلی کو جو اس وقت سیشن میں تھی‘ میں فضل الحق، محمدعلی بوگرہ اور دیگرنے اس کی سخت مذمت کی اور مسلم لیگ حکومت کو بھی برا بھلا کہا ۔ حکومت کے تشدد کے بعد لوگ بنگلہ بھاشا کے معاملے پر زیادہ اکٹھے ہونا شروع ہوگئے اور حکومت نے مظاہرین کے ساتھ بات چیت کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ تاہم اس دوران قائداعظم نے سولہ مارچ کو ڈھاکہ کا دورہ کرنا تھا جس پر یہ ہڑتال معطل کی گئی۔ چوبیس مارچ کو قائداعظم نے ایک پبلک ریلی سے خطاب کیا اور دوہرایا کہ اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ بعد میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں بھی اس بات کو دوہرایا ۔ دونوں مواقع پر ان کے خلاف نعرے بھی لگے کہ ہم اردو کو واحد سرکاری زبان تسیلم نہیں کرتے۔
قائداعظم کے اس اعلان کے بعد کوئی امید نہ رہی کہ بنگالی سرکاری زبان بن سکے گی اور پہلی دفعہ 1952ء میں زبان کے معاملے پر فسادات ہوئے جس میں بہت سے طالب علم رہنمائوں پر تشدد ہوا، کئی گرفتار ہوئے اور جیلوں میں ڈالے گئے اور کئی ایک تو مر بھی گئے۔ یوں زبان کے معاملے کو اچھی طرح ہینڈل نہ کرنے کا نتیجہ جو نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔ باقی کے مطالبات جو بعد میں چھ نکات کی شکل میں ابھرے‘ ان سب نے دراصل اس ایک نکتے سے جنم لیا تھا کہ بنگالی اپنی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دلوانا چاہتے تھے۔
ویسے ہم پاکستانی کتنے فیاض نکلے کہ ہم نے بنگالی کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دیا‘ لیکن بنگالیوں کو ایک پورا ملک دے دیا۔ ہم آج بھی پاکستان کی زبانوں، سندھی، بلوچی، پنجابی، پشتو، سرائیکی، ہندکو، پوٹھوہاری، بلتی، چترالی اور دیگر درجنوں زبانوں سے اتنی ہی چڑتے ہیں جتنے آج سے تقریبا 65 برس قبل چڑتے تھے۔ یہ ہے وہ سبق جو ہم سب نے بنگلہ دیش کی آزادی سے سیکھا۔ آج بھی کوئی اپنی زبان، کلچر اور علاقائی شناخت کا ذکر کرے تو ہم اسے غدار قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ بنگالی زبان کے خلاف فتوے کراچی سے نکلے تھے اور آج کل یہ فتوے پنجاب سے نکلتے ہیں! ہم کبھی یہ نہیں سوچ سکے کہ خدا نے سب انسانوں کو مختلف رنگوں‘ زبانوں اور علاقوں میں تقسیم کیا ہے‘ جس سے اس کائنات کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔ آج بھی کوئی اپنی ماں بولی کا ذکر کرے تو ہم اسے لسانیت پرست اور ملک کا غدار قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ اردو کو بچاتے بچاتے ہم نے ملک کھو دیا۔ یہ نہیں سوچا کہ اگر ہندوستان میں تیس کے قریب زبانوں کو قومی زبان کو درجہ مل سکتا ہے تو پاکستان میں دس زبانوں کوکیوں نہیں۔
ویسے جو آج اٹھارویں ترمیم کے گاڈ فادر بنتے ہیں کہ انہوں نے اس آئینی ترمیم سے پاکستان کے مسائل حل کر دیے اور اسے ایک کنفیڈریشن کے درجہ دے دیا، ان کے پاس قومی اسمبلی کے چالیس ایم این ایز ایک بل لے کر گئے تھے کہ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے تو ان جعلی سیاسی دانشوروں نے‘ جانتے ہوئے کہ بنگالی زبان کو نہ ماننے پر اس ملک کو کیا قیمت ادا کرنی پڑی تھی، وہ بل اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔
یہ ہیں وہ سبق جو ہم نے ماضی سے سیکھے۔